04/01/2012 - 05/01/2012



زینبی کردار

جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی  کوئی ان کے سامنےکھڑا  ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔
ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔
ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے  ٹیک دیتے ہیں ۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینب کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب کو نہ للکا رسکے ۔ زینب نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا  ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر  یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔
زینب کبریٰ کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے او ردوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت ، عظمت اور سکون و پایداری ، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص  معرفت ،جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔
ان کی نسوانی عظمت ، جھوٹے  بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت ! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے  کو نہیں ملتی ۔
وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بہڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان ھوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔
اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ( ۲۰ )

 ہنر مندانہ گفتگو

میری نظر میں جناب زینب کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔
اگر جناب زینب نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔
سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ  ایک شیوہ اور طریقہ ہے ۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار ، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں ۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا ، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی  ۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی  ایسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تووہ  ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا ۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا  ہے شام میں جناب زینب اور امام سجاد نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنر مندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا ۔ ( ۲۱ )

 تین بنيادی عناصر

امام حسین علیہ السلام کے قیام میں تین بنیادی عنصر پائے جاتے ہیں :
عنصر منطق و عقل ، عنصر عزت و حماسہ ، عنصر مہر و عطوفت:
عقل و منطق کا عنصر امام عالی مقام کے خطبات اور بیانات میں صاف نظر آتا ہے ۔واقعہ سے پہلے سے یعنی مدینہ سے کربلا تک امام کے نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک محکم اور پایدار عقل و منطق کی حکایت کرتا ہے ۔ اس منطق کا خلاصہ یہ ہے جب حالات سازگارہوں ، اسباب فراہم ہوں اور موقع غنیمت ہو تو مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام کرے ۔ چاہے اس میں خطرات ہوں یا نہ ہوں ۔ جب اساس دین خطرے میں ہو اور آپ اپنی زبان و عمل سے اس کا مقابلہ نہ کریں تو خدا یہ حق رکھتا  ہے کہ اس غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ  ویسا ہی سلوک کرے جیسے اس ظالم اور ستمگر کے ساتھ  کرے گا ۔

 عنصر عزت و حماسہ

دوسرا عنصر ، حماسہ ہے ۔ یہ  مجاہدت اور یہ مقابلہ اسلامی عزت و وقار کے ساتھ  ہو " العزة للہ و لرسولھ و للمومنین " کیونکہ عزت صرف خدا ، اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے ۔ اس قیام اور جہاد میں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی اور اسلام کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس مظلومیت کے اوج پر آپ کو ایک چہرہ نظر آتا ہے ایک حماسی اور صاحب عزت چہرہ ۔ اگر ہم آج کےسیاسی اور فوجی مقابلوں اور جہاد پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ افرادہاتھ میں بندوق لے کر میدان جنگ کے لئے نکل پڑے ، بسا اوقات انہوں نے خود ذلیل کیا ہے ۔ لیکن واقعہ عاشورامیں ایسا کچھ بھی  نہیں ہے ۔
جب امام حسین ( ع ) ایک شب کی مہلت مانگتے ہیں تو عزت مندانہ طریقے سے مہلت لیتے ہیں ۔ جب ھل من ناصر کہہ کر نصرت طلب کرتے ہیں وہاں بھی  عزت و اقتدار ہے ۔ مدینہ سے کوفہ تک کے راستے میں جب مختلف افراد سے ملتے ہیں ، ان سے گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اپنی نصرت کی دعوت دیتے ہیں یہ ضعف و ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی  ایک نمایاں اور دلیرانہ عنصر ہے ۔
( اسی زمانے میں ) مدرسہ فیضیہ میں عاشور کے دن امام خمینی ( رح ) کے اس یادگار خطاب کو یاد کیجئے ۔ ایک عالم جس کے پاس نہ کوئی مسلح فوجی ہے نہ کوئی ہتھیار لیکن پھر  اس عزت و وقار کے ساتھ  گفتگو کرتا ہے کہ اپنی عزت کے آگے دشمن کو گہٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ یہ ہے عزت کا مقام و مرتبہ ۔

 عنصر مہر و عطوفت

عاشورا کا تیسرا عنصر مہر و عطوفت ہے ۔ جو خود اس واقعہ میں بھی  نظر آتا ہے اور اس کے بعد بھی  نظر آتا ہے ۔ اس عنصر کا بہت اہم رول رہا ہے جس نے عاشورائی اور شیعہ تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممتاز بنا دیا ۔ عاشورا صرف ایک عقلی اور استدلالی تحریک نہیں ہے بلکہ اس میں عتق و محبت، نرمی و مہربانی اور گریہ و اشک کا عنصر بھی  پایا جاتا ہے ۔ جذبات و احساسات کی طاقت بہت عظیم طاقت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ ہمیں حکم دیتا ہے رونے کا رلانے کا اور اسے واضح اور روشن کرنےکا ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کوفہ و شام میں ایک گفتگو کرتی ہیں لیکن ساتھ  میں مرثیہ بھی  پڑھتی ہیں امام سجاد شام کے منبر پر جاکر عزت و افتخار کے ساتھ  حکومت وقت کو پکارتے ہیں لیکن مرثیہ پڑھتے ہیں ۔ جذبات اور احساسات کے ماحول میں بہت سے ایسےحقائق کو سمجھا جاسکتا ہے جو دوسری جگہوں پر سمجھ  میں نہیں آتے ۔ ( ۲۲ )

 عاشورا ایک عید

واقعہ کربلا کو ایک وقت ہم مصیبت کی آنکہ سےدیکھتے ہیں جس میں تمام مصیبتیں پائی جاتی ہیں ہم اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کی تأئید کرتے ہیں ۔ اور ہمارے لئے اس کی بہت زیادہ برکات تھی ں ( اور ہیں ) اور یہ اس واقعہ کا جذباتی ، احساساتی اور عاطفی پہلو ہے ۔ امام حسین کون تھے  ؟ کیوں قتل کیے گئے ؟ کیسے قتل کئے گئے ؟ کن لوگوں نے انہیں قتل کیا ؟ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔
لیکن ایک بار آپ عاشورا کو اس نگاہ سےدیکھتے ہیں کہ اسلام مر رہا تھا  عاشورا نے اسے زندہ کیا ۔ اس خون اور اس شہادت کے ذریعہ دم توڑتا اسلام پھر  سے زندہ ہوگیا ۔ جب آپ اس نگاہ سے عاشورا کودیکھیں گے تو آپ بھول  جائیں گے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تھا  ۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا ؟ آپ بھول  جائیں گے کہ امام حسین علیہ السلام جیسی کسی شخصیت کا قتل ہو ۔ کیونکہ اس واقعہ کا یہ مثبت پہلو اتنا صاف ، شفاف اور حاوی ہے کہ تمام منفی پہلووں کوچھپا دیتا ہے ۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو سید ابن طاووس کہتے ہیں : " اگر یہ درد و غم اور مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم عاشور کے دن نیا لباس پہنتے اور اسے ایک عید کے طور پر مناتے " ۔ ( ۲۴ )

 خون کی خاصیت

دنیا کی بزرگ اور نمایاں شخصیات جب ایک عظیم مقصد کی راہ میں شہید ہوجاتی ہیں وہ اگرچہ اس تحریک ، اس انقلاب یا اس معاشرے کو اپنے فقدان کے ذریعہ ایک اہم اور گرانقدر شخصیت سے محروم کر دیتی ہیں لیکن اپنی فداکاری اور اپنے خون و شہادت کے ذریعہ اس تحریک کو زندہ کر جاتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے تاریخ میں ہمارے شہدا کا وجود رہا ہے جس کی ایک واضح مثال واقعۂ کربلا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام جیسی بے مثل اور گرانقدر شخصیت جب اس دنیا سے اٹھ  جاتی ہے اگرچہ معاشرہ کا اس شخصیت سے محروم ہونا نا قابل جبران نقصان اور خلا کا باعث ہے لیکن ان کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ تحریک حسینی زندہ جاوید بن جاتی ہے ۔ یہ ہے قربانی اور فداکاری کی تاثیر ۔ یہ ہے خون کی خاصیت ۔ جب دعوے انسانوں کے خون سے جامہ عمل پہن لیتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں۔ ( ۲۵ )

عزا برپا کرنے والے غافلو

مولانا روم نقل کرتے ہیں کہ ایک شاعر شہر حلب میں داخل ہوا ۔اس نےدیکھا  کہ پورے شہر کے در و دیوار سیاہ پوش ہیں ۔ اس نے سوچا شاید کوئی بادشاہ ، شہزادہ ، سردار یا شہر کا کوئی معزز انسان دنیا سے چل بسا ہے ۔ کسی سے پوچھا  کہ آخر کون مرگیا جو پورا شہر سیاہ پوش ہوگیا ہے ؟ اس شخص نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور پوچھا  کیا تم اس شہر میں اجنبی ہو ؟ جواب دیا : ہاں ! بولا : میں سمجھ  گیا تھا  کہ تم اجنبی ہو اسی لئے پوچہ رہے ہو ۔ یہ محرم کا مہینہ ہے ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت کا مہینہ ہے اسی لئے ہم سب سیاہ پوش ہوگئے ہیں ۔
اب شاعر نے اس سیاہ پوش کے جواب میں شعر کہنا شروع کہا کہ  جب یہ لوگ جو  درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور حسین ابن علی شہید کئے گئے ہیں تو یہ ان کی  خوشی اور جشن کا دن ہے ۔
زانکہ ایشان خسرو دین بودہ اند وقت شادی شد جو بگستند بند
 سوی شاد روان دولت تاختند     کندہ و زنجیر را انداختند
وہ شہید ہوکر خوش ہوئے لہٰذا ان کے دوستوں کو بھی  ان کی شہادت پر خوش ہونا چاہئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کو آج کیوں معلوم ہوا کہ حسین شہید ہوئے ؟ آج معلوم ہوا تو عزاداری بپا کر رہے ہیں ؟ ان چند سو سالوں میں ( چوتھی  اور پانچویں صدی میں ) دنیائے اسلام یہ نہ سمجھی کہ حسین ابن علی شہید ہوگئے  اور انہیں کیوں شہید کیا گیا ؟ تم خواب غفلت کا شکار تھے  ۔
پس عزا برخود کنیدای خفتگان زانکھ بد مرگسیت این خواب گران
حقیقت ہے جو لوگ جو یہ نہ سمجھ  پائے کہ حسین کیوں شہید ہوئے ۔ جو یہ نہ سمجھ  پائے کہ وہ علم جو حسین ابن علی علیہما السلا کے ہاتھوں  میں تھا  وہ کیوں بلند کیا گیا اور حسین کو ماننے والوں کی ذمہ داری کیا ہے ، انہیں خود پر رونا چاہئے جب بھی  حسین کے نام پر آپ کے دل میں سوزش ہو اور آپ گریہ کریں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس عزاداری اور ان اشکوں کا کیا پیغام ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی  غافل رہیں اور پھر  خود پر گریہ کریں اور حسین ابن علی کو نہ سمجھ  پائیں ۔ (82 )

 چہلم

چہلم کی اہمیت کس وجہ سےہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ امام عالی کی شہادت کے چالیس ان گذر چکے ہیں ؟ آخر اس کی کیا خاصیت ہے ؟ چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔ فرض کیجیےاگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما ہوتا یعنی حسین ابن علی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے ساتھ یوں کے جسمہائے مبارک کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی صورت میں اس کا شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ؟
یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر اور مستقبل کی بلاؤں ، مصیبتوں ، تاریکیوں اور یزیدان وقت پر بھی  اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ؟
ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے ۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی  پہنچے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ایک آواز پر دوسری آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے پائے ۔ اسی لئے وہ بے تھا شا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ دنیا نہ سمجھ  پائے کہ تحمیلی جنگ کیا تھی  ، کیوں پیش آئی ، اس کا محرک کون تھا  ، کس کے ذریعہ تھوپی گئی ۔ اس وقت بھی  استکباری طاقتوں کی پوری کوشش تھی  کہ جو بھی  جتنا بھی  خرچ ہو کسی بھی  طرح سے حسین کا نام ، ان کی یاد ، ان کی شہادت اور کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے ۔ البتہ شروع میں خود ان کی بھی  سمجھ  میں نہیں آیا تھا  کہ یہ شہادت کیا کرسکتی ہے لیکن جتنا زمانہ گزرتا گیا ان کی سمجھ  میں آنے لگا ۔ یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام عالی مقام کی قبر کو منہدم کیا گیا ۔ اسے پانی سے گھیر دیا گیا ۔ تاکہ اس کا کوئی نام نشان باقی نہ رہے ۔ یہ ہے شہداء اور شہادت کی یاد کا اثر ۔ شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکہاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا  جائے گا اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکہنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا اب چاہے امام حسین (ع) کے پہلے چہلم میں اہل حرم کربلا آئے ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر،ان کی زیارت کو آئے ۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے ۔ جابر اگرچہ نابینا تھے  لیکن عطیہ کاہاتھ پکڑ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر  پر آئے اور زار و قطار رونے لگے ۔ امام حسین علیہ السلام سے گفتگو کی ، درد دل بیان کیا ۔ امام حسین ( ع ) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا ۔ ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن ۔ ( 83 )

جوقوم اسیر ہے

ہمارے ملک میں لوگ امام عالی مقام کو جانتے اور پہچانتے تھے  اور ان کی تحریک سے واقف تھے  ۔ ان کے اندر حسینی روح تھی  اس لیے جب امام خمینی ( رح ) نے فرمایا کہ محرم وہ مہینہ ہے جب شمشیر پر خون کی فتح ہوگی تو لوگوں نے تعجب نہیں کیا اور یہی ہوا بھی  خون شمشیر پر فتح پاگیا ۔ کئی سال پہلے یعنی انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ایک نشست میں حقیر نے اسی بات کو سمجھ انے کے لئے مولانا روم کی زبانی ایک مثال دی اور وہ مثال یہ تھی  کہ ایک شخص تھا  جس نے گھر میں ایک طوطا پال رکھا  تھا  ۔ ایک بار اس نے ہندوستان سفر کا ارادہ کیا ۔ جب وہ اپنے اہل و عیال سے رخصت ہونے  لگا تو اپنے اس طوطے کے پاس بھی  گیا اور اس سے کہا : میں تمہارے وطن ہندوستان جارہا ہوں ( تمہیں اپنے ہم وطنوں سے کچھ  کہنا ہے ) طوطے نے کہا : جب وہاں پہنچو تو فلاں جگہ جانا وہاں میرے بہت سے ساتھی ہوں گے ان سے میرا حال زار بیان کرنا اور کہنا تمہاری طرح کا ایک طوطا میرے گھر میں بھی  ہے جسے میں نے پنجرے میں بند کر کے رکھا  ہے ۔ ( میرا یہ پیغام پہنچا  دینا) اس کے لئے علاوہ مجھے  کچھ  نہیں کہنا ہے ۔ جب وہ ہندوستان پہنچا اور اس جگہ گیا تو دیکھا  کہ درختوں پر بہت سےطوطے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کودیکھ  کر کہنے لگا : اے پیارے اور شیریں زبان طوطو ! میں تمہارے لئے ایک پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھ  میرے گھر میں پنجرے میں بند ہے ۔ بہت خوش و خرم ہے ۔ اچھے  سے اچھا کھانا  کھاتا ہے ۔ اور خوب مزے کرتا ہے اس نے تم سب کو سلام کہا ہے ۔
جیسے ہی تاجر نے یہ پیغام سنایا سب طوطےپر پھڑ پھڑا کر  زمین پر گر پڑے ۔ تاجر آگے بڑھا اور دیکھا  کہ سب مر گئے ہیں ۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ آخر میں ایسی بات کیوں کہی جسے سن کر انہوں نے اپنی جان دے دی ۔ لیکن اب تو ہوچکا تھا  کچھ  کیا بھی  نہیں جاسکتا تھا  لہٰذا وہ پلٹ آیا جب گہر آیا تو پنجرے کے پاس جاکر طوطے سے کہنے لگا : میں نے تیرا پیغام تیرے ساتھیوں تک پہنچایا ۔ پوچھا :انہوں نے کیا جواب دیا : کہا: جیسے ہی انہوں نے تیرا پیغام سنا پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے درختوں سے زمین پر گرے اور مر گئے ۔ جیسے ہی تاجر کی باتیں ختم ہوئی اس طوطے نے بھی  اپنے پر پھڑ پھڑائے اور پنجرے ہی میں ڈھیر ہوگیا ۔ تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا اور سوچنے لگا اب تو یہ مر چکا ہے یہاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ لہٰذا اس نے پنجڑہ کہول کر اسے پیروں سے پکڑا اور چہت کی طرف اچھا ل دیا ۔ جیسے ہی تاجر نے اسے اوپر اچھا لا وہ اڑتا ہوا ایک دیوار پر جاکر بیٹہ گیا اور تاجر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا : بہت بہت شکریہ تم نے خود مجھے  آزادی دلائی ہے ۔ میں مرا نہیں تھا  بلکہ میں نے اپنے کو مردہ بنا لیا تھا  اور یہ درس میں نے اپنے ساتھیوں کے عمل سے سیکھا تھا  ۔ جب ان کو تمہاری زبانی پتہ چلا کہ میں پنجرے میں قید ہوں تو انہوں نے سوچا کہ مجھ سے کس طرح کہیں کہ کیا کروں تاکہ  آزاد ہوجاؤں ؟ انہوں نے عملاً مجھے  بتایا کہ اپنی نجات کے لئے کیا کروں۔ انہوں نے مجھ سے کہا مر جاؤ تاکہ زندگی پاؤ اور میں نے تمہاری زبانی ان کا یہ پیغام سمجھ  لیا ۔ یہ ایک عملی پیغام تھا  جو اتنی دور سے مجھ تک پہنچا تھا  اور میں نے اس سے سبق حاصل کیا ۔ تقریبا بیس سال پہلے ، میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہوکر کہا : عزیزان گرامی ! امام حسین (ع) کس زبان میں کہیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ حالات ویسے ہی ہیں ۔ زندگی وہی ہے ۔ اسلام بھی  وہی اسلام ہے  لہٰذا امام حسین علیہ السلام نے عملا بتایا کہ کیا کرنا  چاہئے ۔ اگر امام عالی مقام اپنی زبان سے ایک لفظ بھی  نہ کہتے تب بھی ہمیں سمجھ  جانا چاہئے تھا  کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ۔ وہ قوم جو اسیر ہے ، وہ قوم جو قید و بند میں ہے ۔ وہ قوم جس کے حکام فساد کا شکار ہیں ۔ وہ قوم جس پر اسلام کے دشمن حکومت کر رہے ہیں اور اس کی باگ ڈورہاتھ میں لیتے ہوئے ہیں اسے بہت پہلے سمجھ  جانا چاہئے کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے ۔ کیونکہ امام عالی مقام نے عملاً بتا دیا کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئے ۔ اسے زبان سے نہیں کہا جاسکتا تھا  ۔ اگر سوبار بھی  زبان سے یہ بات کہتے اور خود نہ جاتے تو ناممکن تھا  کہ یہ پیغام تاریخ سے گزر کر ہم تک پہنچتا ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہنا تاریخ سے آگے نہیں بڑھتا  کیونکہ ہزاروں طرح سے ان باتوں کی توجیہ اور تاویل کی جاتی ہے ۔ لہٰذا عمل ہونا چاہئے اور وہ بھی  ایسا عظیم سخت اور فداکاری کے ساتھ  کہ جیسا امام عالی مقام نے انجام دیا ۔ ( ۳۱ )


امام حسين کے قيام اورمقصد شہادت سے متعلق مختلف نظريات

الف:کيا امام حسين کا قيام تشکيل حکومت کيلئے تھا؟

بہت سے افراد يہ کہتے ہيں کہ امام حسين ، يزيد کي فاسد حکومت کو ختم کرکے خود ايک حکومت تشکيل دينے کے خواہش مند تھے؛ يہ ہے اِن افراد کي نگاہوں ميں سيد الشہدا کے قيام کا مقصد۔ يہ بات تقريباً آدھي درست ہے ، ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ غلط ہے۔ اگر اس نظريے کا مقصد يہ ہے کہ امام حسين نے تشکيل حکومت کيلئے اس طرح قيام کيا کہ اگر وہ ديکھتے کہ انسان اپنے نتيجے تک نہيں پہنچ سکتا تو وہ يہ کہتے کہ ہم حکومت تو نہيں بنا سکے لہٰذا اِس تحريک کو يہيں ختم کرکے واپس لوٹ جاتے ہيں ! يہ بات غلط ہے۔
جي ہاں جو بھي حکومت بنانے کي غرض سے قدم اٹھاتا اور اُس کے ليے تحريک چلاتا ہے تو وہاں تک کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک يہ کام ممکن اور شدني ہے ليکن جيسے ہي اُسے اُس کام کے نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے يا وہ عقلي طورپر مقصد تک جانے والي راہوں کو مسدود پاتا ہے تو اُس کي ذمہ داري يہ ہے کہ وہ لوٹ آئے۔ اگر تشکيل حکومت ہي انسان کا مقصد ہے تو وہاں تک کوشش کرنا صحيح ہے کہ جہاں تک پيش رفت کرنا ممکن ہو اور جہاں اقدام کرنے کا امکان ختم ہوجائے تو اُسے لوٹ جانا چاہيے۔ اگر کوئي يہ کہے کہ اپنے قيام سے سيد الشہدا کا مقصد امير المومنين کي مانند ايک حکومت حق کي تشکيل تھي يہ بات درست نہيں ہے، اِس لئے کہ امام حسين کي پوري تحريک اس نظريے کي تائيد نہيں کرتي ۔
اِس کے مقابل کچھ افراد کا نظريہ ہے کہ نہيں جناب، حکومت بنانے کا تو سوال ہي پيدا نہيں ہوتا؛ حضرت جانتے تھے کہ وہ حکومت نہيں بناسکتے ہيں، وہ تو کربلا اس ليے آئے تھے کہ قتل ہوں اور درجہ شہادت پر فائز ہوں! ايک زمانے ميں بہت زيادہ افراد اِس نظريے کے حامي اور طرفدارتھے اور بہت سے شعرائ اِس نظريے کو اپني خوبصورت شاعري کے قالب ميں ڈھال کر عوام کيلئے بيان کرتے تھے ۔ بعد ميں مَيں نے ديکھا کہ بعض بڑے علمائ نے بھي اِسي بات کو بيان کيا؛ يعني حضرت امام حسين نے صرف اس ليے قيام کيا تھا کہ وہ شہيد ہوجائيں ليکن درحقيقت يہ کوئي نئي بات اور نيا نظريہ نہيں ہے۔ لہٰذا اِن افراد کے نظريے کے مطابق سالار شہيداں نے يہ کہا کہ’’ ہمارے زندہ رہنے سے تو کوئي کام نہيں ہوسکتا پس ہم اپني شہادت سے کوئي کام انجام ديتے ہيں‘‘!

ب:کيا امام حسين نے شہادت کيلئے قيام فرماياتھا؟

قرآن واہل بيت کي تعليمات ميں ان باتوں کي کوئي سند و اعتبار نہيں ہے کہ ’’جاو اور بغير کسي وجہ کے شہيد ہوجاؤ‘‘؛ اسلامي تعليمات ميں ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي!
ہم شريعت مقدس اور قرآن وروايات ميں جس شہادت کا ذکر پاتے ہيں اُس کا معني يہ ہے کہ انسان ايک واجب يا راجح (عقلي) مقدس ہدف کے حصول کي راہ ميں جدوجہد کرے اور اُس راہ ميں قتل کيا جائے؛ يہ ہے صحيح اسلامي شہادت۔ ليکن اگر انسان صرف اس ليے قدم اٹھائے کہ ميں جاوں اور بغير کسي وجہ کے قتل ہوجاوں يا شاعرانہ اور اديبانہ تعبير کے مطابق ميرے خون کا سيلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نيست و نابود ہوجائے! يہ تمام چيزيں ، واقعہ کربلا کے عظيم واقعہ سے کسي بھي طرح ميل نہيں کھاتيں۔ صحيح ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے کہ امام حسين کي شہادت نے يہ کام انجام ديا ليکن سيد الشہدا کا مقصد يہ نہيں تھا۔
المختصر يہ کہ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ سيد الشہدا نے تشکيل حکومت کيلئے قيام کيا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہي ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ سيد الشہدا نے شہيد ہونے کيلئے قيام کيا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئي اور چيز تھي کہ جسے آپ کي خدمت ميں بيان کرنا چا ہتا ہوں۔

حکومت و شہادت دونتيجے تھے نہ کہ ہدف!

ميں تحقيق و مطالعہ سے اِس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہيں کہ امام حسين کا ہدف حکومت يا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتيجے کو آپس ميں ملا ديا ہے، اِن ميں سے کوئي ايک بھي سيد الشہدا کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک دوسري ہي چيز سيد الشہدا کا ہدف تھي۔ پس فرق يہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کيلئے ايک ايسي تحريک و جدوجہد کي ضرورت تھي کہ جس کا اِن دو ميں سے ايک نتيجہ نکلنا تھا، يا حکومت ملتي يا شہادت۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ سيد الشہدا دونوں نتيجوں کيلئے پہلے سے آمادہ اور تيار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کي تشکيل اور شہادت کيلئے مقدمات کو تيار کرليا تھا اور دونوں کيلئے پہلے سے خود کو آمادہ کيا ہوا تھا؛ دونوں ميں سے جو بھي نتيجہ سامنے آتا وہ اُن کي منصوبہ بندي کے مطابق صحيح ہوتا ليکن حکومت و شہادت ميں سے کوئي ايک بھي اُن کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک تيسري ہي چيز اُن کا ہدف تھي۔ ہدف، ايسے عظيم واجب کو انجام دينا تھا کہ جس پر ابھي تک عمل نہيں کيا گيا تھا!
سيد الشہدا کا ہدف کيا تھا؟ پہلے اس ہدف کو مختصراً ايک جملے ميں ذکر کروں گا اور اِس کے بعد اِس کي مختصر سي وضاحت کروں گا۔
اگر ہم امام حسين کے ہدف کو بيان کرنا چاہتے ہيں تو ہميں اِس طرح کہنا چاہيے کہ اُن کا ہدف واجبات دين ميں سے ايک عظيم ترين واجب کو انجام دينے سے عبارت تھا کہ جس کو سيد الشہدا سے قبل کسي ايک نے ، حتي خود پيغمبر اکرم (ص) ، امير المومنين اور امام حسن مجتبيٰ نے بھي انجام نہيں ديا تھا۔
وہ ايسا واجب تھا کہ جو اسلام کے عملي اور فکري نظام ميں بہت زيادہ اہميت کا حامل ہے؛ يہ واجب بہت زيادہ قابل اہميت اوربنيادي حيثيت کا حامل تھا ليکن اِس کے باوجود اُس پر عمل نہيں ہوا تھا ۔ ميں آگے چل کر يہ عرض کروں گا کہ اِس واجب پر ابھي تک عمل کيوں نہيں ہوا تھا، امام حسين کو اِ س واجب پر عمل کرنا چاہيے تھا تاکہ تاريخ ميں سب کيلئے ايک درس رہ جائے۔ جس طرح پيغمبر اکرم (ص) نے حکومت تشکيل دي تو آپ کا حکومت کو تشکيل دينا پوري تاريخ اسلام ميں سب کيلئے درس بن گيا۔ رسول اللہ (ص)نے فقط احکام جاري نہيں کيے تھے بلکہ پوري ايک حکومت بنائي تھي يا حضرت ختمي مرتبت (ص) نے جہاد في سبيل اللہ انجام ديا تو يہ تا ابد تاريخ بشريت اور تاريخ اسلام کيلئے ايک درس بن گيا۔ اِسي طرح اِس واجب کو بھي امام حسين کے وسيلے سے انجام پانا چاہيے تھا تاکہ پوري تاريخ کے مسلمانوں کيلئے ايک عملي درس بن سکے۔

امام حسين کے زمانے ميں اِس واجب کو انجام دينے کي راہ ہموار ہوئي!

اب سوال يہ ہے کہ امام حسين ہي کيوں اِ س واجب پر عمل کريں؟چونکہ اِس واجب کو انجام دينے کي راہ امام حسين کے دور ميں ہي ہموار ہوئي۔ اگر يہ حالات امام حسين کے زمانے ميں پيش نہيں آتے مثلاً امام علي نقي کے زمانے ميں يہ حالات پيش آتے تو امام علي نقي اِس کام کو انجام ديتے اورتاريخ اسلام ميں عظيم ترين حادثے اور ذبح عظيم کا محور قرار پاتے؛ اگر يہ حالات امام حسن مجتبيٰ يا امام جعفر صادق کے زمانے ميں پيش آتے تو يہ دونوں ہستياں اِسي طرح عمل کرتيں،چونکہ امام حسين سے قبل کسي اور معصوم کے زمانے ميں يہ حالات پيش نہيں آئے تھے لہٰذا کسي معصوم نے اُس پر عمل نہيں کيا تھا اور اسي طرح امام حسين کے بعد بھي زمانہ غيبت تک تمام آئمہ طاہرين کے دور ميں بھي يہ حالات پيش نہيں آئے۔
پس سيد الشہدا کا ہدف اِ س عظيم ترين واجب کو انجام دينے سے عبارت ہے، اب ميں اِس کي وضاحت کرتا ہوں کہ يہ واجب کيا ہے ؟ اُس وقت اِس واجب کي ادائيگي خود بخود اِن دو نتيجوں ميں سے کسي ايک تک پہنچتي؛ يا اُس کا نتيجہ يہ نکلتا کہ امام حسين کو قدرت و حکومت حاصل ہوجاتي،سبحان اللہ؛ بہت خوب، اور امام حسين اس کيلئے پہلے سے تيار تھے۔ اگر حکومت کي زمام سيد الشہدا کے ہاتھ ميں آجاتي تو آپ پوري طاقت و قدرت کے ساتھ اُسے اپنے ہاتھ ميں لے ليتے اور اپنے معاشرے کو رسول اکرم (ص) و امير المومنين کے زمانے کي مانند چلاتے ؛ ايک وقت اس واجب پر عمل پير اہونے کا نتيجہ شہادت کي شکل ميں نکلتا تو بھي امام حسين شہادت اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کيلئے پہلے سے تيار تھے۔
خداوند عالم نے امام حسين سميت ديگر آئمہ معصومين کو اِس طرح خلق فرمايا تھا کہ اِس امر عظيم کيلئے پيش آنے والي اُس خاص قسم کي شہادت کے بار سنگين کو اٹھا سکيں اور اِن ہستيوں نے اِن تمام مصائب و مشکلات کوبرداشت بھي کيا۔ البتہ کربلا ميں مصائب کا پہلو اِس واقعہ کا ايک دوسرا عظيم رخ ہے۔

پيغمبر اکرم (ص) اسلامي احکامات کا مجموعہ لے کر آئے

اب ميں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو تھوڑي وضاحت کے ساتھ بيان کروں۔ ميرے محترم بہن بھائيو! پيغمبر اکرم (ص) يا کوئي رسول جب بھي خدا کي طرف سے آتا ہے تو اسلامي احکامات کا ايک مجموعہ ليکر آتا ہے۔ اِن ميں سے بعض احکامات انفرادي ہوتے ہيں تاکہ انسان اپني اصلاح کرے اور بعض اجتماعي ہوتے ہيں تاکہ دنيائے بشر کو آباد کرے، انسانوں کي صحيح سمت ميں راہنمائي کرے اور انساني معاشرے کو ايک صحيح نظام کے ذريعے قائم رکھے۔ يہ انفرادي و اجتماعي احکامات ايک مجموعے کي شکل ميں ہوتے ہيں کہ جنہيں’’ اسلامي نظام ‘‘کہا جاتا ہے۔
قرآن؛ رسول اکرم (ص) کے قلب مقدس پر نازل ہوا اور حضرت ختمي مرتبت (ص) نماز ، روزہ، زکات، انفاق، حج، گھريلو زندگي کے احکامات، انفرادي رابطے و تعلقات ، جہاد في سبيل اللہ ، تشکيل حکومت، اسلامي معيشت، حاکم اور عوام کا رابطہ اور حکومت کي نسبت عوام کے وظائف کے احکامات لے کر آئے اِن تمام احکامات کو ايک مجموعے کي شکل ميں بشريت کے سامنے پيش کيا اور سب کے سامنے بيان فرمايا۔
’’مَا مِن شَي ئٍ يُقَرِّبُکُم مِنَ الجَنَّۃِ وَ يُبَاعِدُکُم مِنَ النَّارِ اِلَّا وَقَد نَہَيتُکُم عَنہُ وَ اَمَر تُکُم بِہِ‘‘ (1) ؛’’کوئي ايسي چيز نہيں جو تمہيں جنت سے قريب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر يہ کہ ميں نے تمہيں اُس کا حکم نہ ديا ہو اور اُس سے منع نہ کيا ہو‘‘ ۔ حضرت ختمي مرتبت (ص) نے اُن تمام چيزوں کو بيان کيا کہ جو انسان اور ايک انساني معاشرے کو سعادت و خوش بختي تک پہنچا سکتي ہيں؛ نہ صرف يہ کہ بيان کيا بلکہ اُن پر عمل بھي کيا اور اُنہيں نافذ بھي کيا۔ اب جب پيغمبر اکرم (ص) کي حيات مبارکہ ميں اسلامي حکومت اور اسلامي معاشرہ تشکيل  پاگيا ،اسلامي اقتصاديات کو متعارف و نافذ کرديا گيا، اسلامي جہاد نے اپني جڑيں مضبوط کرکے اسلامي حکومت کو دوام بخشا اور زکات نے معاشرے پر سايہ کرليا اور يوں روئے زمين پر ايک حقيقي اسلامي ملک اور اسلامي نظام حکومت نے جنم ليا۔ اب اِس اسلامي نظام کا مدير اور رسول اکرم (ص) کے چلائے ہوئے کارواں کا رہبرو ہادي وہ ہوگا جو اُن کي جگہ پر بيٹھے گا۔

پيغمبر اسلام (ص)کا بتايا ہوا راستہ

رسول اکرم (ص) کا بتاياہوا راستہ بہت واضح اور روشن ہے لہٰذا اِس معاشرے اور اِس سے تعلق رکھنے والے ہر ہر فرد کو چاہيے کہ اِسي راستے پر قدم اٹھائے ، اِسي راستے پر آگے بڑھے اور اِسي راستے سے اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے۔ اگر اسلامي معاشرے کي حرکت اِسي راستے پر اور اسي سمت و سو ميں ہو تو اُس وقت اُس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام انسان اپنے کمال تک پہنچ جائیں گے؛وہ نيک اور فرشتہ صفت انسان بن جائيں گے ، معاشرے سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے گا ، معاشرے کو برائيوں ، فساد ، اختلافات ، فقر وافلاس اورجہالت کے منحوس وجود سے نجات مل جائے گي، انسان اپني کامل خوش بختي کو پالے گا اور خدا کامقرب بندہ بن جائے گا۔ رسول اکرم (ص) کے ذريعہ اسلام ايک ضابطہ حيات کي حيثيت سے لايا گيا اور اس زمانے کے معاشرے ميں نافذ ہوا ليکن کہاں؟ ايک شہر ميں کہ جسے مدينہ کہا جاتا ہے، اُس کے بعد مکہ اور ديگر چند شہروں ميں اِس اسلامي نظام نے وسعت پائي۔

انحراف کي اقسام

يہاں ايک سوال ذہن ميں اُبھرتا ہے کہ يہ کارواں جسے پيغمبر اکرم (ص) نے اُس کے معين شدہ راستے پرگامزن کيا تھا،اگر کسي حادثے کا شکار ہوجائے اور کوئي اُس کارواں کو اُس کے معين شدہ راستے سے ہٹا دے تو يہاں وظيفہ کيا ہے؟ اگر اسلامي معاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے اور يہ بگاڑ اور انحراف اِ س حد تک آگے بڑھ جائے کہ پورے اسلام اور اسلامي تعليمات کو اپني لپيٹ ميں لے لے تو يہاں مسلمانوں کي ذمہ داري کيا ہے؟
انحراف کي دو قسميں ہيں؛ ايک انحراف وہ ہے کہ جس ميں لوگ خراب ہوجاتے ہيں، اکثر اوقات ايسا ہي ہوتا ہے ليکن لوگوں کے منحرف ہونے اور بگڑنے سے اسلامي احکامات ختم نہيں ہوتے ۔ دوسري قسم کا انحراف يہ ہے کہ جب لوگ خرابي کا شکار ہوتے ہيں تو حکومتيں بھي خراب ہوجاتي ہيں اور علمائ اور خطبائ ومقررين بھي انحراف کا شکار ہوجاتے ہيں! ايسے منحرف شدہ افراد سے صحيح دين کي توقع نہيں رکھي جاسکتي کيونکہ انحراف کا شکار افراد قرآن اور ديني حقائق ميں تحريف کرتے ہيں، اچھے کو برا، برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بناکر پيش کرتے ہيں! اسلام کے بتائے ہوئے راستے کو ١٨٠ ڈگري تبديل کر ديتے ہيں! اگر اسلامي معاشرہ اور اسلامي نظام اِس مشکل سے دوچار ہوجائے تو يہاں ذمہ داري کيا ہے؟ شرعي ذمہ داري اوراُس کا حکم موجود تھا مگر عمل کيلئے حالات پيش نہيں آئے تھے پيغمبر اکرم (ص)نے اس سلسلے ميں ذمہ داري اور وظيفے کو بيان کرديا ہے اور قرآن نے بھي يہ فرمايا ہے کہ ’’مَن يَرتَدَّ مِنکُم عَن دِينِہِ فَسَوفَ يَآتِيَ اللّٰہُ بقَومٍ يُحِبُّھُم و يُحِبُّونَہ‘ ‘‘ (2) ،’’تم ميں سے جو بھي اپنے  دين سے مرتد ہوجائے تو اللہ ايسي قوم ليکر آئے گا کہ اُس سے محبت کرے گا اور وہ قوم بھي اللہ سے محبت کرے  گي‘‘۔ اِ س بارے ميں آيات و روايات بہت زيادہ ہيں ليکن ميں اِسے امام حسين کے قول کي روشني ميں بيان کرنا چاہتا ہوں۔
امام حسين نے پيغمبر اکرم (ص) کي اِس قول کو لوگوں کے سامنے بيان کيا کہ يہ پيغمبر (ص) نے فرمايا ہے تو کيا خود پيغمبر اکرم (ص) نے بھي اِس حکم الٰہي پر عمل کيا تھا؟ نہيں کيا تھا؛کيونکہ يہ حکم الٰہي اُس وقت قابل عمل ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو، اگرمعاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے تو اُس کا علاج کرنا چاہيے اور اُس بارے ميں خداوند عالم نے ايک خاص حکم جاري کيا ہے۔ ايسے معاشروں کيلئے کہ جہاں معاشرتي انحراف و بگاڑ اِس حد تک آگے بڑھ جائے کہ يہ اصل اسلام اور اُس کي تعليمات سے انحراف کا سبب بنے تو اِس مقام پر خداوند عالم نے ايک حکم نازل کيا ہے ؛ خداوند عالم نے انسان کو کسي بھي مسئلے ميں بغير حکم کے نہيں چھوڑا ہے۔
حضرت ختمي مرتبت (ص) نے خود اِس حکم خدا کو بيان فرمايا ہے يعني قرآن و حديث نے اِس حکم کو بيان کيا ہے ليکن پيغمبر (ص) خود اِس حکم پر عمل درآمد نہيں کرسکے!آخر کيا وجوہات تھيں کہ پيغمبر (ص)نے خود جس حکم کو بيان فرمايا خود اُس پر عمل نہيں کرسکے ؟ وجہ يہ ہے کہ ِاس حکم الٰہي پر اُس وقت عمل کيا جاتا ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہو جائے۔ رسول اکرم (ص) کے عہد رسالت اورامير المومنين کے عہد ولايت و امامت ميں مسلمان معاشرہ اتنا نہيں بگڑا تھا کہ اِس حکم پر عمل کرنے کي نوبت آئے۔ اِسي طرح امام حسن کے دورميں بھي کہ جب ظاہري  حکومت، معاويہ کے ہاتھ ميں تھي اور اِس اجتماعي انحراف کي بہت سے نشانياں ظہور پذير ہوگئي تھيں ليکن اِس کے باوجود اِس مرحلے تک نہيں پہنچي تھيں کہ جہاں پورے اسلام کي نابودي کا خطرہ پيش آتا۔ يہ کہا جاسکتا ہے کہ ايک خاص زمانے ميں ايسي کوئي صورتحال پيش آئي ہو ليکن اُس وقت اِس حکم الٰہي پر عمل کرنے کي فرصت نہ ملي ہو يا موقع مناسب نہ ہو۔ يہ حکم الٰہي جو اسلامي احکامات کا ايک جزئ ہے اور اِس کي اہميت خود حکومت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے؛ اِس ليے کہ حکومت کا مطلب ہے معاشرے کي مديريت۔ اگر معاشرہ بتدريج اپني راہ سے خارج ہوکر خرابي کا شکار ہوجائے اور حکم خدا تبديل ہوجائے اور ہمارے پاس اِس خراب حالت کو بدلنے کيلئے کوئي حکم اور منصوبہ بندي موجود نہ ہو تو ايسي حکومت کا کيا فائدہ؟!

منحرف معاشرے کو اُس کي اصلي راہ پر پلٹانے کے حکم کي اہميت

پس معلوم ہوا کہ منحرف معاشرے کو اُس کي اصلي راہ پر پلٹانے کے حکم کي اہميت خود حکومت کے حکم ا ور اُس کي اہميت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے ۔ شايديہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ اِس حکم کي اہميت خود کفار سے جہا د کرنے سے بھي زيادہ ہے؛يہ بھي کہنا ممکن ہے کہ اِس حکم کي اہميت ايک اسلامي معاشرے ميں ايک معمولي قسم کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے بھي زيادہ ہے؛ حتي ہم يہ بھي کہہ سکتے ہيں کہ شايدمنحرف معاشرے کو اُس کے راستے پر پلٹانے کا حکم خداوند عالم کي طرف سے عظيم فرائض اور واجبات اور حج سے بھي زيادہ ہے۔
ليکن سوال يہ ہے کہ اِس حکم کي اہميت کيوں زيادہ ہے؟ جواب يہ ہے کہ درحقيقت يہ حکم اسلام کو کہ جب وہ فنا کے قريب ہو يا ختم ہوگيا ہو، زندہ کرنے کا ضامن ہے۔ اب يہاں ايک سوال اور ابھرتا ہے کہ کون ہے جو اِس اہم ترين حکم پر عمل کرے؟ اس عظيم حکم پر نبي اکرم (ص) کا کوئي جانشين ہي عمل کرسکتا ہے اور وہ ايسے زمانے ميں موجود ہو کہ معاشرہ اِس انحراف کا شکار ہوگيا ہو؛ البتہ اِس کي ايک بنيادي شرط يہ ہے کہ اِس حکم پر عمل درآمد کيلئے حالات مناسب ہوں؛ اِس ليے کہ خداوند عالم کسي ايسے عمل کو واجب نہيں کرتا کہ جس کا کوئي فائدہ نہ ہو۔ لہٰذا اگر حالات نامناسب ہوں اوريہ جانشين نبي (ص) کتني ہي محنت کيوں نہ کرے تو اُس کے عمل اور جدوجہد کا کوئي نتيجہ نہيں نکلے گا لہٰذا عمل درآمد کرنے کيلئے حالات کو مناسب و موزوں ہونا چاہيے۔
اِس بات کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ حالات کے مناسب ہونے کا معني کچھ اور ہے؛ نہ يہ کہ ہم يہ کہيں کہ چونکہ اِس حکم کو عملي جامہ پہنانے کي راہ ميں خطرات موجود ہيں لہٰذا حالات سازگار نہيں ہيں ! حالات کے سازگار ہونے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے ۔ حالات و شرائط کو مناسب ہونا چاہيے يعني انسان يہ جانے کہ اگر اُس نے عمل کو انجام ديا تو اِس کا ايک نتيجہ ظاہر ہوگا، يعني لوگوں تک پيغام پہنچ جائے گا، عوام اِس نتيجے سے حقيقت کو سمجھيں گے اور شک و ترديد کے تمام سياہ بادل اُن کے سامنے سے ہٹ کر حقيقت کا اُفق اُن کيلئے روشن و صاف ہوجائے گا۔

امام حسين کے زمانے ميں انحراف بھي تھااور حالات بھي مناسب تھے!

