کيا امام حسين نے شہادت کيلئے قيام فرماياتھا



ب:کيا امام حسين نے شہادت کيلئے قيام فرماياتھا؟

قرآن واہل بيت کي تعليمات ميں ان باتوں کي کوئي سند و اعتبار نہيں ہے کہ ’’جاو اور بغير کسي وجہ کے شہيد ہوجاؤ‘‘؛ اسلامي تعليمات ميں ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي!
ہم شريعت مقدس اور قرآن وروايات ميں جس شہادت کا ذکر پاتے ہيں اُس کا معني يہ ہے کہ انسان ايک واجب يا راجح (عقلي) مقدس ہدف کے حصول کي راہ ميں جدوجہد کرے اور اُس راہ ميں قتل کيا جائے؛ يہ ہے صحيح اسلامي شہادت۔ ليکن اگر انسان صرف اس ليے قدم اٹھائے کہ ميں جاوں اور بغير کسي وجہ کے قتل ہوجاوں يا شاعرانہ اور اديبانہ تعبير کے مطابق ميرے خون کا سيلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نيست و نابود ہوجائے! يہ تمام چيزيں ، واقعہ کربلا کے عظيم واقعہ سے کسي بھي طرح ميل نہيں کھاتيں۔ صحيح ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے کہ امام حسين کي شہادت نے يہ کام انجام ديا ليکن سيد الشہدا کا مقصد يہ نہيں تھا۔
المختصر يہ کہ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ سيد الشہدا نے تشکيل حکومت کيلئے قيام کيا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہي ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ سيد الشہدا نے شہيد ہونے کيلئے قيام کيا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئي اور چيز تھي کہ جسے آپ کي خدمت ميں بيان کرنا چا ہتا ہوں۔

حکومت و شہادت دونتيجے تھے نہ کہ ہدف!

ميں تحقيق و مطالعہ سے اِس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہيں کہ امام حسين کا ہدف حکومت يا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتيجے کو آپس ميں ملا ديا ہے، اِن ميں سے کوئي ايک بھي سيد الشہدا کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک دوسري ہي چيز سيد الشہدا کا ہدف تھي۔ پس فرق يہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کيلئے ايک ايسي تحريک و جدوجہد کي ضرورت تھي کہ جس کا اِن دو ميں سے ايک نتيجہ نکلنا تھا، يا حکومت ملتي يا شہادت۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ سيد الشہدا دونوں نتيجوں کيلئے پہلے سے آمادہ اور تيار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کي تشکيل اور شہادت کيلئے مقدمات کو تيار کرليا تھا اور دونوں کيلئے پہلے سے خود کو آمادہ کيا ہوا تھا؛ دونوں ميں سے جو بھي نتيجہ سامنے آتا وہ اُن کي منصوبہ بندي کے مطابق صحيح ہوتا ليکن حکومت و شہادت ميں سے کوئي ايک بھي اُن کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک تيسري ہي چيز اُن کا ہدف تھي۔ ہدف، ايسے عظيم واجب کو انجام دينا تھا کہ جس پر ابھي تک عمل نہيں کيا گيا تھا!
سيد الشہدا کا ہدف کيا تھا؟ پہلے اس ہدف کو مختصراً ايک جملے ميں ذکر کروں گا اور اِس کے بعد اِس کي مختصر سي وضاحت کروں گا۔
اگر ہم امام حسين کے ہدف کو بيان کرنا چاہتے ہيں تو ہميں اِس طرح کہنا چاہيے کہ اُن کا ہدف واجبات دين ميں سے ايک عظيم ترين واجب کو انجام دينے سے عبارت تھا کہ جس کو سيد الشہدا سے قبل کسي ايک نے ، حتي خود پيغمبر اکرم (ص) ، امير المومنين اور امام حسن مجتبيٰ نے بھي انجام نہيں ديا تھا۔
وہ ايسا واجب تھا کہ جو اسلام کے عملي اور فکري نظام ميں بہت زيادہ اہميت کا حامل ہے؛ يہ واجب بہت زيادہ قابل اہميت اوربنيادي حيثيت کا حامل تھا ليکن اِس کے باوجود اُس پر عمل نہيں ہوا تھا ۔ ميں آگے چل کر يہ عرض کروں گا کہ اِس واجب پر ابھي تک عمل کيوں نہيں ہوا تھا، امام حسين کو اِ س واجب پر عمل کرنا چاہيے تھا تاکہ تاريخ ميں سب کيلئے ايک درس رہ جائے۔ جس طرح پيغمبر اکرم (ص) نے حکومت تشکيل دي تو آپ کا حکومت کو تشکيل دينا پوري تاريخ اسلام ميں سب کيلئے درس بن گيا۔ رسول اللہ (ص)نے فقط احکام جاري نہيں کيے تھے بلکہ پوري ايک حکومت بنائي تھي يا حضرت ختمي مرتبت (ص) نے جہاد في سبيل اللہ انجام ديا تو يہ تا ابد تاريخ بشريت اور تاريخ اسلام کيلئے ايک درس بن گيا۔ اِسي طرح اِس واجب کو بھي امام حسين کے وسيلے سے انجام پانا چاہيے تھا تاکہ پوري تاريخ کے مسلمانوں کيلئے ايک عملي درس بن سکے۔

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget