خطبہ اول
کہ جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے
یہ خطبہ حمدو ثنائے پرودگار۔خلقت عالم۔ تخلیق ملائکہ انتخاب انبیا بعثت سرکار دوعالم، عظمت قرآن اور مختلف احکام شرعیہ پرمشتمل ہے۔ ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدحت تک بولنے والوں کے تکلم کی رسائی نہیں ہے اوراس کی نعمتوں کوگننے والے شمار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے حق کو کوشش کرنے والے بھی ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ نہ ہمتوں کی بلندیوں اس کا ادراک کرسکتی ہیں اور نہ ذہانتوں کی گہرائیوں اس کی تہ تک جا سکتی ہیں۔ اس کی فت ذات کے لئے نہ کوئی معین حد ہے نہ توصیفی کلمات۔نہ مقررہ وقت ہے اور نہ آخری مدت۔اس نے تمام مخلوقات کو صرف اپنی قدرت کا ملہ سے پیدا کیا ہے اور پھر اپنی رحمت ہی سے ہوائیں چلائی ہیں او ر زمین کی حرکت کو پہاڑوں کی میخوں سے سنبھال کر رکھا ہے۔
دین کی ابتداء اس کی معرفت سے ہے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ہے۔تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد بر ذات صفات کی نفی ہے‘ کہ صفت کا مفہوم خود ہی گواہ ہے کہ وہ موصوف سے الگ کوئی شے ہے اورموصوف کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ صفت سے جدا گانہ کوئی ذات ہے۔اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے معرفت نہیں ہے اور جو بے معرفت ہوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کیطرف اشارہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا اورجس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا( جو سراسر خلاف توحید ذات ہے)
جس نے یہ سوال اٹھایاکہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دے دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس کے اوپر قائم ہے اسنے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا۔ اس کی ہستی حادث نہیں ہے اور اس کا وجودعدم کی تاریکیوں سے نہیں نکلا ہے ۔وہ ہر شے کے ساتھ ہے لیکن مل کرنہیں ‘ اور ہر شے سے الگ ہے لیکن جدائی کی بنیادپر نہیں۔ وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نہیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نہیں تھا۔وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ہے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھو کر پریشان ہو جانے کا احسان کرے۔
اس نے مخلوقات کو از غیب ایجاد کیا اور ان کی تخلیق کی ابدا کی بغیر کسی فکر کی جو لانی کے اور بغیر کسی تجربہ سے فائدہ اٹھائے ہوئے یا حرکت کی ایجاد کئے ہوئے یا نفس کے افکار کی الجھن میں پڑے ہوئے ۔
تما م اشیاء کو ان کے اوقات کے حوالے کردیا اور پھر ان کے اختلاف میں تناسب پیدا کردیا سب کی طبیعتیں مقرر کردیں اور پھر انہیں شکلیں عطا کردیں۔اسے یہ تمام باتیں ایجاد کے پہلے سے معلوم تھیں اور وہ ان کے حدود اور ان کی انتہا کو خوب جانتا تھا۔اسے ہرشے کے ذاتی اطراف کا بھی علم تھا اوراس کے ساتھ شامل ہو جانے والی اشیاء کا بھی علم تھا۔
اس کے بعد اس نے فضا کی وسعتیں۔اس کے اطراف واکناف اورہواؤں کے طبقات ایجاد کئے اور ان کے درمیان وہ پانی بہا دیا جس کی لہروں میں تلاطم تھا اور جس کی موجیں تہ بہ تہ تھیں اور اسے ایک تیز و تند ہوا کے کاندھے پر لا د دیا اور پھر ہوا کو الٹنے پلٹنے اور روک کر رکھنے کا حکم دے دیا اور اس کی حدوں کو پانی کی حدوں سے یوں ملا دیا کے نیچے ہوا کی وستعیں تھیں اور اوپر پانی کا طلاطم۔
اس کے بعد ایک اور ہوا ایجاد کی جس کی حرکت میں کوئی تولیدی صلاحیت نہیں تھی اور اسے مرکز پر روک کراس کے جھونکوں کو تیز کردیا اور اس کے میدان کو وسیع تر بنادیا اور پھراسے حکم دیدیا کہ اس بحر زخار کو متھ ڈالے اور موجوں کو الٹ پلٹ کردے۔چنانچہ اس نے سارے پانی کو ایک مشکیزہ کی طف متھ ڈالا اوراسے فضائے بسیط میں اس طرح لے کرچلی کہ اول کو آخر پر الٹ دیا اور ساکن کو متحرک پر پلٹ دیا اور اسکے نتیجہ میں پانی کی ایک سطح بلند ہوگئی اور اس کے اوپر ایک جھاگ کی تہہ بن گئی۔پھر اس جھاگ کو پھیلی ہوئی ہوا اور کھلی ہوئی فضا میں بلند کردیا اوراس سے سات آسمان پیدا کردئیے جس کی نچلی سطح ایک ٹھہری ہوئی موج کی طرح تھی اور اوپر کا حصہ ایک محفوظ سقف اوربلند عمارت کے مانند تھا۔نہ اس کا کوئی ستون تھا جو سہارا دے سکے اور نہ کوئی بندھن تھا جو منظم کر سکے ۔
پھر ان آسمانوں کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ان میں تا بندہ نجوم کی روشنی پھیلادی اور ان کے درمیان ایک ضوفگن چراغ اور ایک روشن ماہتاب رواں کردیا جس کی حرکت ایک گھومنے والے فلک اور ایک متحرک چھت اور جنبش کرنے والی تختی میں تھی۔
پھر اس نے بلند ترین آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور انہیں طرح طرح کے فرشتوں (۱)سے بھر دیا جن میں سے بعض سجدہ میں ہیں تو رکوع کی نوبت نہیں آتی ہے اور بعض رکوع میں ہیں تو سر نہیں اٹھاتے ہیں اور بعض صف باندھے ہوئے ہیں تو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے ہیں بعض مشغول تسبیح ہیں تو خستہ حال نہیں ہوتے ہیں سب کے سب وہ ہیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اورنہ عقلوں پر سہوو نسیان کا۔ نہ بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔
ان میں سے بعض کو وحی کا امین اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ہے جو اس کے فصیلوں اور احکام کو برابر لاتے رہتے ہیں اور کچھ اس کے بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ہیں اور بعض وہ بھی ہیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ہیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہرنکلی ہوئی ہیں۔ان کے اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ہیں اور ان کے کاندھے پایہ ہائے عرش کے اٹھانے کے قابل ہیں۔ان کی نگاہیں عرش الٰہی کے سامنے جھکی ہوئی ہیں اوروہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ان کے اور دیر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ہیں۔وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصر بھی نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات کو جاری کرتے ہیں۔وہ نہ اسے مکان میں محود کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف اشباہ ونظائر سے اشارہ کرتے ہیں۔(۲)تخلیق جناب آدم کی کیفیت