حضرت سيد الشہدا کے زمانے ميں يہ انحراف وجود ميں آچکا تھا اور اِس انحراف کو ختم کرنے کے حکم الٰہي پر عمل درآمد کيلئے حالات بھي مناسب تھے۔ پس اِن حالات ميں امام حسين کو قيام کرنا چاہيے تھا کيونکہ انحرافات اور بدعتوں نے اسلامي معاشرے کو مکمل طورسے اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ وہ مناسب حالات يہ ہيں کہ معاويہ کے بعد ايسا شخص حکومت کا مالک بن بيٹھا ہے (يا جسے پہلے سے تيار شدہ ايک جامع منصوبہ بندي کے تحت ولي عہد بنايا گيا تھا تاکہ اسلام کو نابود کرنے کے بنو اُميہ کے ديرينہ منصوبے پر عمل درآمد کيا جاسکے) جو اسلام کے ظاہري احکام و آداب کي ذرّہ برابر بھي رعايت نہيں کرتا ہے! وہ اايسا ( خودساختہ) خليفہ مسلمين ہے جو شراب پيتا ہے اور اسلامي شريعت کي کھلم کھلا مخالفت اُس کا وطيرہ ہے ، جنسي گناہوں ، ديگر برائيوں اورقبيح ترين اعمال کا علي الاعلان ارتکاب اُس کا شيوہ ہے ، قرآن کے خلاف باتيں کرنا اُس کي عادت ہے، وہ قرآن کي مخالفت اور دين کي تحقير و اہانت کيلئے اشعار باطلہ سے اپني محفل کو زينت ديتا ہے؛ خلاصہ يہ کہ وہ اسلام کا کھلا ہوا دشمن ہے!
چونکہ وہ نام کا خليفہ مسلمين ہے لہٰذا وہ اسلام کے نام کو مکمل طور سے ختم نہيں کرنا چاہتا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ نہ اسلام کا پيروکار ہے، نہ اُسے اسلام سے کوئي دلچسپي ہے اور نہ ہي اُس کا دل اسلام کيلئے دھڑکتا ہے بلکہ اپنے عمل ميں اُس چشمے کي مانند ہے کہ جس سے مسلسل گند گي اور بدبو دار پاني اُبل اُبل کر پوري وادي کو خراب و بدبودار کررہا ہے اور اپنے وجود کے گندے اور بدبودار اعمال سے پورے اسلامي معاشرے کي فضا کو متعفّن و آلودہ کررہا ہے! ايک برا اور فاسد حاکم ايسا ہي ہوتا ہے ۔ چونکہ حاکم، معاشرے ميں سب سے اونچے اور بلند ترين منصب کا حامل ہوتا ہے بالکل ايک بلند ترين چوٹي کي مانند، لہٰذا اُس سے جو بھي عمل صادر ہوگا اُس کے اثرات صرف اُسي چوٹي تک ہي محدود نہيں رہيں گے بلکہ اُس سے نيچے آکر اطراف کے علاقے کو اپني لپيٹ ميں لے ليں گے جبکہ عام عوام و افراد کا عمل اِس خاصيت کا حامل نہيں ہوتا ہے۔
عام افراد کا عمل صرف اُنہي کي چار ديواري اور ذات کے دائرے کے اندر رہتا ہے؛ ليکن جس کا مرتبہ و منصب جتنا بلند ہو اور وہ معاشرے ميں جتنے بڑے درجے کا مالک ہو اُس کي برائيوں کا نقصان بھي اُسي نسبت سے زيادہ ہوتا ہے۔ عام آدميوں کي برائياں اور غلطياں ممکن ہے کہ صرف اُنہي کيلئے يا اُن کے اطراف ميں موجود چند افراد کيلئے نقصان دہ ہوں ليکن جو کسي بڑے عہدے اور درجے کا مالک ہے اگر برائيوں اور غلطيوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اُس کے اعمال کے برے اثرات اطراف ميں پھيل کر پورے معاشرتي ماحول کو آلودہ کرديں گے۔ اِسي طرح اگر معاشرے ميں کسي اعليٰ منصب و مرتبے پر فائز ہونے والا شخص نيک ہوجائے تو اُس کے نيک اعمال کے اثرات اور خوشبو پورے معاشرے کو اپني لپيٹ ميں ليکر ماحول و فضا کو معطر کردے گي۔
معاويہ کے بعدايک ايسا ہي شخص منبر رسول (ص) پر بيٹھ کر خليفہ مسلمين بن گيا ہے اور اپنے آپ کو جانشين پيغمبر (ص) کہتا ہے ! کيا اِس سے بڑھ کر بھي کوئي انحراف ہوگا؟! اب اِس حکم الٰہي پر عمل درآمد کرنے کے حالات و شرايط مہيا ہوگئے ہيں۔ حالات مناسب و سازگار ہيں، اِس کا مطلب کيا ہے؟ کيا اِس کا مطلب يہ ہے کہ اِس راہ ميں کوئي خطرہ موجود نہيں ہے؟ کيوں نہيں، خطرہ موجود ہے۔ کيا يہ بات ممکن ہے کہ کسي اقتدار کا مالک اپنے مقابلے پر آنے والوں کيلئے خطرناک ثابت نہ ہو؟! يہ تو کھلي جنگ ہے؛ آپ چاہتے ہيں کہ اُس کا تخت و تاج اور اقتدار چھين ليں او ر وہ بيٹھ کر صرف تماشا ديکھے! واضح سي بات ہے کہ وہ بھي پلٹ کر آپ پر حملہ کرے گا، پس خطرہ ہر حال ميں موجود ہے۔

سب آئمہ کا مقام امامت برابر ہے!

يہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات مناسب ہيں تو اِس کا مطلب يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کا ماحول اور سياسي و اجتماعي حالات ايسے ہيں کہ ممکن ہے کہ اِس زمانے ميں اور پوري تاريخ ميں انسانوں تک امام حسين کا پيغام پہنچ جائے۔ اگر معاويہ کے دور حکومت ميں امام حسين قيام کرتے تو اُن کا پيغام دفن ہو جاتا۔ وجہ يہ ہے کہ معاويہ کے دور حکومت ميں (اجتماعي و ثقافتي) حالات اور سياست ايسي تھي کہ لوگ حق بات کو نہيں سن سکتے تھے (يا اُن ميں حق و باطل ميں تشخيص کي صلاحيت نہيں تھي)! يہي وجہ ہے کہ امام حسين معاويہ کي خلافت کے زمانے ميں دس سال امام رہے ليکن آپ کچھ نہيں بولے اور کسي قيام و اقدام کيلئے کوئي کام انجام نہيں ديا چونکہ حالات مناسب نہيں تھے۔امام حسين سے قبل امام حسن امام وقت تھے، اُنہوں نے بھي قيام نہيں کيا چونکہ اُن کے زمانے ميں بھي اِس کام کيلئے حالات غير مناسب تھے؛ نہ يہ کہ امام حسن و امام حسين ميں کا م کو انجام دينے کي صلاحيت و قدرت نہيں تھي۔ امام حسن و امام حسين ميں کوئي فرق نہيں ہے، اِسي طرح امام حسين اور امام سجاد اور امام علي نقي و امام حسن عسکري ميں بھي کوئي فرق نہيں ہے! صحيح ہے کہ سيد الشہدا نے چونکہ قيام کيا ہے لہٰذا اُن کا قيام و منزلت اُن آئمہ سے زيادہ ہے کہ جنہوں نے قيام نہيں کيا، ليکن مقام امامت کے لحاظ سے سب آئمہ برابر ہيں۔ آئمہ ميں اگرکسي ايک کيلئے بھي کربلاجيسے کے حالات پيش آتے تو وہ قيام کرتے اور اُسي مقام پر فائز ہوتے۔

وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرے کے ساتھ ہے!

اب امام حسين انحراف و بدعت کے طوفان کے سامنے کھڑے ہيں پس انہيں اپنے وظيفے پر عمل کرنا چاہیے؛ حالات بھي مناسب ہيںلہٰذا اب کسي عذر کي گنجائش نہيںہے۔ يہي وجہ ہے کہ عبداللہ ابن جعفر ، محمد ابن حنفيہ۱ اور عبداللہ ابن عباس ۱ جيسي خاص، دين شناس ، عارف ، عالم، فہم وادراک رکھنے والي شخصيات نے امام حسين سے کہا کہ’’ اے مولا! اِس راہ ميں خطرات ہيں، آپ نہ جائيے۔‘‘ يعني وہ يہ کہنا چاہتے تھے کہ جب وظيفے کي انجام دہي ميں خطرات ہوں تو وظيفے کي ادائيگي واجب نہيں ہوتي۔ يہ لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ يہ وظيفہ کوئي ايسا وظيفہ نہيں ہے کہ جو خطرات کي موجودگي ميں ساقط ہوجائے گا! (3)
اِس وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرات کے درميان گھري ہوئي ہے۔ کيا يہ بات ممکن ہے کہ انسان ايک بہت بڑے اقتدار اور ايک انتہائي مضبوط قسم کے نظام کے خلاف قيام کرے اور اُسے کسي قسم کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اِس واجب پر عمل پيرا ہونے کا مطلب يہ ہے کہ انسان خطرات کو دعوت دے رہا ہے ۔ يہ وہي واجب ہے کہ جسے حضرت امام خميني۲ نے انجام ديا؛ اِن کو بھي يہي کہا جاتا تھا کہ آغا! آپ تو شاہ ايران سے ٹکر لے رہے ہيں، آپ خطرات ميں گھر جائيں گے ۔کيا امام خميني۲ نہيں جانتے تھے کہ اِس راہ ميں خطرات ہيں؟ کيا امام خميني۲ اس بات سے بے خبر تھے کہ شاہ ايران کي خفيہ ايجنسي جب کسي کو گرفتار کرتي ہے تو اُسے شکنجہ و اذيت ديتي ہے ، اُسے قتل کرتي ہے ، اُس گرفتار ہونے والے انسان کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديتي ہے اور اُنہيں جِلا وطن کر
ديتي ہے؟! کيا امام خميني۲ يہ سب نہيں جانتے تھے؟!
وہ کام جو امام حسين کے زمانے ميں انجام پايا، اُس کي ايک چھوٹي سي مثال ہمارے زمانے ميں امام خميني کے ذريعے سے سامنے آئي۔ فرق يہ ہے کہ اُس قيام کا نتيجہ شہادت کي صورت ميں سامنے آيا اور امام خميني۲ کے جہاد و قيام کا نتيجہ حکومت کي صورت ميں نکلا؛ يہ وہي کام ہے اور اس ميں کوئي فرق نہيں ہے۔ امام حسين اور امام خميني۲ کا ہدف، ايک ہي تھا۔ يہي مطلب، امام حسين کي تعليمات کي اساس و جان ہے اور امام حسين کي تعليمات ، شيعہ مذہب کي تعليمات کا ايک بڑا حصہ ہيں؛ سيد الشہدا کي تعليمات مضبوط و محکم بنياد ہیں اور
اسلام کي بنيادوں سے تعلق رکھتي ہيں۔

اسلامي معاشرے کو صحيح راہ پر لوٹانا، ہدف ہے!

پس ہدف يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کو اُس کے صحيح راستے کي طرف لوٹايا جائے ، مگر کون سے زمانے ميں؟ اُس وقت کہ جب اسلام کا راستہ تبديل کرديا گيا ہو اور خاص اورصاحب اثر و نفوذ افراد کي جہالت، ظلم و استبداد اور خيانت، مسلمانوں کو منحرف کردے اورقيام کي شرائط پوري ہوگئي ہوں۔
البتہ تاريخ کے مختلف ادوار ميں مختلف زمانے آتے ہيں ،ايک وہ زمانہ ہے کہ جب شرائط پوري ہوں اور ايک وہ زمانہ ہے کہ جب حالات مناسب ہوں۔ امام حسين کے دور ميں بھي حالات اور شرائط مناسب تھے اور ہمارے زمانے ميں بھي۔ امام خميني۲ نے بھي وہي کام انجام ديا کہ جو امام حسين نے انجام ديا تھا کيونکہ دونوں کا ہدف ايک ہي تھا۔
جب ايک انسان ايک ہدف کے حصول کيلے قدم اٹھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ايک ظالم حکومت اور باطل کے خلاف قيام کرے؛ کيونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام، اسلامي معاشرے اور اسلامي نظام کو اُس کے صحيح راستے پر لوٹا دے تو ايک وقت ايسا ہوتا ہے کہ جب وہ قيام کرتا ہے تو اُسے حکومت مل جاتي ہے، يہ اِس قيام کي ايک صورت ہے کہ جو الحمدللہ ہمارے زمانے ميں سامنے آئي۔ ايک وقت وہ ہے کہ جب وہ قيام کرتا ہے تو وہ حکومت تک نہيں پہنچتا ليکن درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے۔
کيا اِس دوسري صورت ميں اِس وظيفے پر عمل کرنا واجب نہيں ہے؟ کيوں نہيں؛واجب ہے، گرچہ وہ شہيد ہي کيوں نہ ہوجائے۔ يہاں ايک اور سوال پيش آتا ہے کہ کيا اِس صورت ميں کہ جب وہ اپنے وظيفے کي ادائيگي ميں درجہ شہادت کو پالے تو اُس کے قيام کا کيا فائدہ ہے؟ جواب يہ ہے کہ کوئي فرق نہيں پڑتا؛ اِس قيام اور اِس حکومت کي دونوں صورتوں ميں اُس کے قيام کا فائدہ ہے، خواہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہو يااُسے حکومت ملے۔ فرق يہ ہے کہ دونوں کا فائدہ الگ الگ ہے ليکن ہر صورت ميں قيام کرنا اور قدم اٹھانا چاہيے۔

سيد الشہدا نے پہلي بار يہ قدم اٹھايا

يہ وہ کام تھا کہ جسے سيد الشہدا نے انجام ديا اور آپ ٴ وہ پہلي شخصيت تھے کہ جس نے پہلي بار يہ قدم اٹھايا۔ آپ سے قبل يہ کام انجام نہيں ديا گيا تھا کيونکہ زمانہ رسالت ميں نہ يہ بدعتيں تھيں اور نہ امير المومنين کے دور امامت ميں يہ انحرافات وجود ميں آئے تھے يا اگر کچھ مقامات ميں انحرافات تھے بھي تو اُن کے خلاف قيام کي شرائط پوري نہيں تھيں اور نہ ہي حالات مناسب تھے۔ليکن امام حسين کے دور امامت ميں يہ دونوں چيزيں موجود تھيں۔ تحريک حسيني کي حقيقت يہي جاندار نکتہ ہے۔
پس ہم اِس طرح خلاصہ کرسکتے ہيں کہ امام حسين نے اِس ليے قيام کيا کہ اُس عظيم واجب کو انجام دے سکيں جو اسلامي نظام اور اسلامي معاشرے کو ازسر نو تعمير کرنے يا اسلامي معاشرے ميں انحرافات کے مقابلے ميں قيام کرنے سے عبارت ہے۔ يہ عظيم کام؛ قيام اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے ذريعہ ممکن ہے بلکہ انحرفات کا راستہ روکنا خود امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا زندہ مصداق ہے۔ البتہ يہ کام کبھي حکومت و اقتدار پر اختتام پذير ہوتا ہے کہ امام حسين اِس کيلئے تيار تھے اور کبھي انسان کو درجہ شہادت تک پہنچا ديتا ہے اور سيد الشہدا نے خود کو اِس کيلئے بھي آمادہ کيا ہوا تھا۔

حکومت يزيد سے اسلام کو زبردست خطرہ ہے

ہم کس دليل کي بنا پر يہ بات کہہ رہے ہيں ؟ ہم نے اِن تمام باتوں کو خود سيد الشہدا کے کلمات سے اخذ کيا ہے۔ ہم نے امام حسين کے کلمات و ارشادات ميں سے چند عبارتوں کا انتخاب کيا ہے۔
جب مدينے ميں وہاں کے حاکم وليدنے حضرت ٴ کو اپنے پاس بلاکر کہا کہ ’’معاويہ کا انتقال ہوگيا ہے اور آپ کو (نئے خليفہ کي) بيعت کرني چاہيے‘‘۔ حضرت سيد الشہدا نے اُسے جواب ديا : ’’نَنظُرُ وَ تَنظُرُونَ اَيُّنَا اَحَقُّ بِالبَيعَۃِ وَ الخِلَافَۃِ ‘‘ (4)۔ آپ نے فرمايا کہ’’ صبح تک انتظار کرو ، ہم فکر کرتے ہيں کہ ہم (حسين اور يزيد )ميں سے کون خلافت اور بيعت کے لئے شائستہ ہے‘‘!
اگلے دن مروان نے جب امام حسين کو ديکھا تو کہنے لگا: ’’اے ابا عبداللہ، آپ اپنے آپ کو ہلاکت ميں کيوں ڈال رہے ہيں! خليفہ وقت سے آکر بيعت کيوں نہيں کرليتے؟ آپ اپني موت کا سامان تيار نہ کريں!‘‘ سيد الشہدا نے اُس کے جواب ميں يہ جملہ ارشاد فرمايا: ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيہِ رَاجِعُونَ وَ عَلَي الاِسلَامِ السَّلَامُ، اِذ قَد بُلِيَتِ الاُمَّۃُ بِرَاعٍ مِثلَ يَزِيد ‘‘ ، ’’ہم اللہ کي طرف سے آئے ہيں اور ہميں لوٹ کر اُسي کي ہي طرف جانا ہے، جب يزيد جيسا شخص امت مسلمہ کا خليفہ بن جائے تو اسلام کو خدا حافظ کہہ دينا چاہيے‘‘، يعني اسلام پر فاتحہ پڑھ ليني چاہيے کہ جب يزيد جيسا (فاسق و فاجر) شخص اقتدار کو سنبھال لے اور اسلام يزيديت جيسي موذي بيماري ميں مبتلا ہوجائے! يہاں يزيد کي ذات کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ جو بھي يزيد جيسا ہو (5) ۔ حضرت سيد الشہدا يہ کہنا چاہتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص)کے بعد سے ليکر اب تک جو ہوا وہ سب قابل تحمل تھا ليکن اب خود اصل دين اور اسلامي نظام (اور اُس کي بنياديں) نشانے پر ہيں اور يزيد جيسے کسي بھي شخص کي حکومت کرنے سے اسلام نابود ہوجائے گا۔يہي وجہ ہے کہ اس انحراف کا خطرہ بہت زيادہ ہے کيونکہ يہاں خود اسلام خطرے ميں ہے۔
حضرت سيد الشہدا نے مدينہ سے اور اِسي طرح مکہ سے اپني روانگي کے وقت محمد ابن حنفيہ سے گفتگو کي ہے۔ مجھے ايسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ٴکي يہ وصيت مکہ سے آپ کي روانگي کے وقت کي ہے۔ ماہ ذي الحجہ ميں محمد ابن حنفيہ بھي مکہ آچکے تھے اور انہوں نے کئي مرتبہ امام حسين سے گفتگو کي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت ٴنے اپنے بھائي کو اپني تحرير وصيت کے عنوان سے دي۔