اس کے بعد پروردگار ۱نے زمین کے سخت و نرم اور شورو شیریں حصوں سے خاک کو جمع کیا اور اسے پانی سے اس قدر بھگویا کہ بالکل خالص ہوگئی اور پھر تری میں اس قدر گوندھا کہ لسدار بن گئی اور اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ بھی تھے اور جوڑ بھی۔اعضاء بھی تھے اور جوڑ بند بھی۔پھر اسے اس قدر سکھایا کہ مضبوط ہوگئی اور اس قدر سخت کیا کہ کنکھنانے لگی اور یہ صورت حال ایک وقت معین اور مدت خاص تک برقرار رہی جس کے بعد اس میں مالک نے اپنی روح کمال پھونک دی اور اسے ایسا انسان بنادیا جس میں ذہن کی جولانیاں بھی تھیں اورف کر کے تصرفات بھی۔کام کرنے والے اعضاء و جوارح بھی تھے اور حرکت کرنے والے ادوات و آلات بھی حق و باطل میں فرق کرنے والی معرفت بھی تھی اورمختلف ذائقوں ‘ خوشبووں‘ رنگ و روغن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اسے مختلف قسم کی مٹی سے بنایا گیا جس میں موافق اجزاء بھی پائے جاتے تھے اورمتضاد و عناصربھی اور گرمی ‘ سردی‘ تری خشکی جیسے کیفیات بھی۔
پھر پروردگار نے ملائکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی امانت کو واپس کریں اور اس کی معہودہ وصیت پرعمل کریں یعنی اس مخلوق کے سامنے سر جھکادیں اور اس کی کرامت کا اقرار کرلیں۔چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور سب نے سجدہ بھی کرلیا سوائے ابلیس کے کہ اسے تعصب نے گھیر(۳) لیااور بد بختی غالب آگئی اور اس نے آگ کی خلقت کو وجہ عزت اور خاک کی خلقت کو وجہ ذلت قراردے دیا۔مگر پروردگار نے اسے غضب الٰہی کے مکمل استحقاق ،آزمائش کی تکمیل اور اپے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے یہ کہہ کر مہلت دے دی کہ” تجھے روز وقت معلوم تک کے لئے مہلت دی جا رہی ہے“۔
اس کے بعد پروردگار نے آدم کو ایک ایسے گھر(۴)میں ساک کردیا جہاں کی زندگی خوش گوار اور مامون و محفوظ تھی اور پھر انہیں ابلیس اور اس کی عداوت سے بھی با خبر کردیا۔لیکن دشمن نے ان کے جنت کے قیام اورنیک بندوں کی رفاقت سے جل کر انہیں دھوکہدے دیا اور انہو ں نے بھی اپنے یقین محکم کو شک اور عزم مستحکم کو کمزوری کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس طرح مسرت کے بدلے خوف کو لے لیا اورابلیس کے کہنے میں آکر ندامت کا سامان فراہم کرلیا۔پھر پروردگار نے ان کے لئے توبہ کا سامان فراہم کردیا اور اپنے کلمات رحمت کی تلقن کردی اور ان سے جنت میں واپسی کاوعدہ کرکے انہیں آزمائش کی دنیامیں اتار دیا جہاں نسلوں کا سلسلہ قائم ہونے والا تھا۔
انبیاء کرام کا انتخاب
اس کے بعد اس نے ان کی اولاد میں سے ان انبیاء کا انتخاب کیا جن سے وحی کی حفاظت اور پیغام کی تبلیغ کی امانت کا عہد (۵) لیا اس لئے کہ آخری مخلوقات نے عہد الٰہی کو تبدیل کر دیا تھا۔اس کے حق سے نا واقف ہوگئے تھے۔اس کے ساتھ دوسرے خدا بنالئے تھے اور شیطان نے انہیں معرفت کی راہ سے ہٹا کر عبادت سے یکسر جدا کردیا تھا۔
پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کویاد دلائیں تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کوب اہرلائیں اور انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں۔یہ سروں پر بلند ترین چھت۔یہ زیر قدم گہوارہ۔یہ زندگی کے اسباب۔یہ فنا کرنے والی اجل۔یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض اور یہ پے پر دپے پیشآنے والے حادثات۔
اس نے کبھی اپنی مخلوقات کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ایسے رسول بھیجے ہیں جنہیں نہ عدد کی قلت کام سے روک سکتی تھی اورنہ جھٹلانے والوں کی کثرت۔ان میں جو پہلے تھا اس بعد والے کا حال معلوم تھا اور جو بعد میں آیا اسے پہلے والے نے پہنچوادیا تھا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں اور زمانے بیتتے رہے۔آباء و اجداد جاتے رہے اور اولاد و احفاد آتے رہے۔(۶)
بعثت رسول اکرم
یہاں تک کہ مالک نے اپنے وعدہ کو پورا کرنے اور اپنے نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب‘منتشر خواہشات اورمختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔کوئی اس کے ناموں کوبگاڑ رہا تھا۔اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اورجہالت سے باہر نکال لیا۔
اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔آپ کو مصائب سے نجات دلادی اور نہایت احترام سے اپنی بارگاہ میں طلب کرلیا اور امت میں ویسا ہی انتظام کردیا جیسا کہ دیگر انبیاء نے کیا تھا کہ انہوں نے بھی قوم کو لاوارث نہیں چھوڑا تھا جس کے لئے کوئی واضح راستہ اورمستحکم نشان نہ ہو۔
قرآن اور احکام شرعیہ
انہوں نے تمہارے درمیان تمہارے پروردگار کی کتاب کو چھوڑا ہے جس کے حلال و(۸) حرام۔ فرائض و فضائل ناسخ و منسوخ۔رخصت و عزیمت۔خاص و عام۔عبرت و امثال ۔مطلق و مقید۔محکم و متشابہ سب کو واضح کردیا تھا۔مجمل کی تفسیر کردی تھی ۔مجمل کی تفسیرکردی تھی گتھیوں کو سلجھا دیاتھا۔
اس میں بعض آیات ہیں جن کے علم کا عہد لیا گیا ہے اور بعض سے نا واقفیت کومعاف کردیا گیا ہے۔بعض احکام کے فرض کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اور سنت سے ان کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوا ہے یا سنت میں ان کے وجوب کا ذکرہوا ہے جب کہ کتاب میں ترک کرنے کی آزادی کا ذکرتھا۔بعض احکام ایک وقت میں واجب ہوئے ہیں اور مستقبل میں ختم کردئیے گئے ہیں۔اس کے محرمات میں بعض پر جہنم کی سزا سنائیگئی ہے اور بعض گناہ صغیرہ ہیں جن کی بخشش کی امید دلائی گئی ہے۔بعض احکام ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے۔
ذکر حج بیت اللہ :
پروردگار نے تم لوگوں پر حج بیت الحرام کو واجب قرار دیا ہے جس ے لوگوں کے لئے قبلہ بنایا ہے اور جہاں لوگ پیاسے جانوروں کی طرح بے تابانہ وارد ہوتے ہیں(۹) اورویسا انس رکھتے ہیں جیسے کبوتر اپنے آشیانہ سے رکھتا ہے۔ج بییت اللہ کو مالک نے اپنی عظمت کے سامنے جھکنے کی علامت اور اپنی عزت کے ایقان کی نشانی قراردیا ہے۔اس نے مخلوقات میں سے ان بندوں کا انتخاب کیا ہے جواس کیآواز سن کرلبیک کہتے ہیں اوراس کے کلمات کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے انبایء کے مواقف ہیں وقوف کیا ہے اور طواف عرش کرنے والے فرشتوں کا انداز اختیار کیا ہے۔یہ لوگ اپنی عبادت کے معاملہ میں برابر فائدے حاصل کر رہے ہیں اورمغفرت کی وعدہ گاہ کی طف تیزی سے سبقت کر رہے ہیں۔
پروردگار نے کعبہ کو اسلام کی نشانی اور بے پناہ افراد کی پناہ گاہ قرار دیا ہے۔اس کے حج کو فرض کیا ہے اور اس کے حق کو واجب قرار دیا ہے۔تمہارے اوپر اس گھر کی حاضری کو لکھ دیا ہے اور صاف اعلان کردیا ہے کہ” اللہ کے لئے لوگوں کی ذمہ داری ہیکہ اس کے گھر کا حج کریں جس کے پاس بھی اس راہ کو طے کرنے کی استطاعت پائی جاتی ہو۔
Post a Comment