ميرے قيام کا مقصد، امت محمدي (ص) کي اصلاح ہے

امام حسين خدا کي وحدانيت کي گواہي دينے اور مختلف امور کو بيان کرنے کے بعد تحرير فرماتے ہيں کہ ’’وَ اِنِّي لَم اَخرُج اَشِرًا وَّلَا بَطَراً وَّلَا مُفسِدًا وَّلَا ظَالِماً ‘‘ (6) يعني آپ فرماتے ہيں کہ لوگ غلطي کا شکار نہ ہوں اور دشمن کي پروپيگنڈا مشينري اُنہيں دھوکہ نہ دے کہ امام حسين بھي دوسروں کي مانند ہيں کہ جو مختلف جگہوں پر خروج کرتے ہيں، صرف اِس لئے کہ اقتدار کواپنے ہاتھ ميں ليں، اپني خودنمائي، عياشي اور ظلم و فساد برپا کرنے کيلئے ميدان جنگ ميں قدم رکھتے ہيں؛ آپ فرماتے ہيں کہ ہمارا ايسا کوئي ارادہ نہيں ہے بلکہ ’’وَ اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي ‘‘(7) ،’’ميں صرف اور صرف اپنے جد محمد (ص) کي امت کي اصلاح کيلئے ميدان عمل ميں آيا ہوں)۔ ميں فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ يہ وہ واجب ہے کہ جو امام حسين سے قبل انجام نہيں ديا گيا تھا۔
يہ اصلاح ، ’’خروج‘‘ کے ذريعے انجام پائے گي؛ خروج يعني قيام اور امام حسين نے اِس نکتے کو اپني اِس وصيت ميں تحرير فرمايا ہے اور صراحت کے ساتھ اِس معني کو بيان کيا ہے۔ يعني اولاً وہ قيام کرنا چاہتے ہيں اور يہ قيام اِس ليے ہے کہ ہم ’’اصلاح‘‘ کے طالب ہيں ، نہ يہ کہ حتماً حکومت و اقتدار ہمارے ہاتھ آجائے اور نہ اِس ليے کہ ہم جاکر صرف شہيد ہونا چاہتے ہيں، نہيں ! ہمارا ہدف صرف اصلاحِ امت ہے۔ البتہ يہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ اصلاح کا کام کوئي معمولي نوعيت کا کام نہيں ہے۔ اِسي اصلاح کے دوران کبھي حالات ايسے پيش آتے ہيں کہ انسان حکومت تک پہنچتا ہے اور زمام قدرت کواپنے ہاتھ ميں لے ليتا ہے اور کبھي ايسا ہوتا ہے وہ يہ کام نہيں کرسکتا بلکہ يہ کام غير ممکن ہوجاتاہے اور وہ درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے ليکن دونوں صورتوں ميں اُس کا قيام اصلاح کے عمل کيلئے ہوتاہے۔
اِس کے بعد امام حسين فرماتے ہيں کہ’’ اُرِيدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَاَنہٰي عَنِ المُنکَرِ وَاُسِيرُ بِسِيرَۃِ جَدِّ وَ اَبِ ‘‘(8) ۔’’ميں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہي عن المنکر انجام دں اور ميں اپنے نانا اور بابا کي سيرت پر قدم اٹھانا چاہتا ہوں‘‘۔ اصلاح کا ايک مصداق امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہے۔
سيد الشہدا نے مکے ميں دو گروہوں کو خط لکھے ، ايک بصرہ کي اہم شخصيات کو اور دوسرا کوفہ کے اہم افراد کو۔ بصرہ کي اہم شخصيات کے نام جو آپ نے خط لکھا ہے اُس ميں اِ س طرح تحرير فرمايا ہے: ’’ وقَد بَعَثَ رَسُولِي اِلَيکُم بِھٰذَا الکِتَابِ وَاَنَا اَدعُوکُم اِلٰے کِتَابِ اللّٰہِ و سُنَّۃِ نَبِيِّہِ فَاِنَّ سَنَّۃَ قَد اُمِيتَت وَالبِدعَدَّ اُوحِيَت فَاِن تَسمَعُوا قَولِي اَھدِيکُم اِلٰي سَبِيلِ الرِّشَادِ ‘‘۔
’’ميرا نمائندہ ميرے خط کے ساتھ تمہارے پاس آيا ہے اور ميں تم لوگوں کو کتاب خدا اور اُس کے رسول (ص) کي سنت کي طرف دعوت ديتا ہوں۔ بے شک سنتِ رسول (ص)کو زندہ درگور کرديا گيا ہے اور زمانہ جاہليت کي بدعتوں و خرافات کو زندہ کرديا گيا ہے، اگر تم ميري پيروي کرو تو ميں تم کو راہِ راست کي ہدايت کروں گا۔‘‘ يعني ميں بدعتوں کو ختم کرنا اور سنتِ رسول (ص) کا احيائ چاہتا ہوں کيونکہ حاکمان وقت نے سنت کو مردہ اور بدعتوں کو زندہ کرديا ہے۔ اگر تم لوگ ميري بات مانو اور ميرے پيچھے قدم اٹھاو تو جان لو کہ ہدايت کا راستہ صرف ميرے پاس ہے، ميں ايک بہت بڑا فريضہ انجام دينا چاہتا ہوں کہ جو اسلام، سنتِ رسول (ص) اور اسلامي نظام کے احيائ سے عبارت ہے۔ اسلامي حاکم ، معاشرے ميں کتاب خدا کو نافذ کرے
اہل کوفہ کے نام آپ نے اپنے مکتوب ميں تحرير فرمايا:’’ فلعمرِ ما الاِمَامُ اِلَّا الحَاکِمُ بِاالکِتَابِ وَالقَآئِمُ بِالقِسطِ الدَّآئِنُ بِدِينِ الحَقَّ وَالحَابِسُ نَفسِہ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ والسَّلَام‘‘(9) ، ’’امام فقط وہي ہے جو صرف کتاب الٰہي کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک و معاشرے اور قانون کي حق کي طرف راہنمائي کرے اور صراطِ مستقيم پر ہر طرح سے اپني حفاظت کرے‘‘۔ امام وپيشوا اور اسلامي معاشرے کا سربراہ اور حاکم ، اہل فسق و فجور، خائن، فسادي ، قبيح اعمال کاارتکاب کرنے والا شخص اور خدا سے دوري اختيار کرنے والا فرد نہيں ہوسکتا ہے ۔ اسلامي معاشرے کا حاکم اُسے ہونا چاہيے کہ جو کتاب خدا کے مطابق فيصلہ کرے، کتابِ الٰہي پر عمل پيرا ہو، معاشرے ميں اپني اجتماعي ذمہ داريوں اور فرائض سے کنارہ کشي اختيار نہ کرے؛ نہ يہ کہ ايک کمرے ميں بيٹھ کر تنہائي ميں عبادت خدا بجالائے؛ اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے ميں کتاب خدا کو زندہ کرے، عدل وانصاف کا بول بالا کرے اور ’’حق‘‘ کو معاشرے کا قانون قرار دے نہ کہ نفساني خواہشات اور شخصي رائے کو۔
’’الدَّائِنُ بِدِينِ الحَقِّ ‘‘ يعني اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے کا قانون اور اُس کا راستہ صرف حق کے مطابق متعين کرے اور باطل افکار و نظريات اور شخصي رائے کو ترک کردے۔ ’’والحَابِسُ نَفسِہِ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ‘‘ اِس جملے کا ظاہري معني يہ ہے کہ خدا کہ راستے ميں جس طرح بھي ہو اپني حفاظت کرے اور شيطاني اور مادّي جلووں اور رنگينيوں کا اسير نہ ہو۔
پيغمبر (ص) نے ذمہ داري مشخص کردي ہے
سيد الشہدا جب مکے سے باہر تشريف لے گئے تو راستے ميں آپ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائي ۔ ’’بيضہ‘‘ نامي منزل پر، کہ جب حُرّ ابن يزيد رياحي کا لشکر آپ کے ساتھ ساتھ تھا، اُترنے کے بعد شايد آپ نے استراحت کرنے سے قبل يا تھوڑي استراحت کے بعد کھڑے ہو کر دشمن کے لشکر سے اِس طرح خطاب فرمايا:’’اَيُّھا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ (صَلَّي اللّٰہ عَلَيہ وآلِہ) قَالَ: مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ (10) ۔ ’’رسول اللہ (ص)نے ارشاد فرمايا کہ ’’جو کسي جائر و ظالم حاکم کو ديکھے جو حرام خدا کو حلال جاننے والا، قانون خدا کو توڑنے والا، سنت رسول (ص) کا مخالف اور مخلوق خدا ميں گناہ و سرکشي سے حکومت کرنے والا ہو تو يہ ديکھنے والا اپنے قول و فعل سے اُس کے خلاف حکمت عملي اختيار نہ کرے تو خداوند عالم اِس سکوت و جمود اور خاموشي اختيار کرنے والے شخص کو اُس ظالم سلطان کے ساتھ عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔ يعني اگر کوئي يہ ديکھے کہ معاشرے ميں کوئي حاکم برسر حکومت ہے اور ظلم و ستم کررہا ہے ، حرام خدا کو حلال قرار دے رہا ہے اور حلال خدا کو حرام بنارہا ہے، اُس نے حکم الٰہي کو پس پشت ڈال ديا ہے اور دوسرے افراد کو بھي عمل نہ کرنے کيلئے مجبور کررہا ہے، لوگوں ميں گناہ اور ظلم و دشمني سے حکومت کرے __ اُس زمانے ميں ظالم اور جائر حاکم کا کامل مصداق يزيد تھا__ ’’و لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ ،’’ اپني زبان و عمل سے اُس کے خلاف اقدام نہ کرے‘‘۔ ’’ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ ،’’توخداوند عالم روز قيامت سکوت وجمود اختيار کرنے والے بے طرف و بے عمل شخص کو اُسي ظالم کے ساتھ ايک ہي عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔
يہ پيغمبر (ص) کا قول ہے؛ يہ جو ہم نے کہا ہے کہ پيغمبر (ص) نے يہ فرمايا ہے تو يہ اُن کے اقوال کا ايک نمونہ ہے۔ پس حضرت ختمي مرتبت (ص) نے پہلے سے مشخص کرديا تھا کہ اگر اسلامي نظام انحراف کا شکار ہوجائے تو کيا کام کرنا چاہيے۔ امام حسين نے پيغمبر اکرم (ص) کے اِسي قول کو اپني تحريک کي بنياد قرار ديا۔ميں دوسروں سے زيادہ اِس قيام کيلئے سزاوار ہوں
پس اِن حالات ميں ذمے داري کيا ہے؟اس حديث نبوي (ص) کي روشني ميں ذمہ داري ’’ يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ (اپنے زبان و عمل سے اقدام کرے) ہے۔ اگر انسان اِن حالات کا مشاہدہ کرے البتہ شرائط و حالات کا مناسب ہونا ضروري ہے، تو اُس پر واجب ہے کہ ظالم و جائر حاکم کے عمل کے جواب ميں قيام و اقدام کرے۔ وہ اِس قيام و اقدام ميں کسي بھي حالات سے دوچار ہو، قتل ہوجائے، زندہ رہے يا ظاہراً اُسے کاميابي نصيب ہو يا نہ ہو، اِن تمام حالات ميں ’’قيام‘‘ اُس کا وظيفہ ہے۔ يہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اِن حالات ميں قيام و اقدام کرے اور يہ وہ ذمہ داري ہے کہ جسے حضرت ختمي مرتبت (ص) نے بيان فرمايا ہے۔
اِس کے بعد سيد الشہدا نے فرمايا: ’’وَاِنِّي اَحَقُّ بِھٰذَا‘‘ ،ميں اِس قيام کيلئے بقيہ تمام مسلمانوں سے زيادہ سزاوار ہوں کيونکہ ميں فرزند پيغمبر (ص) ہوں۔ اگر پيغمبر (ص) نے حالات کي تبديلي يعني اُس قيام کو ايک ايک مسلمان پر واجب کيا ہے تو ظاہرہے کہ حسين ابن علي جو فرزند پيغمبر (ص) ہیں اور اُن کے علم و حکمت کا وارث بھي ہیں، اِس قيام کيلئے دوسروں سے زيادہ مناسب ہیں۔ پس امام حسين فرماتے ہيں کہ ميں نے اِسي لئے قيام کيا ہے اور وہ اپنے قيام کے علل و اسباب کو بيان فرما رہے ہيں۔  جو کچھ خدا نے ہمارے لئے چاہا ہے ، خير ہے
’’اَزيد‘‘ نامي منزل پر کہ جب چار افراد حضرت ٴ سے آملے ، آپ نے فرمايا: ’’ اَمَّا وَاللّٰہِ اَنِّي لَاَرجُو اَن يَکُونَ مَا اَرَادَ اللّٰہُ بِنَا قُتلِنَا اَو ظَفُرنَا ‘‘ ، ’’جو کچھ اللہ نے ہمارے ليے مقرر کيا ہے وہ ہمارے ليے صرف خير وبرکت ہي ہے، خواہ قتل کرديے جائيں يا کامياب ہوجائيں‘‘۔ کوئي فرق نہيںہے خواہ کاميابي ہمارے قدم چومے يا راہ خدا ميں قتل کرديے جائيں، ذمے داري کو ہر صورت ميں ادا کرنا ہے؛ آپ نے يہي فرمايا کہ خداوند عالم نے جس چيز کو ہمارے لئے مقرر فرمايا ہے، اُس ميں ہمارے ليے بہتري اور بھلائي ہي ہے؛ ہم اپني ذمہ داري کو ادا کررہے ہيں خواہ اِس راہ ميں قتل کرديئے جائيں يا کامياب ہوجائيں۔
سرزمين کربلا ميں قدم رکھنے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے ميں ارشاد فرمايا: ’’قَد نَزَلَ مِنَ الاَمرِ ما قَد تَرَونَ ۔۔۔ ‘‘ (11) ’’اَلَا تَرَونَ اِلَے الحَقِّ لَا يُعمَلُ بِہِ وَ اِليٰ البَاطِلِ لَا يُتَنَاھيٰ عَنہُ لِيَرغَبِ المُومِن فِي لِقَآئِ اللّٰہِ مُحِقًّا ‘‘(12) ، ’’کيا تم نہيں ديکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہيں کيا جارہا ہے اور باطل سے دوري اختيار نہيں کي جارہي ايسے وقت ميں مومن کو چاہيے کہ وہ ملاقات خدا کے ليے تيار رہے۔‘‘

امام حسين نے اسلام کا بيمہ کيا

پس امام حسين نے ايک امر واجب کيلئے قيام فرمايا۔ يہ ايک ايسا واجب ہے کہ جو ہر زمانے اور ہر تاريخ ميں تمام مسلمانوں کو اپني طرف بلارہا ہے اور يہ واجب عبارت ہے اِس امر سے کہ مسلمان جب اِس بات کا مشاہدہ کريں کہ اسلامي معاشرے کا نظام ايک بُنيادي خرابي کا شکار ہوگيا ہے اور اُس سے تمام اسلامي احکامات کي خرابي کا خطرہ لاحق ہے تو اِن حالات ميں ہر مسلمان کو قيام کرنا چاہيے۔
البتہ يہ قيام، مناسب حالات و شرائط ميں واجب ہے (کہ جسے گذشتہ صفحات ميں بيان کيا جا چکا ہے ) کہ جب قيام کرنے والا يہ جانتاہو کہ يہ قيام اثر بخش ہوگا۔ اِن مناسب حالات کا قيام کرنے والے کے زندہ رہنے، قتل نہ ہونے يا مشکل و مصائب کا سامنا نہ کرنے سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ يہي وجہ ہے کہ امام حسين نے قيام فرمايا اور عملاً اِس واجب کو انجام ديا تاکہ رہتي دنيا کيلئے ايک درس ہو۔
اِس بات کا بھي امکان ہے کہ تاريخ کے کسي بھي زمانے ميں کوئي بھي شخص مناسب شرائط و حالات ميں يہ کام انجام دے البتہ يہ بات بھي قابل غور ہے کہ سيد الشہدا کے بعد کسي بھي امام معصوم کے زمانے ميں ايسے حالات پيش نہيں آئے ۔ خود يہ بات تجزيہ و تحليل کا تقاضا کرتي ہے کہ ايسے حالات دوبارہ کيوں نہيں پيش آئے۔ چونکہ بہت سے اہم ترين کام تھے کہ جنہيں انجام دينا ضروري تھا اور کربلا کے قيام کے بعد سے امام حسن عسکري کي شہادت اور حضرت امام عصر کي غيبت کے ابتدائي زمانے تک اسلامي معاشرے ميں ايسے حالات کبھي سامنے نہيں آئے۔ تاريخ کے مختلف ادوار ميں اِس قسم کے حالات اسلامي ممالک ميں زيادہ ظہور پذير ہوتے رہتے ہيں اور آج بھي دنيائے اسلام ميں بہت سے مقامات پر اِس کام کيلئے زمين ہموار ہے اور مسلمانوں کو چاہيے کہ اِس فريضے کو انجام ديں۔ اگر وہ اِس واجب کو انجام ديں تو اِس طرح وہ اپني ذمہ داري کو ادا کرسکيں گے اور اسلام کي توسيع اور حفاظت کي زمين ہموار کريں گے۔ زيادہ سے زيادہ يہي ہوگا کہ ايک دو افراد شکست کھائيں گے۔
جب معاشرتي حالات کي تبديلي، قيام اور اصلاحي تحريک کيلئے بار بار اقدامات کيے جائيں تو برائياں اور انحرافات يقيني طور پر ختم ہوجائيں گے۔ امام حسين سے قبل کوئي بھي اِس راستے سے واقف اور اِس کام سے آگاہ نہ تھا، چونکہ زمانہ پيغمبر (ص) ميں يہ کام انجام نہيں ديا گيا تھا، خلفائ کے زمانے ميں بھي ايسے حالات نہيں تھے اور امير المومنين کہ جو معصوم تھے، نے بھي اِس کام کو انجام نہيں ديا تھا۔ يہ امام حسين ہي تھے کہ جنہوں نے عملي طور پر پوري تاريخ انسانيت کو ايک بہت بڑا درس ديا اور درحقيقت خود اپنے زمانے ميں اور آنے والے زمانوں ميں اسلام کا بيمہ کرديا ۔

سيد الشہدا کي ياد اور کربلا کيوں زندہ رہے؟

جہاں بھي حالات اور برائياں و انحرفات ، امام حسين کے زمانے جيسے ہوں، سيد الشہدا وہاں زندہ ہيں اور آپٴ اپنے شيوہ اور عمل سے بتارہے ہيں کہ آپ لوگوں کو کيا کام انجام دينا چاہيے چنانچہ وہي ذمہ داري اور وظيفہ قرار پائے گي۔ لہٰذا سيد الشہدا کي ياد اور ذکر کربلا کو ہميشہ زندہ رہنا چاہيے کيونکہ يہ ذکر کربلا ہي ہے جو اِس عمل کو ہمارے سامنے متجلّي کرتا ہے۔
افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامي ممالک ميں کربلا کو جس طرح پہچاننا چاہيے تھے ، پہچانا نہيں گيا۔ اقوام عالم کو چاہيے کہ اِسے پہچانيں، ہمارے ملک ميں کربلا کي شناخت صحيح طور پر موجود ہے؛ ہماري عوام (کئي صديوں سے) امام حسين کي شناخت رکھتي ہے اور اُن کے قيام سے واقف و آگاہ ہے۔ معاشرے ميں حسيني روح موجود تھي لہٰذا جب امام خميني۲ نے فرمايا کہ محرم وہ مہينہ ہے کہ’’ جب خون، تلوار پر کامياب ہوگيا ‘‘تو ہماري عوام نے کسي قسم کا تعجب نہيں کيا۔ حقيقت بھي يہي تھي کہ خون اور مظلوميت، ظلم وشمشير پر غالب آگئي۔

وہ درس جو طوطوں نے اسير طوطے کوديا

ميں نے کئي سال قبل البتہ قبل از انقلاب ، کسي محفل ميں ايک مثال بيان کي تھي کہ جسے مولانا رومي نے اپني مثنوي ميں بيان کيا ہے۔
يہ مَثَل ہے اور اِسے حقائق کوبيان کرنے کيلئے سنايا جاتا ہے۔ ايک تاجر نے اپنے گھر ميں پنجرے ميں ايک طوطے کو پالا ہوا تھا۔ ايک مرتبہ جب اُس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کيا تو اپنے اہل و عيال سے خدا حافظي کي اور اپنے اِس طوطے سے بھي خدا حافظي کي۔ اُس نے اپنے طوطے سے کہا کہ ’’ميں ہندوستان جارہا ہوں جو تمہارا ملک اور تمہاري سرزمين ہے‘‘۔طوطے نے کہا ’’تم ہندوستان ميں فلاں جگہ جانا، وہاں ميرے عزيز و اقارب اور دوست احباب ہيں ، اُن سے کہنا کہ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں پنجرے ميں ہے، يعني ميري حالت کو اُن کيلئے بيان کرنا؛ اِس کے علاوہ ميں تم سے کسي اور چيز کا طلبگار نہيں ہوں‘‘۔
يہ شخص ہندوستان گيا اور ُا س جگہ گيا کہ جہاں کا پتہ اُس کے طوطے نے ديا تھا۔ اُس نے ديکھا کہ بہت سے طوطے درختوں پر بيٹھے ہيں، اُس نے اونچي آواز ميں سب کو مخاطب کيا اور کہا کہ اے ’’پيارے اور اچھے طوطوں! ميں تمہارے ليے ايک پيغام لايا ہوں۔ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں ہے، وہ بہت اچھي حالت ميں زندگي بسر کررہا ہے اور ميں نے اُسے پنجرے ميں قيد کيا ہوا ہے، ميں اُسے اچھي غذائيں ديتا ہوں اور اُس نے تم سب کو سلام کہا ہے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ وہ طوطے جو درختوں پر بيٹھے تھے ، اچانک اُنہوں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر پڑے ۔ يہ شخص آگے بڑھا تو ديکھا کہ يہ طوطے مرچکے ہيں، اُسے بہت افسوس ہوا کہ ميں نے ايسي بات ہي کيوں کي کہ جس کو سُننے سے يہ سارے پرندے مثلاً پانچ دس طوطے اپني جان گنوا بيٹھے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوگيا اور اب کچھ نہيں کيا جاسکتا ہے۔
تاجر جب اپنے وطن لوٹا اور اپنے گھر پہنچنے کے بعد طوطے کے پنجرے کے پاس گيا تو اُس نے کہا کہ ’’ميں نے تمہارا پيغام انہيں پہنچاديا تھا‘‘ ۔ طوطے نے پوچھا کہ ’’اُنہوں نے کيا جواب ديا‘‘۔ تاجر نے کہا کہ ’’جب انہوں نے مجھ سے تمہارا پيغام سنا تو پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر کر مرگئے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ طوطے نے پنجرے ميں پر پھڑپھڑائے اور گر کر مرگيا۔ تاجر کو اُس کي موت کا بہت افسوس ہوا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھولا کيونکہ اِس مردہ طوطے کو پنجرے ميں رکھنے کا اب کوئي فائدہ نہيں تھا۔ اُس نے طوطے کو پنجوں سے پکڑا اور چھت کي طرف اچھال ديا۔ طوطا جيسے ہي ہوا ميں اچھلا ، اُس نے فضا ميں ہي اپنے پروں کو پھڑپھڑانا شروع کرديا اور ديوار پر جا بيٹھا اور کہنے لگا کہ ’’اے تاجر ، اے ميرے دوست، ميں تمہارا بہت احسان مند ہوں کہ تم نے خود ميري رہائي کے اسباب فراہم کيے۔ ميں مرا نہيں تھا بلکہ مردہ بن گيا تھا ! يہ وہ درس تھا کہ جسے ہندوستان کے طوطوں نے مجھے ديا ہے۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ ميں يہاں پنجرے ميں قيد ہوں تو انہوں نے سوچا کہ وہ کس زبان سے کہيں کہ ميں کيا کام کروں تاکہ قيد سے رہائي حاصل کرسکوں؟ اُنہوں نے عملي طور پر مجھے بتايا کہ يہ کام انجام دوں تاکہ اسيري سے رہائي پاوں! مرجاو تاکہ زندہ ہوسکو ( اور آزادي کي زندگي گذارو)! ميں نے اُن کے پيغام کو تمہارے ذريعہ سے سمجھ ليا۔ يہ وہ درس تھا کہ جو ہزاروں ميل دور اُس جگہ سے مجھ تک پہنچا اور ميں نے اُس درس سے اپني نجات و آزادي کيلئے اقدام کيا‘‘۔
ميں نے اُسي محفل ميں تقريباً بيس بائيس سال قبل(١٣٩٦ہجري ) موجود مرد و خواتين سے عرض کيا کہ محترم سامعين، امام حسين کس زبان سے ہميں سمجھائيں کہ تم سب کي ذمہ داري کيا ہے؟

امام حسين نے اپنے عظيم عمل سے ذمہ داري کو واضح کرديا

ہمارے زمانے کے حالات ، امام حسين کے زمانے کے حالات جيسے ہيں اور آج کي زندگي ، ويسي ہي زندگي ہے اور اسلام وہي اسلام ہے جو سيد الشہدا کے زمانے ميں تھا۔ اگر امام حسين سے ايک جملہ بھي نقل نہ کيا جاتا تب بھي ہميں چاہيے تھا کہ ہم سمجھيں کہ ہماري ذمہ داري کيا ہے؟
وہ قوم جو اسير اور غير ملکي طاقتوں کي زنجيروں ميں قيد ہے، جس کے اعليٰ عہديدار برائيوں کا علي الاعلان ارتکاب کررہے ہيں، وہ قوم کہ جس پر دُشمنان دين حکومت کررہے ہيں اور اُس کي قسمت اور زندگي کے فيصلوں کو اپنے ہاتھوں ميں ليا ہوا ہے، لہٰذا تاريخ سے سبق لينا چاہيے کہ اِن حالات ميں ذمہ داري کيا ہے۔ چونکہ فرزند پيغمبر (ص)نے عملي طور پر يہ بتاديا ہے کہ اِس قسم کے حالات ميں کيا کام کرنا چاہيے۔
يہ درس ، زبان سے نہيں ديا جاسکتا تھا؛ اگر امام حسين اِسي درس کو سو مرتبہ بھي زبان سے کہتے اور عملي طور پر خود تشريف نہيں لے جاتے تو ممکن ہي نہيں تھا کہ آپ کا يہ پيغام صديوں پر محيط ہوجاتا؛ صرف نصيحت کرنے اور زباني جمع خرچ سے يہ پيغام صديوں کا فاصلہ طے نہيں کرپاتا اور تاريخ کے اُسي دور ميں ہي دفن ہوجاتا۔ ايسے پيغام کو صديوں تک پھيلانے اور تاريخ کا سفر طے کرنے کيلئے عمل کي ضرورت تھي اور وہ بھي ايسا عمل کہ جو بہت عظيم ہو، سخت مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو، جو ايثار و فداکاري اور عظمت کے ساتھ ہو اور پُر درد بھي ہو کہ جسے صرف امام حسين نے ہي انجام ديا!
حقيقت تو يہ ہے کہ واقعہ کربلا ميں روز عاشورا کے سے جو واقعات و حادثات ہماري آنکھوں کے سامنے موجود ہيں، اُن کيلئے ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ يہ واقعات و حادثات ، پوري تاريخ بشريت ميں اپني نوعيت کے بے مثل و نظير واقعات ہيں۔ جس طرح پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا، امير المومنين نے فرمايا اور امام حسن مجتبيٰ نے فرمايا اور جو کچھ واقعات ميں آيا ہے کہ ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰہِ ‘‘ (13) ،’’اے ابا عبداللہ ! (امام حسين ) کوئي دن بھي آپ کے دن،( عاشورا، کربلا اور آپ کے اِس حادثے )کي طرح نہيں ہے‘‘۔(14)

مختلف قسم کي ذمہ داريوں ميں سے اصلي ذمے داري کي تشخيص

تحريک کربلا ميں بہت سے نکات مضمر ہيں کہ اگر امت مسلمہ اور دانشور حضرات و مفکرين اِس سلسلے ميں مختلف جہات سے تحقيق کريں جو اِس واقعہ اور اِس سے متعلق قبل و بعد کے امور ، مذہبي زندگي کي راہوں اور مختلف قسم کے حالات ميں موجودہ اور آنے والي مسلمان نسلوں کيلئے اُن کے وظائف اور ذمہ داريوں کو مشخص کرديں گے۔
واقعہ کربلا کے درسوں ميں سے ايک نہايت ہي اہم نکتہ يہ ہے کہ حضرت سيد الشہدا نے تاريخ اسلام کے بہت ہي حساس دور ميں مختلف قسم کي ذمہ داريوں ميں سے اپنے اصلي اور حقيقي ذمہ داري کہ جو مختلف جہات سے قابل اہميت تھي ، کو تشخيص ديا اور اُس ذمہ داري کو ادا بھي کيا اور ساتھ ہي آپ اُس امر کي شناخت ميں شک و ترديد اور توھّم کا شکار نہيں ہوئے کہ جس کي دنيائے اسلام کو اُس وقت اشد ضرورت تھي۔ خود يہ امر وہ چيز ہے کہ جو مختلف زمانوں ميں مسلمانوں کي زندگي کيلئے باعث خطرہ بنا ہو اہے، يعني يہ کہ ايک قوم کي اکثريت ، اُس کے سربراہ و حاکم اور امت مسلمہ کے چيدہ چيدہ اور خاص افراد خاص حالات ميں اپني اصلي ذمہ داري کي شناخت و تشخيص ميں غلطي کر بيٹھيں اور وہ يہ نہ جانيں کہ کون سا کام اِس وقت لازمي ہے کہ جسے اِس وقت انجام دينا ضروري ہے اور دوسرے امور کو _ اگر لازمي ہوا_ اِس پر قربان کرنا چاہيے اور وہ يہ تشخيص نہ دے سکيں کہ کون سا
امر ثانوي حيثيت کا حامل ہے اور وہ يہ سمجھ نہ سکيں کہ ہر قدم و ہرکام کو اُس کي حيثيت کے مطابق اہميت ديني چاہيے اور اُسي کے مطابق اُس کيلئے جدوجہد کرني چاہيے۔
امام حسين کي تحريک کے زمانے ميں ايسے افراد بھي تھے کہ اگر اِس بارے ميں اُن سے گفتگو کي جاتي کہ ہميں ہر صورت ميں قيام کرنا چاہيے تو وہ سمجھ جاتے کہ اِ س قيام کے نتيجے ميں بہت سي مشکلات و مصائب اُن کا انتظار کررہے ہيں تو وہ ثانوي حيثيت والے امور کو توجہ ديتے اور دوسرے درجے کي ذمہ داريوں کي تلاش ميں نکل پڑتے! بالکل ايسا ہي ہوا کہ ہم نے ديکھا کہ کچھ افراد نے عيناً يہي کام انجام ديا؛ امام حسين کے ساتھ نہ آنے والے افراد ميں بہت سے مومن اور ديندار افراد موجود تھے ، ايسا نہيں تھا کہ نہ آنے والے سب کے سب دنيادارہوں۔
اُس زمانے ميں دنيائے اسلام کے بڑے بڑے افراد اور خاص شخصيات ميں اہل ايمان ، مومن اور اپنے وظيفے اور ذمہ داريوں پر عمل کرنے کے خواہشمند افراد بھي تھے ليکن وہ اپني ذمہ داريوں کو تشخيص دينے والي صلاحيت سے عاري تھے اور اُن ميں يہ قابليت نہيں تھي کہ حالات کے دھارے کو سمجھيں يا نوشتہ ديوار پڑھيں اور اپنے اصلي اور حقيقي دشمن کو سمجھيں۔ يہ افراد جوبظاہر مومن اور ديندار تھے اپنے اصلي اور لازم الاجرائ امور اور دوسرے اور تيسرے درجے کے کاموں کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھے اور يہ امر اُن بڑي آفت اور بلاؤں سے تعلق رکھتا ہے کہ جس ميں امت مسلمہ ہميشہ گرفتار رہي ہے۔

معاشرتي زندگي اور اُس کي بقا ميں حقيقي ذمہ داري کي شناخت کي اہميت

آج ممکن ہے کہ ہم بھي اِس بلا ميں گرفتار ہوجائيں اور اہم ترين افر اور کم اہميت والے امر کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھيں۔ لہٰذا حقيقي ذمہ داري کي شناخت بہت ضروري ہے جو کسي بھي معاشرے کي حيات و بقا ميں بہت اہميت کي حامل ہو تي ہے۔
ايک زمانہ تھا کہ اِس ملک ميں استعمار، استبداد اور طاغوتي نظام حکومت کے خلاف ميدانِ مبارزہ موجود تھا ليکن بعض ايسے افراد بھي تھے جو اِ س مبارزے اور قيام کو اپنا وظيفہ نہيں سمجھتے تھے اور اُنہوں نے دوسرے امور کو اپنا ہدف بنايا ہوا تھا۔ اگر کوئي اُس وقت کسي جگہ تدريس علم ميں مصروف عمل تھا يا کسي کتاب کي تاليف وجمع آوري ميں کوشاں تھا ، يا اگر محدود پيمانے پر تبليغ ميں سرگرم عمل تھا يا اگر کسي نے ديني و مذہبي امور کے ساتھ ساتھ مختصر پيمانے پر عوام الناس کي ہدايت کو اپنے ذمہ ليے ہوا تھا تو وہ يہ سوچتا تھا کہ اگر وہ جہاد ميں مصروف ہوجائے گا تو يہ سارے امور يونہي ادھورے پڑے رہ جائيں گے ! لہٰذا وہ اِس فکر و خيال کے نتيجے ميں اُس عظيم اور اہميت والے جہاد اور قيام کو ترک کرديتا تھا اور لازم و غير ضروري يا اہم ترين اور اہم امور کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھتا تھا۔
سيد الشہدا نے اپنے بيانات سے ہميں سمجھايا کہ ايسے حالات ميں طاغوتي طاقتوں سے مقابلہ اور طاغوتي اور شيطاني قدرت و طاقتوں سے انسانوں کي نجات کيلئے اقدام کرنا دنيائے اسلام کيلئے واجب ترين کاموں ميں سے ايک کام ہے۔ واضح ہے کہ سيد الشہدا اگر مدينے ميں ہي قيام پذير رہتے تو عوام ميں احکام الٰہي اور تعليمات اہل بيت کي تبليغ فرماتے اور کچھ افراد کي تربيت کرتے ؛ليکن اگر ايک حادثہ رُونما ہونے کي وجہ سے مثلاً عراق کي طرف حرکت فرماتے تو آپٴ کو اِن تمام کاموں کو خير آباد کہنا پڑتا اور اِس حالت ميں آپٴ لوگوں کو نماز اوراحاديث نبوي (ص) کي تعليم نہيں دے سکتے تھے، آپ کو اپنے درس و مکتب اور تعليمات کے بيان کو خدا حافظ کہنا پڑتا اور يتيموں ، مفلسوں اور فقرائ کي مدد کہ جو آپ مدينے ميں انجام ديتے تھے، سب کو چھوڑنا پڑتا!
اِن تمام امور ميں سے ہر ايک ايسا وظيفہ تھا کہ جسے سيد الشہدا انجام دے رہے تھے ليکن آپ ٴ نے يہ تمام ذمہ دارياں ايک عظيم اور اہم ذمہ داري پر قربان کردي! يہاں تک کہ حج بيت اللہ کو اُس کے آغاز ميں کہ جب مسلمان پوري دنيا سے حج کيلئے آرہے تھے، اِس عظيم ترين فريضے پر فدا کرديا، بالآخر وہ ذمہ داري کيا تھي؟

آج واجب ترين کام کيا ہے؟

جيسا کہ خود امام حسين نے٧ فرمايا کہ ظلم و فساد اوربرائي کے نظام سے مقابلہ واجبات ميں سے ايک واجب ہے۔ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ وَاُسِيرُ بِسِيرَۃِ جَدَّ وَاَبِ ‘‘ (15) يا ايک اور خطبے ميں آپٴ نے ارشاد فرمايا: ’’اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَد قَالَ فِي حَيَاتِہِ مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ (16) يعني وظيفہ ’’اِغَارَۃ‘‘ ہے يا بہ عبارت ديگر ايسے سلطان ظلم و جور کے خلاف حالات کو تبديل کرنا کہ جو برائيوں کو عام کررہا ہے اور ايسے نظام حکومت کے خلاف قيام کرنا جو انسانوں کو نابودي اور مادي اور معنوي فنا کي طرف کھينچ رہا ہے۔
يہ تھي امام حسين اِس کي تحريک کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا مصداق بھي قرار ديا گيا ہے اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کي ذمہ داري ميں حتماً اِن نکات کي طرف توجہ ہوني چاہيے۔ يہي وجہ ہے کہ سيد الشہدا ايک اہم ترين واجب کي ادائيگي کيلئے اقدام کرتے ہيں اور دوسري بہت سي اہم ذمہ داريوں کو اِس اہم ترين ذمہ داري پر قربان کرديتے ہيں اور اِس بات کو تشخيص کرتے ہيں کہ آج کيا ذمہ داري ہے؟

آج اِس بات کي گنجائش نہيں ہے کہ ہم دشمن کي شناخت

اور اُس سے مقابلے کيلئے ضروري اقدامات ميں غلطي کريں!ہر زمانے ميں اسلامي معاشرے کيلئے ايک خاص قسم کي ذمہ داري معين ہے کہ جب دشمن اور باطل قوتوں کا محاذ، عالم اسلام اور مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لے آئے تو کيا کيا جا ئے؟ اگر ہم نے دشمن کي شناخت ميں غلطي کي اور اُس جہت کو تشخيص نہيں دے سکے کہ جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کو خسارہ اٹھانا پڑے گا اور جہاں سے اُن پر حملہ کيا جائے گا تو نتيجے ميں ايسا نقصان و خسارہ سامنے آئے گا کہ جس کا ازالہ کرنا ممکن نہيں ہوگا اور بہت بڑي فرصت ہاتھ سے نکل جائے گي۔
بحيثيت امت مسلمہ آج ہماري ذمہ داري ہے کہ پوري ملت اسلاميہ اور اپني عوام کيلئے اپني اِسي ہوشياري، توجہ، دشمن شناسي اور وظيفے کي تشخيص کو ہر ممکن طريقے سے اعليٰ درجہ تک پہنچانے کيلئے اپني تمام صلاحيتوں کو بروئے کار لائيں۔
آج اسلامي حکومت کي تشکيل اور پرچم اسلام کے لہرائے جانے کے بعد ايسے امکانات اور فرصت کے لمحات مسلمانوں کے اختيار ميں ہيں کہ تاريخ اسلام ميں اُس کے آغاز سے لے کر آج تک جس کي مثال نہيں ملتي۔ آج ہميں کوئي حق نہيں کہ شناخت دشمن اور اُس کے حملے کي جہت سے آگاہي ميں غلطي کريں۔
يہي وجہ ہے کہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کے آغاز سے لے کر آج تک امام خميني۲ اور اُن کي راہ پر قدم اٹھانے والي شخصيات کي يہي کوشش رہي ہے کہ يہ معلوم کيا جائے کہ موجودہ دنيا ميں مسلمانوں، ايران کے اسلامي معاشرے ، حق اور عدل و انصاف کو قائم کرنے ميں دشمن کي کون سي سازش اور چال سب سے زيادہ خطرناک ہے!
گذشتہ سالوں کي طرح آج بھي (انقلاب اسلامي کو اُس کے بلند وبالا مقصد و ہدف کي طرف پيش قدمي سے روکنے کيلئے عالمي کفر و استکبار کي طرف سے دشمني ، حملے اور تمام تر خطرات اپنے عروج پر ہيں! يہ وہ بزرگترين خطرہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو لاحق ہے۔ صحيح ہے کہ ايک معاشرے کے اندروني اختلافات اور ضعف و کمزوري،دشمن کے حملے کي زمين ہموار کرتے ہيں ليکن دشمن اپنے مد مقابل افراد کي اِسي ضعف و کمزوري کو اپنے تمام تر وسائل اور امکانات کے ساتھ ايک صحيح و سالم معاشرے پر تھونپ ديتا ہے لہٰذا ہميں اِس بارے ميں ہرگز غلطي کا شکار نہيں ہونا چاہيے۔ آج اسلامي معاشرے کي حرکت کي جہت کو عالمي استکبار سے مقابلے اور اُس کي بيخ کني کي جہت ميں ہونا چاہيے کہ جس نے اپنے پنجوں کو پوري دنيا ئے اسلام ميں گاڑا ہو اہے۔ (17)

قيام کربلا کا فلسفہ

روز اربعين امام حسين کي زيارت ميں ايک بہت ہي پُر معنٰي جملہ موجود ہے اور وہ يہ ہے کہ’’ وَ بَذَلَ مُھجَتَہُ فِيکَ لِيَستَنقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الجَھَالَۃِ وَحَيرَۃِ الضَّلَالَۃِ ‘‘ (18) ،امام حسين کي فدا کاري اور شہادت کے فلسفے کو اِس ايک جملے ميں سمو ديا گيا ہے ۔اِس جملے ميں ہم کہتے ہيں کہ ’’بار الھا! تيرے اِس بندے _ حسين ابن علي _ نے اپنے خون کو تيري راہ ميں قربان کرديا تاکہ تيرے بندوں کو جہالت سے باہر نکالے اوراُنہيں گمراہي ميں حيرت و سردگرداني سے نجات دے‘‘۔ ديکھئے کہ يہ کتنا پُر معنٰي جملہ ہے اور کتنے ہي عظيم مفاہيم اِس ايک جملے ميں موجود ہيں۔
مسئلہ يہ ہے کہ بشريت ہميشہ شيطاني ہاتھوں ميں بازيچہ بني رہي ہے، بڑے چھوٹے شيطانوں کي ہميشہ سے يہي کوشش رہي ہے کہ اپنے مقاصد تک رسائي کيلئے انسانوں اور قوموں کو قربان کرديں۔ آپ نے تاريخ ميں اِن تمام حالات و واقعات کو خود ديکھا ہے اور جابر و ستمگر سلاطين کے حالات زندگي ، قوموں سے اُن کي روش و برتاو ، موجودہ دنيا کي حالت زار اور بڑي طاقتوں کے سلوک کا آپ نے بہ چشم ديد مشاہدہ کيا ہے۔ انسان ، شيطاني مکرو فريب کے نشانے پر ہے لہٰذا اِس انسان کي مدد کرني چاہيے اور بندگان الٰہي کي فرياد رسي کے اسباب فراہم کرنے چاہئيں تاکہ وہ خود کو جہالت کے اندھيروں سے نجات دے سکيں اور حيرت و سرگرداني سے خود کو باہر نکال سکيں۔
وہ کون ہے کہ جو ہلاکت کي طرف گامزن بشريت کي نجات کيلئے اپنے دست نجات کو پھيلائے ؟ وہ لوگ تو اِس سلسلے ميں ايک قدم بھي آگے نہيں بڑھائيں گے جو اپني خواہشات نفساني اور شہوتوں کے اسير و غلام ہيں کيونکہ يہ لوگ خود گمراہ ہيں،لہٰذا جو لوگ اپني خواہشات کے اسير و غلام ہوں وہ بشريت کو کيسے نجات دے سکتے ہيں؟! يہ نجات دہندہ کوئي ايسا فردہو جو اِن سب کو نجات سے ہمکنار کرے يا لطف الٰہي اُن کے شامل حامل ہو اور اُن کا ارادہ مستحکم ہوجائے تاکہ خود کو خواہشات و شہوات کي اسيري کي زنجيروں سے رہائي دلاسکيں۔ وہ ذات جو بشر کو نجات ورہائي دے اُسے درگذر کا مالک ہونا چاہيے تاکہ ايثار و فداکاري سے کام لے سکے اور اپني شيطاني شہوت و خواہشات کو چھوڑ دے، اپني انانيت ، خود پرستي، خود خواہي، حرص ، ہوا وہوس، حسد، بُخل اور ديگر برائيوں کي قيد سے باہر آکر گمراہي ميں سرگرداں بشريت کي نجات کيلئے شمع روشن کرسکے۔

١ بحارالانوار ، جلد ٢ ص ١٧٠
2 سورہ مائدہ / ٥٤
3 جب يہ لوگ دين شناس اور صاحب فہم و ادرک تھے تو اتني سي بات کيوں نہيں سمجھ سکے جو امام حسين نے سمجھي؟! جواب يہ ہے کہ صحيح ہے کہ يہ لوگ دين شناس تھے مگر چونکہ ايسے حالات کبھي پيش نہيں آئے تھے لہٰذا اُن کے ذہن ميں وہ بات نہيں آئي کہ جو امام حسين کے ذہن ميں آئي۔(مترجم)
4 بحار الانوار ، جلد ٤٤، س ٣٢٥
5 امام حسين نے يہ نہيں فرمايا کہ جب صرف ٦١ ہجري کا يزيد مسلمانوں پر مسلط ہوجائے بلکہ آپ نے فرمايا کہ مثل يزيد، يعني يزيد جيسا کوئي بھي شخص خواہ وہ ٦١ ہجري يزيد ہو يا کسي بھي زمانے کا ظالم و ستمگر ۔واقعہ کربلا ميں يزيد کي ذات سے نہيں بلکہ يزيدي فکر اور يزيديت سے جنگ تھي۔ (مترجم)
6 و7 بحار الانوار، جلد ٤٤، ص ٣٢٩
8 حوالہ سابق
9 بحار الانوار جلد ٤٤، صفحہ ٢٣٥
10 بحار الانوار جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٨٢
11 بحار الانوار ج ٤٤، صفحہ ٣٨١
12 بحار الانوار، جلد ٤٥ ، صفحہ ٢١٨
13 خطبہ نماز جمعہ، ١٠ محرم ١٤١٦ ہجري
14 بحار الانوار، جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٩
15 بحار الانوار، جلد ٤٤، صفحہ ٣٨٢
17 علما سے خطاب، ٧/ ٥/١٣٧١
18 زيارت اربعين، مفاتيح الجنان


Hadith Al-Thaqalayn

 The Messenger of Allah - may Allah bestow peace and benedictions upon him and his Progeny - said: "Verily, I am leaving behind two precious things (thaqalayn) among you: the Book of God and my kindred (`itrah), my household (Ahl al Bayt), for indeed, the two will never separate until they come back to me by the Pond (of al Kawthar on the Judgement's Day)." 
Imam Khumayni - ridwan Allah `alayh - began his wasiyyah or will with the mention of this tradition of the Prophet (S), known as Hadith al­Thaqalayn. In the prologue to his wasiyyah he pointed out that whatever tragedies and disasters befell the Muslim world during the last fourteen centuries have been mainly due to its estrangement from the Thaqalayn, the twofold legacy of the Prophet (S) in the form of the Qur'an and the Ahl al Bayt (A).
The extent of the estrangement of the Qur'an will be obvious to anyone who closely examines its teachings and contrasts them with the popular religion of the masses and the prevailing religious ethos, even among the scholars and the intelligentsia. There is certainly a wide gulf that lies between the message and spirit of the Glorious Qur'an and the way Islam has come to be practised in Muslim society, a gulf which has never been so wide as it became in recent centuries under the influence of the West and the tyrannical regimes that have been ruling over Muslims. 
The extent of the estrangement suffered by the Prophet's Household will be obvious to anyone who studies the history of the Imams of the Ahl al­Bayt (A), who were isolated from the Muslim masses by despots and left without support in their struggle against the tyrannical regimes of Banu Umayyah and Banu `Abbas. The result was that the most authentic exponents and defenders of the Qur'an - whom the tides of time will never separate from the Qur'an until the Day of Judgement, as stated by the Noble Prophet (S) - were put under severe surveillance, exiled, imprisoned, poisoned and martyred, and the masses were deprived of their guidance and leadership.
Having removed the Ahl al Bayt (A) from their way, the road was opened by the self seeking tyrants for making the Holy Qur'an itself an instrument for the justification of their anti Qur'anic rule. "They forced," as Imam Khumayni says, "the true exponents of the Qur'an... off the stage with various ploys and systematic plans. In this way, they in fact, eliminated the Qur'an itself, the Qur'an which was the greatest programme for organizing man's material and spiritual life, and rejected its plan of government based on Divine justice, which was and remains one of the ideals of this sacred scripture. Thus they laid the foundations of deviation from the Din and the Book of God, bringing things ultimately to an indescribable extreme."
If today the custodians of American Islam with their petrodollars conspire against the aspirations of the Muslim masses inspired by the genuine Islam, so did once the Umayyad and `Abbasid tyrants stand in the way of Islam and seek to isolate and destroy its exponents, the Imams of the Ahl al Bayt (A), and promote a counterfeit version of Islam. But no matter how much they tried they could not extirpate the Prophet's exhortations regarding the Ahl al Bayt and conceal the unbreakable link between the Book of God and the Prophet's `Itrah, in the form of Hadith al Thaqalaynand scores of other traditions similar to it.
This hadith has continued to be narrated by each generation of authentic Shi`i and Sunni traditionists and scholars throughout the last fourteen centuries. Reliable and trustworthy narrators of each generation, from the days of the Prophet's committed Companions - may God be pleased with them - to the present, including many or rather most of the greatest and leading figures in the history of Islamic scholarship have narrated this hadith. It is in view of this undeniable fact that Imam Khumayni declared in his wasiyyah:
It is essential to point out that Hadith al Thaqalayn is a mutawatir tradition amongst all Muslims. It has been narrated in Sunni sources - including the Six Sihah as well as other books - from the Holy Prophet (S) in different wordings, and as having been spoken by him on repeated occasions. This tradition is a definite proof (hujjah) for all mankind, in particular for the Muslims, regardless of sect. And all Muslims are answerable (before God) concerning it. For it leaves no room for any excuse for any one. And should there be room for an excuse for the ignorant and the uninformed, there isn't any for the scholars of various schools. 
The Meaning of Tawatur
As we know, the tradition or ahadith of the Holy Prophet (S) recorded in the books of Muslim traditionists begin with chains of transmitters on whose authority the traditionist reports the Prophet's acts or statements. Experts of hadith amongst Muslims have developed certain criteria for assessing the reliability of different chains of transmission and ascertaining the authenticity of the contents of traditions. They have developed a terminology with terms denoting various classifications of hadith depending on the character, strength or weakness of narrators and other factors, such as mutawatir, ahad, sahih, hasan, qawi, da`if, etc. 
By tawatur is meant the multiplicity of the sources of a certain report that leads to certitude in the listener that the report is indeed true. One's knowledge of the existence of distant countries and towns and such historical figures as Cyrus or Napolean may be said to be based on thetawatur of reports that one hears about them. So also is one's knowledge of the contemporary events not witnessed by him.
mutawatir hadith is one which has been reported by so many different chains of transmission and such a number of narrators in every generation as normally could not agree to fabricate a tradition without the fact of its fabrication becoming known. Although some jurisprudents have specified a particular minimum for the number of narrators, such as five, seven, ten or even hundred, it is generally held that no particular number can be specified and the number capable of producing certitude depends on the experience of the listener. 
Islamic jurisprudents have set forth certain conditions for a tradition to be mutawatir. Al Ghazali in al Mustasfa min `ilm al 'usul  mentions the following conditions.
(1) That the transmitters should report on the basis of knowledge (`ilm) and not conjecture (zann). 
(2) Their knowledge should have been acquired through the senses.
(3) That the number of narrators should be sufficient to produce certitude.
(4) That all the links in the chains of transmission of a report should fulfil the first two conditions and their number in every stage of transmission must fulfil the third condition. 
Al Shaykh al Hasan ibn Zayn al Din, the Shi`i author of Ma`alim al 'usul, mentions similar conditions for a report to be mutawatir. As can be seen, the legal condition of `adalah (justice) is not required for the narrators nor are they required to be thiqah when the conditions of tawatur are fulfilled. Rather, al Ghazali states explicitly that in such cases knowledge is attained even if the narrators should be fasiq. The author of Ma`alimstates two conditions in order for a mutawatir report to produce knowledge in the listener:
(1) The listener should not have previous knowledge of the matter, for it is not possible to know something that one already knows.
(2) The listener should not be inhibited by doubt or imitation (taqlid) in his belief, for then the report will fail to make

Some Sahih Versions of the Hadith:

Hadith al Thaqalayn is a mutawatir tradition which has been narrated - as we will presently see in our introductory study of `Abaqat al 'anwar, a book written to establish the fact of its tawatur - through scores of different chains of transmission (turuq) only in the Sunni hadith corpus. If we add to these the Shi`i turuq of the tradition, the total number of its narrators becomes considerable. 
Apart from being mutawatir, the hadith has been transmitted through several sahih turuq, that is, through chains in which all the transmitters are regarded as thiqah or as of confirmed trustworthiness and reliability. Following are four of these sahih narrations of the tradition as recorded by Muslim and al Hakim al Nayshaburi in their compilations: 



(Muslim says:) Zuhayr ibn Harb and Shuja` ibn Makhlad narrated to me from `Ulayyah that he said: Zuhayr said: narrated to us Isma`il ibn Ibrahim, from Abu Hayyan, from Yazid ibn Hayyan, who said: "I, Husayn ibn Sabrah and `Umar ibn Muslim went to see Zayd ibn Arqam. When we sat down with him, Husayn said to him, 'O Zayd, you have been greatly fortunate. You have seen the Messenger of Allah, upon whom be Allah's peace and benedictions, heard his speech, fought with him in battles and have prayed behind him. Indeed, O Zayd, you have been enormously fortunate. Narrate to us what you have heard from the Messenger of Allah , may Allah's peace and benedictions be upon him.'
"Zayd said: 'O brother, by God, I have become aged and old and I have forgotten some of what I used to remember from the Messenger of Allah , upon whom be Allah's peace and benedictions. So accept what I narrate to you and as to what I don't, trouble me not regarding it.' Then he said: 'One day the Messenger of Allah , upon whom be Allah's peace and benedictions, addressed us near a pond called Khumm between Makkah and Madinah. He praised God and extolled Him and preached and reminded (us). Then he said, "Lo, O people, I am only a human being and I am about to respond to the messenger of my Lord [i.e. the call of death]. I am leaving behind two precious things (thaqalayn) among you. The first of the two is the Book of Allah. In it is guidance and light. So get hold of the Book of Allah and adhere to it." Then he urged and motivated (us) regarding the Book of Allah . Then he said, "And my Ahl al Bayt (family). I urge you to remember God regarding my Ahl al Bayt. I urge you to remember God regarding my Ahl al Bayt. I urge you to remember God regarding my Ahl al Bayt"'" .... 
(Sahih Muslim, part 7, Kitab fada'il al Sahabah [Maktabat wa Matba`at Muhammad `Ali Subayh wa Awladuhu: Cairo] pp. 122-123.)



(Al Hakim says:) Narrated to us Abu al Husayn Muhammad ibn Ahmad ibn Tamim al Hanzali in Baghdad, from Abu Qallabah `Abd al­Malik ibn Muhammad al Raqqashi, from Yahya ibn Hammad; also narrated to me Abu Bakr Muhammad ibn Balawayh and Abu Bakr Ahmad ibn Ja`far al Bazzaz, both of them from `Abd Allah ibn Ahmad ibn Hanbal, from his father, from Yahya ibn Hammad; and also narrated to us Abu Nasr Ahmad ibn Suhayl, the faqih of Bukhara, from Salih ibn Muhammad, the hafiz of Baghdad, from Khalaf ibn Salim al Makhrami, from Yahya ibn Hammad; and Yahya ibn Hammad narrated from Abu `Uwwanah from Sulayman al 'A`mash, from Habib ibn Abi Thabit, from Abu al Tufayl, from Zayd ibn Arqam, may God be pleased with him, who said: "The Messenger of Allah , may God's peace and benedictions be upon him and his progeny, while returning from his last hajj (hijjat al wada') came down at Ghadir Khumm and ordered (us) towards the big trees, and (the ground) underneath them was swept. 
"Then he said, 'I am about to answer the call (of death). Verily, I have left behind two precious things amongst you, one of which is greater than the other. The Book of Allah , the Exalted, and my `itrah (kindred). So watch out how you treat these two after me, for verily they will not separate from each other until they come back to me by the side of the Pond.' Then he said 'Verily, Allah , the Almighty and the Glorious, is my master (mawla) and I am the master of every believer (mu'min).' Then he took `Ali, may God be pleased with him, by the hand and said, 'This (`Ali) is the master of whomever I am his master. O God, love whoever loves him and be the enemy of his enemy.'" 
(Al Hakim adds:) "This hadith is sahih in accordance with the conditions of sihhah laid down by the Shaykhayn (al Bukhari and Muslim), although they have not recorded it in its full length."



(Al Hakim says:) The first tradition (mentioned above) is supported by this one narrated by Salamah ibn Kuhayl, from Abu al Tufayl, which is also sahih according to the requirements of al Bukhari and Muslim. Narrated to us Abu Bakr ibn Ishaq and Da`laj ibn Ahmad al Sijzi, both of them from Muhammad ibn Ayyub, from al 'Azraq ibn `Ali, from Hassan ibn Ibrahim al Kirmani, from Muhammad ibn Salamah ibn Kuhayl, from his father, from Abu al-Tufayl, from Ibn Wathilah that he heard Zayd ibn Arqam, may God be pleased with him, say: "The Messenger of Allah , may Allah 's peace and benedictions be upon him and his progeny, came down at a place between Makkah and Madinah near the trees with five big shades and the people swept the ground under the trees. Then the Messenger of Allah , may God's peace and benediction be upon him and his progeny, began to perform the evening prayer. After the prayer he began to address the people. He praised God and extolled Him, preaching and reminding (us), and said what God wanted him to say. Then he said, 'O people! Verily, I am leaving behind two matters (amrayn) among you  if you follow them (the two) you will never go astray. These two are: the Book of God and my ahl al bayt, my `itrah.' Then he said thrice: 'Do you know that I have more right over the believers (Inni awla bi al mu'minin) than they over themselves?' The people said, 'Yes.' Then the Messenger of Allah , may Allah's peace and benedictions be upon him and his progeny said, 'Of whomever I am his master (mawla) `Ali also is his master.'" 
(al 'Imam al-Hafiz Abu `Abd Allah al Hakim al Naysaburi, al Mustadrak `ala al-Sahihayn [Dar al Ma`rifah li al Tiba`ah wa al Nashr: Beirut), vol. iii, pp. 109-110).



(Al Hakim says:) Narrated to us Abu Bakr Muhammad ibn al Husayn ibn Muslim, the faqih of Ray, from Muhammad ibn Ayyub, from Yahya ibn al-Mughirah al Sa`di, from Jarir ibn `Abd al Hamid, from al Hasan ibn `Abd Allah al Nakha`i, from Muslim ibn Subayh, from Zayd ibn Arqam, may God be pleased with him, who said: "The Messenger of Allah , may Allah's peace and benedictions be upon him and his progeny, said, 'Verily, I leave behind two precious things amongst you: the Book of Allah and my ahl al bayt. Verily, the two will never separate until they come back to me by the side of the Pond.'"
(Al Hakim says:) This hadith is sahih al 'isnad according to the conditions laid down by the Shaykhayn (al Bukhari and Muslim), though they did not record it. (al Hakim, op. cit., vol. iii, p. 148)
These are four versions of the tradition narrated on the authority of Zayd ibn Arqam. Their sihhah (authenticity) is confirmed by two of the great Sunni Imams of hadith. In addition, as we will see in our study of `Abaqatal 'anwar, the tradition has been narrated by more than thirty Companions of the Prophet (S) and a host of narrators and leading traditionists of every generation up to the contemporary era.

The Various Occasions Related to Hadith al Thaqalayn:
The various narrations of Hadith al Thaqalayn also indicate the occasion on which the Prophet (S) proclaimed it publicly. `Allamah `Abd al-`Aziz Tabataba'i, who has studied the various narrations of Hadith al-Thaqalayn as recorded by various traditionists mentions four occasions on which the Prophet (S) proclaimed it publicly. First of these is the occasion when the Prophet (S) proclaimed it during his last hajj at `Arafat. On this occasion, the Prophet (S) was accompanied by more than a hundred thousand Muslims. The second occasion relates to his proclamation at Ghadir Khumm, during the course of his return journey to Madinah. The third occasion relates to his proclamation in the Mosque of Madinah. The fourth one relates to his pronouncement of Hadith al Thaqalayn in his chamber during his last illness. All these occasions lie within a period of ninety days and pertain to the Prophet's last days.
There are, however, many narrations of the hadith - in fact, most of them - which do not contain any clue about the time and place of its pronouncement. In the following are given instances of the narrations of Hadith al Thaqalayn relating to each of these occasions, accompanied by the sources which record them. 
Al Tirmidhi in his Sunan (v, 662, no. 3786) records the following tradition



....Jabir ibn `Abd Allah said: "I saw the Messenger of Allah - upon whom be God's peace and benedictions - in the course of his hajjpilgrimage on the day of `Arafah. The Prophet (S) was seated on his camel, al Qaswa', and was delivering a sermon. I heard him say: 'O people, I am leaving among you that which if you hold on to you shall never go astray: the Book of Allah and my kindred, my household."
Al Tirmidhi states that the same tradition has been narrated by Abu Dharr, Abu Sa`id, Zayd ibn Arqam and Hudhayfah ibn Usayd.
Among others who have recorded this tradition are:
  1. al Hafiz Ibn Abi Shaybah, as in Kanz al `ummal (1st ed.), i, 48;
  2. al `Uqayli in al Du`afa' al Kabir, ii, 250;
  3. al Hakim al Tirmidhi, Nawadir al-'usul, 68, 50th asl;
  4. al Tabarani, al Mu`jam al kabir, iii, 63, no. 2679;
  5. al Khatib, al Muttafiq wa al muftariq, cf. Kanz al `ummal, i, 48 and Majma' al zawa'id, v, 195; ix, 163, x, 363, 268;
  6. al Baghawi, al-Masabih, ii, 206;
  7. Ibn al 'Athir, Jami` al 'usul, i, 277, no. 65;
  8. al-Rafi`i, al Tadwin, ii, 264 (in the biographical account of Ahmad ibn Mihran al Qattan; this hadith has been deleted in the Indian print, but is present in the manuscripts of the book ! );
  9. al Mizzi, Tahdhib al kamal, x, 51, and Tuhfat al 'ashraf, ii, 278, no. 2615;
  10. al Qadi al Baydawi, Tuhfat al 'ashraf;
  11. al Khwarazmi, Maqtal al Husayn (A), i, 144;
  12. al Khatib al Tabrizi, Mishkat al masabih, iii, 258;
  13. Ibn Kathir, Tafsir (Bulaq edition, on the margin of Fath al bayan), ix, 115;
  14. al-Zarandi, Nazm al durar al simtayn, 232;
  15. al Maqrizi, Ma`rifat ma yajib li Al al Bayt al Nabawi, 38.

Al Nasa'i in his al Sunan al kubra, 96, No. 79, records the following tradition in the chapter "Khasa'is `Ali":



Al Nasa'i narrates from Muhammad ibn al Muthanna, he from Yahya ibn Hammad, from Abu 'Uwwanah, from Sulayman, from Habib ibn Abi Thabit, from Abu al Tufayl, from Zayd ibn Arqam, who said, "When the Messenger of Allah (A) returned from the last hajj and came down at Ghadir Khumm....
"Then he declared: 'I am about to answer the call (of death). Verily, I have left two precious things (thaqalayn) among you, one of which is greater than the other: the Book of God and my `Itrah, my Ahl al Bayt. So watch out how you treat them after me. For, indeed, they will never separate until they return to me by the side of the Pond.' Then he said, 'Verily, God is my master (mawlaya) and I am the wali of every believer.' Then he took `Ali's hand and declared, 'To whomever I am his wali, this one is also his wali. My God, befriend whoever befriends him and be hostile to whoever is hostile to him.'" Abu al Tufayl says: "I said to Zayd, 'Did you hear it from the Prophet(S)?' He replied, 'There was no one in the caravan who did not see it with his eyes and hear it with his ears,'"
Khasa'is `Ali is part of al Nasa'i's al Sunan al kubra as shown by the 3rd volume of the MS in the king's collection in Morocco, written in 759/1358 folios 81-117. See also in this regard the introduction of al Khasa'is (Kuwait: Maktabat al Mu`alla, 1406), ed. by Ahmad Mirayn Balushi. The editor states that this tradition is sahih and its transmitters are thiqah.
Among others who have recorded it in their books are:
  1. Al-Bukhari, al Ta'rikh al kabir, iii, 96;
  2. Muslim, Sahih, bab fada'il `Ali, no. 2408;
  3. Ahmad, Musnad, iii, 17, iv, 366;
  4. `Abd ibn Humayd, Musnad, no. 265;
  5. Ibn Sa`d, and
  6. Abu Ya`la from Abu Sa`id, as mentioned in Jam` al jawami` and Kanz al `ummal;
  7. Ishaq ibn Rahwayh, in his Sahih., as mentioned by Ibn Hajar in al Matalib al `aliyah, iv, 65, no. 1873, where he states that its isnad is sahih,and also by al-Busayri in Ithaf al sadah (MS in Topcopi Library, vol. 3, F.55b) who, too, considers the isnad as sahih;
  8. Ibn Khuzaymah, Sahih, MS in Topcopi Library, F.240;
  9. al Darimi, Sunan, ii, 310, no. 2319;
  10. Abu Dawud, Sunan, as mentioned in Sibt ibn al Jawzi, Tadhkirat khawass al 'ummah, 322;
  11. Abu 'Uwwanah, Musnad, as mentioned in al Shaykhani, al Sirat al sawi;
  12. al Bazzaz, from Umm Hani, as mentioned in Wasilat al ma'al;
  13. Ibn Abi 'Asim, Kitab al Sunnah, 629, no. 1551, 630, no. 1555, 629, no. 1551;
  14. al Ya`qubi, Ta'rikh, ii, 112;
  15. al Baladhuri, Ansab al 'ashraf, 110, no. 48, the biographical account of `Ali (A);
  16. al Hafiz al Hasan ibn Sufyan al Nasawi, the author of Musnad, from Hudhayfah ibn Usayd, as mentioned by Abu Nu`aym, al Hilyah, i, 355,
  17. al Fasawi, al Ma`rifah wa al ta'rikh, i, 536;
  18. Ibn Jarir al Tabari, from Hudhayfah ibn Usayd, Zayd ibn Arqam (with al Nasa'i's wording as well as with the wording of Muslim), Abu Sa`id al­Khudri, as cited in Jam` al jawami`, ii, 357, 395, Kanz al-`ummal, 12911, xiii, 36441, 36340, 37620, 37621, 36341, Jami` al-'ahadith, vii, 14523, 15112, 15122, 15113, iv, 7773, 8072, 8073;
  19. al Dulabi, al Dhurriyyat al tahirah, no. 228;
  20. al Hafiz al Tahawi, Mushkil al 'athar, ii, 307, iv, 368;
  21. al Hakim al Tirmidhi, Nawadir al-'usul, from Hudhayfah ibn Usayd;
  22. al Tabarani, al Mu`jam al kabir, iii, 2679, 2681, 2683, 3052, v, 4969, 4970, 4971, 4986, 5026, 5028;
  23. al Hakim, al Mustadrak `ala al Sahihayn, iii, 109, 110 where he expressly states, as mentioned above, that the tradition is sahih in accordance with the criteria of al Bukhari and Muslim; al Dhahabi has confirmed his judgement;
  24. Abu Nu`aym, Hilyat al 'awliya', i, 355, ix, 64;
  25. al Bayhaqi, al Sunan al kubra, ii, 148, vii, 30, x, 114;
  26. al Khatib, Ta'rikh Baghdad, viii, 442;
  27. Ibn al Maghazili, Manaqib Amir al Mu'minin (A), 23;
  28. Ibn `Asakir, Ta'rikh Dimashq, ii, 45, no. 547, the biographical account of `Ali (A), and v, 436 of Badran's edition in the biographical account of Zayd ibn Arqam;
  29. al Baghawi, Masabih al Sunnah, ii, 205 and Sharh al Sunnah (MS in Topcopi Libary, vol. 2, F. 718), bab Manaqib Ahl al Bayt;
  30. Ibn al 'Athir, Usd al ghabah, iii, 92 in the biographical account of 'Amir ibn Layla, no. 2727;
  31. Ibn Hajar, al 'Isabah in the biographical account of 'Amir;
  32. al-Mizzi, Tuhafat al 'ashraf, iii, 203, no. 3688 from Muslim and al Nasa'i;
  33. al Diya' al Muqaddisi, al Mukhtarah, as cited by al Samhudi and al Sakhawi;
  34. Ibn Taymiyyah, Minhaj al Sunnah, iv, 85;
  35. al-Dhahabi, Talkhis al Mustadrak, iii, 109;
  36. Ibn Kathir, al Bidayah wa al nihayah, v, 209, vi, 199, from al Nasa'i, where he quotes al Nasa'i's statement that this narration is sahih;
  37. al Khazin, Tafsir under verses 42:23 and 3:103;
  38. al Mulla, Wasilat al muta`abbidin, v, 199;
  39. al-Haythami, Majma` al zawa'id, ix, 163 from Zayd, 164 from Hudhayfah.
Ibn `Atiyyah in the introduction of his tafsir, al Muharrar al wajiz, i, 34 records the following narration:



...It is narrated that he (i.e. the Prophet) - upon whom be peace - said in the last sermon that he delivered during his illness: "O people, I leave behind two precious things (thaqalayn) amongst you...: the Book of God - which is a rope between Him and you, whose one end is in His hand and whose other end is in your hands  so act according to its muhkamat and believe in itsmutashabihat; consider as lawful that which it regards as lawful and consider as forbidden that which it regards as unlawful - and my`Itrah and my Ahl al Bayt, who are the second thaql. So don't outstrip them (fa la tasbiquhum ), for then you shall perish." 
Unfortunately in the printed versions of it fa la tasbiquhum has been altered as fa la tasbi`uhum (a meaningless expression). This tradition has also been narrated by:
  1. Abu Hayyan in his tafsir, al Bahr al muhit, i, 12 (with identical wording, except that in a published version of it there is fa la tasubbuhum, i.e. so don't curse them, instead of fa la tasbiquhum);
  2. Ibn Hajar, al Sawa`iq al muhriqah, 75, 136;
  3. Yahya ibn al Hasan, Akhbar al Madinah with his isnad from Jabir, as cited in Yanabi` al mawaddah, 40.
Ibn Abi Shaybah, as cited by Al `Isami in Simt al nujum al 'awali, ii, 502, no. 136, has narrated the following tradition:


 

The Messenger of Allah (S) said during his last illness: "Soon I am going to pass away and I have extended to you my plea of excuse. Lo, verily I leave behind amongst you two precious things: the Book of Allah , the Almighty and the Glorious, and my kindred (`Itrah)."Then he took `Ali's hand and raised it, saying, "This `Ali is with the Qur'an and the Qur'an is with `Ali. The two will not separate until they return to me by the Pond. Then I will ask the two as to how they were treated after me." 
Among the narrators of this tradition are:
  1. al Bazzaz, Musnad, as mentioned in Kashf al 'astar, iii, 221, no. 2612;
  2. Muhammad ibn Ja`far al Razzaz, from Umm Salamah (where she is explicit that the Prophet [S] made this pronouncement in his chamber which was filled by the Companions), as cited in Wasilat al ma'al;
  3. Al 'Azhari, Tahdhib al lughah, ix, 78;
  4. al Khatib al Khwarazmi, Maqtal al Husayn (A), i, 164, from Ibn `Abbas;
  5. Ibn Hajar, al Sawa`iq al muhriqah, 89, from Umm Salamah.

Abaqat al 'Anwar: 
Among Sunni authors one who has written a book on the topic of the chains of transmission (turuq) of this tradition is al Hafiz Abu al Fadl Muhammad ibn Tahir al Maqdisi (448  507/1056  1113), known as Ibn al Qaysarani as mentioned by the biographers (Isma`il Pasha inHadiyyatal `arifin (ii, 82), al 'Ansab al muttafiqah and al Jam` bayn rijal al Sahihayn [Hyderabad]). 

However, the most exhaustive study of the subject is the one undertaken by al 'Imam Sayyid Hamid Husayn Lakhnowi  quddisa sirruh  in the twelfth part of his great work `Abaqat al 'anwar fi imamat al  'A'immat al 'athar. Sayyid Hamid Husayn (1246  1306/ 1830  1888) wrote this work in Persian as a refutation of the seventh chapter of Tuhfeh ye ithna `ashariyyah of Shah `Abd al `Aziz al Dehlawi (1159  1239/1746  1823). In twelve chapters of this work, which is said to be a plagiary in Persian of al Sawa`iq al mubiqah by an obscure writer Nasr Allah al Kabuli, Shah `Abd al­`Aziz severely attacked Shi`i doctrines, beliefs and practices. Shah `Abd al `Aziz's book was an effort to check the expanding influence of Shi'ism, which had begun to flourish under the patronage of the Shi`i kingdom of Awadh and under the religious leadeship of the great Shi`i scholar and mujtahid Sayyid Dildar `Ali ibn Muhammad Mu`in al Naqawi al Nasirabadi (116  1235/1752  1819), known as Ghufran Ma'ab.
Shah `Abd al `Aziz's attack and accusations drew a massive response from Shi`i scholars. `Allamah `Abd al `Aziz Tabataba'i mentions the following authors who wrote refutations of Tuhfeh ye ithna `ashariyyah: 
1. Sayyid Dildar `Ali al Naqawi al Nasirabadi,
who wrote five books refuting various chapters of the Tuhfah: al Sawarim al 'ilahiyyat fi qat` shubuhat `abid al 'Uzza wa al Lat (1215/1800), a refutation of the fifth chapter of the Tuhfah regarding theological issues; Khatimat al Sawarim, a refutation of the seventh chapter concerning the Shi`i doctrine of Imamate; Husam al 'Islam wa siham al malam (Calcutta, 1215/1800), a refutation of the sixth chapter of the Tuhfah concerning prophethood; Ihya' al Sunnah wa imatat al bid`ah bi ta`n al 'asinnah (1281/1864), a refutation of the eighth chapter of the Tuhfah; al Zulfiqar, a refutation of the twelfth chapter.
2. Shaykh Jamal al Din Abu Ahmad Mirza Muhammad ibn `Abd al Nabi Akbarabadi (d. 1232/1816),
who wrote Sayf Allah al maslul `ala mukharribi Din al Rasul, in six big volumes, as refutation of all the chapters of the Tuhfah.
3. `Allamah Mirza Muhammad ibn 'Inayat Ahmad Khan Kashmiri Dehlawi (d. 1235/1820),
who wrote Nuzhat al 'Ithna `Ashariyyah fi al radd `ala al Tuhfat al 'ithna `ashariyyah in twelve volumes, of which the first, third, fourth, fifth and seventh volumes were published (1255/ 1839) and others remained incomplete.
4. Mawlawi Hasan ibn Aman Allah Dehlawi `Azimabadi (d. c. 1260/ 1844),
who wrote Tajhiz al jaysh li kasr sanamay Quraysh, as a refutation of all the chapters of the Tuhfah. 
5. `Allamah Sayyid Muhammad Quli ibn Sayyid Muhammad Husayn Lackhnowi Kanturi (d. 1260/1844),
father of Sayyid Hamid Husayn, who wrote five books in refutation of different chapters of the Tuhfah: al Sayf al nasiri on the first chapter, Taqlid al maka'id (Calcutta, 1262/1846) on the second chapter, Burhan al sa`adah on the seventh chapter, Tashyid al mata'in li kashf al dagha'in in two volumes (1283/1866) on the tenth chapter, and Masari` al afham li qal` al 'awham.
6. Mawlawi Khayr al Din Muhammad Allahabadi,
who wrote Hidayat al `Aziz (or Hadiyyat al `Aziz) as a refutation of the fourth chapter of the Tuhfah about usul al hadith and rijal.
7. `Allamah Sayyid Muhammad ibn Sayyid Dildar `Ali (d. 1284/ 1867) known as Sultan al `Ulama',
who wrote two books, one in Persian and the other in Arabic, in refutation of the seventh chapter of the Tuhfah concerning Imamate, of which the former was entitled al Bawariq al mubiqah. He also wrote Ta`n al rimah in refutation of the tenth chapter.
8. Sayyid Ja`far Abu `Ali Khan ibn Ghulam `Ali Musawi Banarasi,
who wrote Burhan al sadiqin and Mahajjat al Burhan (a condensation of the former) in refutation of the seventh chapter and Taksir al sanamaynin refutation of the tenth chapter.
9. `Allamah Sayyid Mufti Muhammad `Abbas Musawi Tustari Jaza'iri (d. 1306/1888),
who wrote al Jawahir al `abqariyyah in refutation of the Tuhfah's seventh chapter.
10. Al Shaykh Ahmad ibn `Ali Kirmanshahi (d. 1235/1819),
who wrote Kashf al shubhah `an hilyat al mut`ah (MS dated 1227 H. in the National Museum, Karachi), in refutation of the ninth chapter.
However, the most important work that was written as a refutation of the seventh chapter of the Tuhfah conceming the Shi`i doctrine of Imamate was `Abaqat al 'anwar, which was destined to take its place not only as the greatest work on Imamate ever written but also perhaps as one of the greatest masterpieces of scholarship ever compiled on a doctrinal issue anywhere in the history of religion.
In the seventh chapter of the Tuhfah, where Shah `Abd al `Aziz attacks the Shi`i doctrine of Imamate, he claims that the Shi`i claim is based on only six verses of the Qur'an and twelve traditions of the Prophet (S). Accordingly, Sayyid Hamid Husayn wrote his book in two sections, the first concerning the Qur'anic basis of Imamate and the second concerning its basis in the Prophet's hadith. The first section has not been published. The second section consists of 12 parts, each of which deals with the sanad (chains of transmission) and the meaning (dalalah) of one of the twelve traditions of the Prophet (S) concerning `Ali ibn Abi Talib (A) or the Ahl al Bayt (A) rejected by Shah `Abd al `Aziz as supporting the doctrine of Imamate.
The first part studies the isnad and dalalah of what is called Hadith al Ghadir. [5] It is contained in three volumes, of which the first was published in 1293/1876, in 1251 pages and the remaining two, of 609 and 399 pages, in 1294/1877.
The second part deals with Hadith al Manzilah. It appeared in 1295/1878 in 977 pages.
The third part deals with Hadith al Wilayah. It was published in 1303/1885 in 585 pages.
The fourth part deals with Hadith al Tayr.  It was published in 1306/1888 in two volumes of 512 and 224 pages from Matba`ah ye Bustan, Lucknow.
The fifth part deals with Hadith Madinat al `ilm.  It consists of two volumes, of which the first, in 745 pages, appeared in 1317/1899 and the second, in 600 pages, in 1327/1909. 
The sixth part deals with Hadith al Tashbih.  It was published in 1301/1883 in two volumes of 456 and 248 pages. 
The seventh part, which deals with Hadith al Munasabah  and was completed by Sayyid Muhammad Sa`id ibn Sayyid Nasir Husayn ibn Sayyid Hamid Husayn, has not been published yet.
The eighth part, dealing with Hadith al Nur,  was published in 1303/1885 in 786 pages by Matba`ah ye Mashriq al 'anwar, Lucknow. 
The ninth part, dealing with Hadith al Rayah,  has also remained unpublished. 
The tenth part dealing with the hadith... (al-haqqu ma`a `Aliyyin wa `Aliyyun ma`al haqq)  also remains unpublished.



The eleventh part dealing with Hadith al Muqatalah also remains unpublished. 
The twelfth part deals with Hadith al Thaqalayn and Hadith al Safinah.  It was published in two big volumes, the first of which in 664 pages appeared in 1314/1896 and the second in 891 pages in 1351/ 1932.
Sayyid Hamid Husayn and his work `Abaqat have been held in great esteem amongst leading Shi`i scholars and many of them, from Mirza Sayyid Hasan Shirazi, the great marji` and juristic authority of his days, to contemporary scholars, have extolled the author and his great work. Sayyid `Ali Milani, in the first volume of his condensed translation of `Abaqat into Arabic, quotes the statements of various scholars. Here we will confine ourselves to the opinion expressed by the great scholar `Allamah Aqa Buzurg Tehrani, the author of al Dhari`ah ila tasanif al Shi`ah,about Sayyid Hamid Husayn and his work. He says about the author:



(He is) one of the greatest of Imami theologians (mutakallimun) and one of the greatest and deeply learned of Shi`i scholars who lived in the early part of this century. He was profoundly learned, and had extensive knowledge and mastery over the Islamic traditions and heritage and attained such a station in it that none of his contemporaries or anyone of those who came after him, or even most of the celebrities of the preceding centuries, have been able to attain. He spent his entire noble life in fathoming the mysteries of religiosity and in the defence of Islam and the realm of sincere religion. I don't know of anyone in the latter centuries who waged ajihad like him and sacrificed everything in his possession in the way of everlasting truths. The times, in all ages and periods, will never see a compeer of him in his research, his extensive knowledge, his precision, intelligence, and the immensity of his memory and retention.
Aqa Buzurg Tehrani says about the `Abaqat: "It is the greatest of books compiled on the subject (ie. Imamate) from the outset of the Islamic era to the present." And what he says about the author and his book is perfectly representative of the opinion of leading Shi`i scholars on this matter.

The Author's Approach in `Abaqat:
`Abaqat al 'anwar was written in Persian because Shah `Abd al`Aziz's Tuhfah, which it refuted, was also in Persian. As mentioned above, Shah `Abd al `Aziz had cited five verses of the Qur'an and twelve traditions of the Prophet (S) as constituting the basis of Shi`i argument conceming the Imamate of the Imams of the Ahl al Bayt (A). This was itself a misrepresentation of the Shi`i case, for there are hundreds of verses and traditions, many of which are scattered throughout the Sunni hadith corpus as well as works in tafsir. Even the verses and traditions that he cites are dismissed summarily by him on, as Sayyid Hamid Husayn shows, flimsy and untenable pretexts. 
The published parts of `Abaqat deal with eight of these traditions, each part dealing with the sanad and doctrinal import of one of them. Sayyid Hamid Husayn's approach in each of these parts is to show that the hadith is a mutawatir one, having been narrated by Sunni traditionists of every generation from the time of the Companions to the scholars of his own era. He devotes a section to each of the narrators, quotes the tradition as narrated by him, and cites the opinions of biographers and Sunni authorities of `ilm al rijal regarding his reliability, trustworthiness and his scholarly station.
After discussing the sanad aspect of the tradition, he goes on to deal with its meaning, dealing one by one with all the various arguments that have been advanced by Sunni scholars to refute what the Shi`ah assert to be its doctrinal implications. His treatment is so logical, meticulous, precise, thorough and exhaustive that one cannot but be struck with wonder at his prodigious, or rather miraculous, learning and his encompassing mastery over the entire Islamic heritage of thirteen centuries before him which lies in front of him like an open book.
This sketchy study of `Abaqat relates to its part concerning the Hadith al Thaqalayn. At first we will give a list of its narrators belonging to every century of the Hijrah calendar. A brief reference is given under the name of each narrator concerning his standing with Sunni authorities on rijal. We have included the names of other narrators from the appendix (mulhaqat) to `Abaqat by Sayyid `Abd al `Aziz Tabataba'i, which has been included in the condensed Arabic translation by Sayyid `Ali Milani.
Reprints of most parts of `Abaqat al 'anwar have appeared in Iran. The first section of the first part, dealing with the sanad aspect of Hadith al­Ghadir was published in 1369/1949 in 600 pages from Tehran. The twelfth part, dealing with Hadith al Thaqalayn and Hadith al Safinah, was published in six parts and three volumes (vol. 1 in 1379, vol. 2 in 1378 79, and vol. 3 in 1381 and 1382) by Mu'assaseh ye Nashr e Nafa'is e Makhtutat, Isfahan. Madrasat al 'Imam al Mahdi, Qumm, has published offset reprints of the first Indian lithographed print on the occasion of the author's first death centenary (vol. 3 on Hadith al Wilayah, 1406; vol. 4 on Hadith al Tayr, 1405; vol. 5 on Hadith Madinat al `ilm, 1406; vol. 6 onHadith al Tashbih, 1406; vol. 8 on Hadith al Nur, 1406). `Allamah Shaykh Ghulam Rida Burujerdi has prepared a new edition of the book giving all the necessary references. His edition is under print.
Sayyid `Ali Milani has published ten volumes of Khulasat `Abaqat al 'anwar, which is a condensed translation of the book in Arabic. The first two volumes of his translation, which begins with Hadith al Thaqalayn, were published in 1398. Bunyad e Bi'that, Tehran, has published a new edition of the Khulasah, of which ten parts, dealing with Hadith al Thaqalayn, Hadith al Safinah, Hadith al Nur and Hadith al Ghadir, have appeared. 
The Meaning of Hadith al Thaqalayn
In each of the parts of the `Abaqat dealing with a particular hadith, the author, Sayyid Hamid Husayn - quddisa sirruh - after dealing with itstawatur goes on to deal with the meaning and doctrinal import of the hadith. In fact, this is the method which he is forced to follow in order to refute the statements of Shah `Abd al-`Aziz in the Tuhfah regarding the tawatur of the traditions mentioned by him as well as their doctrinal import.
In the second section of the part of the `Abaqat dealing with Hadith al-Thaqalayn, Sayyid Hamid Husayn deals with Shah `Abd al `Aziz's objections, the first of which relates to its transmission and the rest to its doctrinal impact.
The first objection dealt with is the statement of Shah `Abd al `Aziz that only Zayd ibn Arqam from among the Prophet's Companions has narrated the tradition. This objection is met by pointing out that at least thirty-four Companions have narrated the tradition. The sources which narrate the tradition from each of them - which were mentioned earlier in this article - are pointed out by him. 
Moreover, he points out, Zayd's narration of the tradition has two lengthier versions as recorded by al-Nasa'i in al-Khasa'is, al Hakim in al-Mustadrak, al-Tabarani and `Ali al-Muttaqi. Moreover, he points that the wording of the tradition as quoted by Shah `Abd al-`Aziz has not been narrated or recorded by any Sunni authority on tradition.
The next statement of Shah `Abd al-`Aziz that is dealt with is his outright denial that Hadith al-Thaqalayn implies the religious leadership of the Ahl al-Bayt (A). The author points out that since the Prophet (S) has placed the Ahl al-Bayt (A) by the side of the Qur'an, it means that the Ahl al-Bayt (A) have to be followed, like the Qur'an, as the living guides of the Ummah in matters of doctrine, ritual and law. He cites the statements of numerous leading Sunni authorities in affirmation of this. The author points out that the words 'thaqalayn' and the command to hold on to them(al-'i`tisam, al-'akhdh or al 'ittiba` in accordance with the different wordings) unambiguously imply that in the same way as it is obligatory to follow the Qur'an, so also it is equally obligatory to follow the AhI al-Bayt (A) in the matters of Islamic teachings. Moreover, the inseparability of the Qur'an and the AhI al-Bayt (A), as well as the repeated emphasis on holding on to the two and the specific emphasis on adherence to the Ahl al-Bayt (A) and the observance of their rights clearly establish the obligation to follow the Ahl al-Bayt (A) as the religious leaders, authorities and guides of the Ummah. The author points out that this interpretation of the Hadith al-Thaqalayn is also confirmed by some verses of the Holy Qur'an such as:



Say: 'I do not ask of you a wage for this, except love for the kinsfolk.' (42:23)



And halt them, to be questioned. (37:24) 
The author cites a number of Sunni scholars, such as al-Sakhawi in al 'Istijlab, al-Suyuti in al-Durr al-manthur (vi, 7), `Abd al Wahhab al Bukhari inTafsir Anwari, al-Khatib al-Sharbini in al-Siraj al-munir (v, 538), al-Tayyibi in al-Miqat (v, 594), al Munawi in Fayd al-Qadir (iii, 14), al-Zarqani inSharh al Mawahib (vii, 7) and others, regarding the interpretation of the first verse. Others, including al-Samhudi, al Wahidi, al Shaykhani, Mawlawi Wali Allah Lakhnowi, and Mawlawi Muhammad Mubin, have affirmed that the questioning on the Day of Judgement referred to in the second verse refers to the attitude of the individual Muslim vis-a-vis the Prophet's Ahl al Bayt (A).
Sayyid Hamid Husayn then goes on to point that Hadith al Thaqalayn also affirms the freedom of the Imams of the Ahl al Bayt (A) from sin and error (`ismah) because: the hadith commands adherence to them and the Qur'an together and since the Qur'an is free from every trace of falsehood and error, so is the guidance of the Ahl al-Bayt (A); adherence to the two of them is considered as a guarantee against misguidance for the Ummah, which is only possible if the Imams of the Ahl al-Bayt (A) are free from error and sin. This conclusion is also supported by other traditions of the Holy Prophet (S) in favour of `Ali (A) and the Ahl al-Bayt (A), some of which were mentioned earlier. 
Furthermore, the author points out, the Hadith al-Thaqalayn
implies the preeminence of the Ahl al-Bayt (A) within the Ummah from the viewpoint of knowledge (a`lamiyyah) and excellence (afdaliyyah). He cites statements of several non-Shi`i scholars in confirmation of this conclusion. 
Moreover, the author states, there are many traditions which indicate that Hadith al-Thaqalayn and Hadith al-Ghadir were proclaimed by the Prophet (S) in the course of a single sermon at Ghadir Khumm. Some of these traditions have been recorded by al-Muttaqi in Kanz al `ummal (i, 167), Ibn Kathir in Ta'rikh (v, 209), al-Sakhawi in al-'Istijlab (MS), al-Samhudi in Jawahir al `iqdayn (MS), Ibn Hajar in al-Sawa`iq (25) from al-Tabarani and many others. 
According to still some other versions of the narration, Hadith al Thaqalayn, Hadith al-Ghadir and Hadith al-Manzilah were mentioned in the course of the same sermon at Ghadir Khumm as mentioned by Ibn Hajar in al-Fatawa al-fiqhiyyat al-kubra, ii, 122.
In some versions of the tradition, he points out, the word 'khalifatayn' (successors) is mentioned instead of 'thaqalayn', as in the narrations recorded by Ahmad ibn Hanbal in Musnad, v, 181, as well as al Tabarani, Ibn Abi `Asim, Abu Bakr ibn Abi Shaybah, al-Zarqani and others. This word implies rather more explicitly the Imamah and Khilafah of `Ali ibn Abi Talib (A) and the Ahl al-Bayt (A).
Some versions of the tradition, such as the one narrated by al Qunduzi in Yanabi` al-mawaddah, 20, from al-Hasan ibn `Ali (A), contain the following statement of the Prophet (S) which signifies the perpetuity of the Imamate: 



O God, You don't let the earth remain devoid of Your Proof over Your creation so that Your proofs should not become invalid or that Your friends should go astray after You have guided them. They (the Proofs of God) are few in number but great in worth near God, Almighty and Glorious. Indeed, I had prayed to God, Exalted and Blessed, to place knowledge and wisdom in my descent and the descent of my descendants, and in my seed and the seed of my seed, until the Day of Resurrection, and my prayer was granted.
This closely resembles the following tradition of Nahj al balaghah (Hikam:147addressed by `Ali (A) to his pupil Kumayl ibn Ziyad. 



...But the earth is never devoid of him who stands for God with a proof (qa'im li'Ilah bi hujjatin). He is either manifest and well-known or afraid and concealed, so that God's proofs and His clear signs should not become invalid. How many are they and where are they? By God, they are few in number, but great in esteem before God. Through them God maintains His proofs and signs till they entrust them to others like themselves and plant them in the hearts of their likes. Knowledge has led them to the reality of understanding and they have attained the spirit of certitude. That which is hard upon the seekers of comforts comes easy to them. They endear what the ignorant regard with aversion. They live in the world with their bodies, but their spirits are in a higher realm. They are the vicegerents (khulafa') of God in His earth and His callers to His Din. Oh, how much I yearn to see them! (H: 147)
This tradition of `Ali (A) has been widely reported and recorded by Shi`i and non-Shi`i traditionists and historians, including Ibn `Abd Rabbih inal-`Iqd al-farid, i, 265, 293; al-Ya`qubi in Ta`rikh, ii, 400; al-Harrani in Tuhaf al-`uqul, 169; al-Saduq in al-Khisal, i, 85 and Ikmal al-Din, 169; Abu Talib al-Makki in Qut al-qulub, i, 272; al-Khatib al Baghdadi in Ta'rikh Baghdad, vi, 389; al-Razi in al-Tafsir al-kabir, ii, 192; Ibn `Abd al-Barr in al-Mukhtasar, 29 and Jami` bayan al-`ilm; al-Khwarazmi in al-Manaqib, 390 and al 'Azhari in Tahdhib al-lughah, vi, 70.
To return to the discussion of `Abaqat about the doctrinal import of Hadith al-Thaqalayn, the author next points out that `Ali (A) referred to it in the course of his debate with the members of the six-man council (shura) appointed by `Umar, the second caliph, to select a successor to him. `Ali's arguments (ihtijaj) before the shura are recorded in detail by Ibn al-Maghazili in his al-Manaqib, 112. Al-Qunduzi in Yanabi` al-mawaddah,35, also refers to `Ali's reference to Hadith al Thaqalayn in order to establish the incontestability of his claim to successorship of the Prophet (S).
This tradition was also referred to by al-Hasan ibn `Ali (A) in his speech delivered after being elected as caliph following `Ali's (A) martyrdom. Al-Qunduzi, op. cit., 21, 48  483 and Sibt ibn al Jawzi in Tadhkirat al khawass, 198, have recorded related traditions in their works. Besides the large number of Companions who have narrated the tradition, reference to it also occurs in a letter of `Amr ibn al-`As addressed to Mu`awiyah and recorded in al-Khwarazmi's al-Manaqib, 128 - 130, and in a statement of al-Hasan al-Basri, a well-known Tabi`i saint, as recorded by Ibn Abi al-Hadid in Sharh Nahj al-Balaghah, iv, 95. All these references affirm the preeminence of `Ali ibn Abi Talib (A) and the Ahl al-Bayt (A) in the Ummah and their claim to the comprehensive leadership of the Ummah after the Holy Prophet (S).


Some Traditions that Appear to Conflict with Hadith al Thaqalayn:
Shah `Abd al-`Aziz, in the Tuhfah, states that even if Hadith al Thaqalayn be accepted as such, it contradicts some traditions of the Prophet (S). One of these traditions, which he claims to be sahih, is as follows: 



Adhere to my sunnah and the sunnah of the rightly-guided successors after me. Hold on to it and cling on to it stubbornly. 
Sayyid Hamid Husayn points out that such a contention is invalid:
  • Firstly, he says, the tradition has been narrated solely by Sunnis, unlike the Hadith al-Thaqalayn which has been narrated widely both by Shi`i and non-Shi`i narrators.
  • Secondly, Shah `Abd al `Aziz has here failed to observe his own self-declared principle that his arguments against Shi`i doctrines will be based on material derived from works accepted as reliable by the Shi`ah themselves.
  • Thirdly, he points out, this tradition has been avoided by Muslim and al-Bukhari, whose works are widely accepted by the Ahl al-Sunnah as the most authentic works on hadith.
  • Fourthly, the claim that the above-mentioned narration is sahih is not true, because the veracity of its transmitters has been considered as questionable by Sunni authorities.
The tradition has been recorded by Abu Dawud, al-Tirmidhi and Ibn Majah in their works. As to al-'Irbad ibn Sariyah, the sole narrator from whom the tradition is narrated, he is not reliable because of the untenable statement he makes in his own praise ("I am one-fourth of Islam").
As to Hajar ibn Hajar al-Kila'i, aside from belonging to Hims, a Syrian town once notorious for its people's enmity of `Ali (A), is of unknown standing as mentioned by Ibn Hajar in Tahdhib al-Tahdhib, iii, 118.
Khalid ibn Ma`dan ibn Abi Karib al-Kitabi, aside from belonging to Hims, was the chief of police of Yazid ibn Mu`awiyah, the most infamous ruler in the history of Islam. 
Thawr ibn Yazid, too, belonged to Hims as mentioned by al Dhahabi (Mizan al 'i`tidal, i, 374). As mentioned by Ibn Hajar (op. cit., ii, 34) he hated `Ali (A), who had killed his father in a battle. `Abd Allah ibn Mubarak refrained from narrating from him and considered him a heretic (fasid al­madhhab). 
The next transmitter, al-Walid ibn Muslim, has been accused of forgery by Abu Mushar, as mentioned by al Dhahabi in Mizan al-'i`tidal, iv, 347. These were some of Abu Dawud's authorities.
The author then goes on to show that the transmitters of the narration recorded by al-Tirmidhi and Ibn Majah, namely Abu `Asim, Hasan ibn `Ali al-Khallal, Buhayr ibn Sa`id, Baqiyyah ibn al-Walid, Yahya ibn Abi al-Muta`, `Abd Allah ibn `Ala', Mu`awiyah ibn Salih, Isma`il ibn Bishr ibn Mansur, and `Abd al-Malik ibn al Sabbah, are all weak (da`if) transmitters, as mentioned by Sunni authorities on rijal in their works.
Moreover, al-Hafiz ibn al Qattan has expressly rejected the authenticity of this sole narration of `Abd al-Rahman al-Salami, as mentioned by Ibn Hajar in Tahdhib al-Tahdhib, vi, 238. 
The author then goes on to point out that even if this narration be presumed to be sahih, it cannot have any weight against Hadith al Thaqalaynwhich has been narrated by a great number of Companions and leading Sunni scholars, while this narration has not been recorded in most of their works. Moreover, should this tradition be really authentic, then the words "rightly-guided successors" should be taken to mean the Twelve Imams of the Ahl al-Bayt (A), as affirmed by another well-known tradition of the Prophet (S) that there would be twelve khulafa' or a'immah after him.
Thereafter the author goes on to deal with another doubt cast on this tradition by Shah `Abd al-`Aziz, that even if it be presumed that Hadith al-Thaqalayn does not conflict with the above-mentioned tradition, the word al-`itrah can be taken to mean all the Prophet's kinsmen (aqarib)belonging to Banu Hashim in general, or all of the descendants of Fatimah (A). Then it would be absurd to say that every individual belonging to them were an imam.
Sayyid Hamid Husayn clarifies this doubt by quoting various lexicographers, such as al-Jawhari, Ibn al-'Athir, Ibn Manzur, al Firuzabadi and others to the effect that `itrah means one's nearest relations (akhass aqaribih), children (walad) and descendants (dhurriyyah).
Moreover, he points out, Hadith al-Thaqalayn indicates the supreme knowledge as well as freedom of the `itrah mentioned in it from sin and error. Such a description applies solely to the Twelve Imams (A), who in their traditions, from `Ali (A) onwards, have introduced themselves as the`itrah of the Prophet (S) and as the supreme authorities of the Islamic faith by the side of the Qur'an. 
Thereafter, the author deals with another tradition ascribed to the Prophet (S) which too Shah `Abd al-`Aziz claims to be sahih:



Take part of your religion from this Humayra' (i.e. `A'ishah).
Sayyid Hamid Husayn points out that many Sunni authorities and scholars have considered it a baseless fabrication and forgery devoid of isnad;among them are:
  • al Mizzi and al Dhahabi as mentioned in al Taqrir wa al-tahbir fi sharh al Tahrir, iii 99;
  • Ibn Qayyim al Jawziyyah, who has considered all traditions with the words "ya Humayra" and "al-Humayrah" as fabrications;
  • Ibn Kathir as quoted in al Durar al muntashirah fi al-'ahadith al mushtahirah, 79;
  • Ibn Hajar al `Asqalani as quoted in al-Taqrir wa al tahbir, iii, 99;
  • as well as Ibn al Mulaqqin, al Subki, Ibn Amir al-Hajj, al Sakhawi, al Suyuti, al Shaybani, al Shaykh `Ali al Qari, al-Zarqani, `Abd al `Ali al­Shawkani and others.
Another tradition mentioned by Shah `Abd al `Aziz to contend the import of Hadith al Thaqalayn is the following one ascribed to the Prophet (S):



Seek guidance with the guidance of `Ammar. 
Sayyid Hamid Husayn points out that such a tradition cannot be put forward to contest the import of Hadith al-Thaqalayn, for `Ammar himself was one of the staunch followers (shi`ah) of `Ali (A) and had been instructed by the Prophet (S) to obey and follow `Ali (A):



[The Prophet (S) said to `Ammar:] O `Ammar, `Ali will not divert you from guidance. O `Ammar, obedience to `Ali is obedience to me, and obedience to me is obedience to God, Almighty and Glorious. 
This tradition has been recorded in various non-Shi`i works, such as:
  • Farai'd al-simtayn, i, 178;
  • al-Mawaddah fi al-qurba;
  • al-Khwarazmi's Manaqib, 57, 124;
  • Yanabi` al-mawaddah, 128, 250;
  • Miftah al-naja, MS.; and
  • Kanz al-`ummal, xii, 212.
Moreover, it is strange of Shah `Abd al-`Aziz to bring this tradition as an evidence against Hadith al-Thaqalayn, for `Ammar, as mentioned by al-Ya`qubi in his Ta'rikh, ii, 114 and al-Mas`udi in Muruj al-dhahab, ii, 342, was among those who abstained from giving allegiance to the first caliph. `Umar, during his reign, rejected `Ammar's guidance and spoke to him in harsh terms when the latter suggested that one should performtayammum when water could not be found for wudu', instead of abstaining from salat, as `Umar had ruled. This episode has been recorded by:
  • Ahmad in his Musnad, iv, 265 and
  • Muslim in his Sahih, i, 110,
  • as well as a host of other writers such as Abu Dawud, al-Nasa'i, al-Tabari, al-`Ayni, Ibn al-'Athir and al-Shaybani.
`Uthman during his reign had `Ammar beaten until he fell unconscious and nearly died when the latter handed over a letter of protest written by a group of Muslims against the former's misrule. This episode has been recorded by:
  • Ibn Qutaybah in al 'Imamah wa al-siyasah, i, 32;
  • Ibn `Abd Rabbih in al `Iqd al farid, ii, 192;
  • al-Mas`udi in Muruj al-dhahab, ii, 338;
  • Ibn `Abd al-Barr in al-'Isti`ab, iii, 136; and
  • al-Ya`qubi in Ta'rikh, ii, 160. 
Although the Prophet (S) was known to have made several statements in `Ammar's favour - such as "The enemy of `Ammar is the enemy of God" - `Ammar was either opposed, hated and mistreated by a number of Companions such as `Abd al Rahman ibn `Awf, Sa`d ibn Abi Waqqas, al-Mughirah ibn Shu`bah, Abu Musa al-'Ash`ari, Abu Mas`ud al-'Ansari and others. `Ammar stood firmly by `Ali's side and fought with him against `Ali's opponents, Talhah, al-Zubayr and Mu`awiyah, in the battles of Jamal and Siffin. Ultimately he was killed by Mu`awiyah's men, thus fulfilling the Prophet's well-known prophecy that `Ammar would be killed by a rebellious party (al-fi'at al-baghiyah). 
Sayyid Hamid Husayn then goes on to deal with some other narrations ascribed to the Prophet (S) and cited by Shah `Abd al `Aziz, which are: 



Hold on to the covenant of Ibn Umm `Abd (i.e. `Abd Allah ibn Mas`ud).



That which Ibn Umm `Abd approves of is approved for you by me.
Both of these are weak (da`if) and isolated (ahad) traditions, while Hadith al-Thaqalayn is a mutawatir one. That both Muslim and al Bukhari did not record them in their works indicates that they considered their isnad to be weak. Moreover, even if assumed to be authentic they do not contradict Hadith al Thaqalayn, for while they only show the merit of Ibn Mas`ud, Hadith al-Thaqalayn signifies the preeminence and leadership of the Ahl al-Bayt (A). Furthermore, it is inconsistent of Shah `Abd al-`Aziz to advance those traditions, for `Umar, instead of approving Ibn Mas`ud's acts, forbade him to give fatwa and narrate the Prophet's hadith and forbade him from leaving Madinah, which Ibn Mas`ud could not leave until the former's death. `Uthman went a step further and had Ibn Mas`ud beaten so mercilessly that his ribs were broken.
Another tradition advanced in this context by Shah `Abd al-`Aziz is:



Mu`adh ibn Jabal is the most knowledgeable among you regarding halal and haram. 
Sayyid Hamid Husayn points out that it has exclusively been narrated by the Sunnis. Muslim and al-Bukhari, although their traditions do not constitute any binding evidence for the Shi`ah, have avoided it in their compilations. Among a number of Sunni authorities who have considered it as weak or baseless are:
  • Ibn Taymiyyah,
  • Ibn `Abd al-Hadi,
  • al-Dhahabi, and
  • al-Munawi.
Among its narrators, Muhammad ibn `Abd al-Rahman al Baylamani, his father, Zayd al-`Ammi, Salim ibn Salim have been considered unreliable by several authorities on hadith and rijal, among them:
  • al-Bukhari,
  • al-Nasa'i,
  • al-Muqaddisi,
  • al Darqutni,
  • Ibn Hajar,
  • al-Dhahabi,
  • Ibn al-Jawzi and others.
Moreover, there are episodes recorded in Ibn Sa`d's al-Tabaqat, iii, 585 and Ibn `Abd al-Barr's al-'Isti`ab, iii, 1404 which indicate that Mu`adh did not possess the kind of competence claimed for him in the above tradition.

Shah `Abd al-`Aziz advances another tradition ascribed to the Prophet (S) in this context for which he claims a degree of prevalence (shuhrah)nearing tawatur:



Follow those who will come after me, Abu Bakr and `Umar.
Hamid Husayn points out that the claim of shuhrah is untenable and that a number of Sunni authorities have found fault with it or considered it as baseless, such as:
  • Abu Hatim al-Razi, al-Bazzaz and Ibn Hazm as mentioned in Fath al-Qadir fi sharh al-Jami` al-saghir, ii, 52;
  • al-Tirmidhi, Sahih, v, 672;
  • al-`Uqayli, al-Du`afa';
  • al-Naqqash, as mentioned in Mizan al-'i`tidal, i, 142;
  • al-Darqutni, as mentioned in Lisan al-mizan, v, 237;
  • al-`Ibri al-Farghani in Sharh al Minhaj, MS;
  • al Dhahabi, Mizan al 'i`tidal, i, 105;
  • Ibn Hajar al-`Asqalani, Lisan al mizan, i, 188, 272, v, 237; and
  • Shaykh al-'Islam al-Harawi, al Durr al nadid, 97.
Ibrahim ibn Isma`il, Isma`il ibn Yahya, Yahya ibn Salamah ibn Kuhayl and Abu al Za`ra', who have transmitted it have been considered unreliable transmitters by Abu Zur`ah, Abu Hatim, Ibn Numayr, al Darqutni, al Bukhari, al Nasa'i, Ibn Mu`in, Ibn Hibban, al-Tirmidhi and others. 
The narrations cited above are advanced by Shah `Abd al-`Aziz to make the point that if Hadith al-Thaqalayn be considered as signifying theimamah of the Imams of the Ahl al-Bayt (A) then these traditions must also be construed as signifying the imamah of al-Humayra', `Ammar, Ibn Mas`ud, Mu`adh ibn Jabal, Abu Bakr and `Umar. Sayyid Hamid Husayn points out that such a conclusion would follow if the traditions advanced were authentic. But as established, in the `Abaqat, all of them are weak and unreliable ahad, which have no weight in comparison with Hadith al-Thaqalayn, which is a mutawatir tradition narrated widely by the leading traditionists and scholars of the Ummah from the Shi`ah and the Ahl al-Sunnah.

Shah `Abd al-`Aziz cites another narration known as Hadith al Nujum ascribed to the Prophet (S) in support of his argument:



Verily, my Companions are like the stars (nujum) in the sky; whichever of them you follow, you shall be guided rightly. The disagreement of my Companions is a blessing for you. 
Among Sunni authorities those who have considered this tradition as unreliable are:
  • Ahmad ibn Hanbal, as quoted in al-Taqrir wa al-tahbir, iii, 99;
  • al-Mizzi, as quoted in Jami` bayan al-`ilm, ii, 89-90;
  • al-Bazzaz, as quoted in Jami` bayan al-`ilm, ii, 90;
  • Ibn al Qattan, in al-Kamil;
  • al-Darqutni, as quoted in Lisan al-mizan, ii, 137;
  • Ibn Hazm, as quoted in al-Bahr al-muhit, v, 528;
  • al-Bayhaqi, as quoted in al-Hafiz al-`Iraqi, Takhrij ahadith al Minhaj, MS.;
  • Ibn `Abd al-Barr in Jami` bayan al-`ilm, ii, 90-91;
  • Ibn `Asakir as quoted in Fayd al-Qadir, iv, 76;
  • Ibn al-Jawzi, in al-`Ilal al-mutanahiyah fi al-'ahadith al wahiyah, MS.;
  • Ibn Dahiyyah as quoted in Ta`liq Takhrij ahadith al Minhaj, MS.;
  • Abu Hayyan al-'Andlusi, in al-Durr al-laqit min al-Bahr al muhit published with al-Bahr al-muhit, v, 527-528;
  • al-Dhahabi in Mizan al-'i`tidal, i, 413, ii, 102, ii, 605;
  • Ibn Qayyim al-Jawziyyah in I`lam al-muqi`in, ii, 223;
  • Zayn al-Din al-`Iraqi, in Takhrij ahadith al-Minhaj, MS.;
  • Ibn Hajar al-`Asqalani, in Talkhis al-Khabir, iv, 190-191;
  • Ibn al-Humam in al-Tahrir bi Sharh Ibn Amir al-Hajj, iii, 99;
  • Ibn Amir al-Hajj, al-Taqrir wa al-tahrir, iii, 99;
  • al-Sakhawi in al-Maqasid al-hasanah, 26-27;
  • Ibn Abi Sharif, as mentioned in Fayd al Qadir, iv, 76;
  • al-Suyuti, Itmam al-dirayah and al-Jami` al-saghir, iv, 76;
  • al Muttaqi al-Hindi, Kanz al-`ummal, vi, 133;
  • al-Qari, al-Mirqat, v, 523;
  • al-Munawi, al-Taysir fi sharh al-Jami` al-saghir, ii, 48 and Fayd al-Qadir, iv, 76;
  • al-Khafaji, in Nasim al-riyad (sharh of al-Shifa'), iv, 323-324;
  • al Sindi, Dirasat al-labib fi al 'uswat al hasanat al Habib, 240;
  • al Qadi Muhibb Allah al-Bihari, in Musallim al thubut bi sharh `Abd al `Ali, ii, 510;
  • Nizam al-Din al-Sahalawi, al Subh al sadiq (sharh al Manar);
  • al Mawlawi `Abd al-`Ali, Fawatih al rahmut (sharh Musallim al thubut), ii, 510;
  • al-Shawkani, in Irshad al fuhul, 83;
  • Wali Allah ibn Habib Allah al Lakhnowi in Sharh Musallim al thubut; and
  • Siddiq Hasan Khan al Qannawji, in Husul al ma'mul, 568.
The tradition is also unacceptable on the following grounds:
  1. It not only implies that each and every Companion was righteous himself but was a competent leader and guide of the Ummah; such an implication is false according to consensus, for all of them themselves required guidance.
  2. A group of them was guilty of such major sins as adultery, homicide and false witness according to the testimony of history, and it is unreasonable that the Prophet (S) should have appointed such individuals as guides and leaders of the Ummah.
  3. There are many verses in the Qur'an, especially in the surahs of al-'Anfal, al-Bara'ah, al-'Ahzab, al-Jumu`ah and al-Munafiqun, which throw a bad light on the character of a considerable number of the Companions and it is illogical to hold that the Prophet (S) would make such individuals as the leaders and guides of the Ummah.
  4. There is a large number of the Prophet's traditions, narrated both in authentic Sunni and Shi`i sources, which make the Companions appear suspect as a group. The above-mentioned narration conflicts with all such authentic traditions. 
  5. There are traditions recorded in Sunni sources which explicitly prohibit the Ummah from following the Companions. According to one recorded by al-`Asimi in Zayn al-fata fi tafsir Surat Hal Ata, MS., the Prophet (S) is reported to have said:



There will be innovations perpetrated by my Companions after me (i.e. the fitnah that occurred amongst them). God shall forgive them due to their earlier record (of good deeds), but if a people follow them after them, God shall throw them into Hellfire.
6. Some of the Companions are on record as having made statements that imply the denial that they possessed the competence to be followed as guides and leaders. Abu Bakr and `Umar have made numerous statements about themselves which reveal their incompetence as guides who can be followed, like the Quran, without qualms. 
Aware of the difficulty involved in the adoption of the Hadith al Nujum, Shah `Abd al-`Aziz admits that some Companions are known for certain to have erred in their ijtihad because it conflicted with the express commands (nusus) of the Qur'an and the Sunnah. However, he submits, the Companions may be followed in matters when there exist no express commands in the Book and the Sunnah.
Sayyid Hamid Husayn replies by pointing out that:
  1. one who is known for certain to have erred in his judgements cannot be a legitimate guide.
  2. Secondly, when the Companions are known to have erred in matters where there exist express texts in the Book and the Sunnah, the possibility of error is greater in matters where there are no such express texts.
  3. Thirdly, he points out, it is not permissible to follow one who may err when there exist guides the righteousness of whose guidance and whose freedom from error or sin (`ismah) has been guaranteed by God. The Verse of al-Tathir (33:33) and Hadith al-Thaqalayn, as well as a great number of other verses and ahadith, introduce the Imams of Ahl al-Bayt (A) as possessing the quality of `ismah.
  4. Fourthly, the Companions disagreed amongst themselves concerning the laws of the Shari`ah, including those which did not possess express texts. In such a situation it is highly improper to consider them as stars of the firmament of guidance.
  5. Fifthly, the Companions often found fault with one another, some times violating all limits of moderation in attributing falsehood, ignorance and even kufr to one another, as recorded in the books of the Ahl al-Sunnah. Obviously, no rational person will accept all of them as the righteous guides of Muslims.
  6. There were individuals amongst the Companions who practised analogy (qiyas) which has been condemned by a large number of the legists of the Ummah.
  7. There were individuals among them, including the first three caliphs, who turned to others to find out the rule of the Shari`ah concerning an emergent issue. It is illogical to imagine that the Prophet (S) would designate ignorant persons as authorities for the Ummah in doctrinal and legal matters. There were some among them who did not understand the meanings of certain words of the Qur'an, such as `Umar, who, for instance, did not know the meaning of 'kalalah'. Al-Tabari in his exegesis, iv, 283-284, has recorded `Umar 's own statement in this regard.
  8. Some of them were guilty of usurious transactions, sale of wine,or of giving fatwa without knowledge, and sometimes in opposition to the Prophet's express command. Some of them were guilty of instituting innovations contrary to the Prophet's Sunnah.

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget