کیا عقیدہِ امامت، عقیدہِ ختمِ نبوت کی نفی کرتا ہے؟
ہمارے مخالفین ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ دائرہِ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں کیونکہ وہ عقیدہِ ختمِ نبوت پر یقین نہیں رکھتے ہیں (عقیدہِ امامت کے نام پر) اور یہ عقیدہِ ختمِ نبوت کے ایسے ہی منکر ہیں جیسے کہ قادیانی منکر ہیں۔
ان کا الزام ہے کہ یہ کیسے رسول اللہ (ص) کی ختمِ نبوت پر یقین رکھ سکتے ہیں جبکہ ان کا مولا علی (ع) کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ:
- مولا علی (ع) کو اللہ نے خود رسول (ص) کے بعد منتخب کیا ہے۔
- اور یہ کہ مولا علی (ع) کی اطاعت ایسے ہی فرض ہے جیسے کہ رسول (ص) کی اطاعت فرض تھی۔
- اور اللہ کا یہ منتخب کردہ خلیفہ/امام اس بات سے معصوم ہے کہ وہ کوئی غلطی کرے (جیسا کہ انبیاء (ع) ہر قسم کی لغزشوں سے پاک ہیں)۔
- اور یہ کہ امت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود سے کسی خلیفہ کا انتخاب کرے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اس بات کو بنیاد بنا کر ہمارے مخالفین ہم پر یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ شیعہ عقیدہِ ختمِ نبوت پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور انہوں نے سلسلہِ نبوت کو امامت کے نام پر جاری کر رکھا ہے، اور اسی لیے یہ دائرہِ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں (المسوی شرح موطاء، ج 2، ص 110، دہلی):
"یا کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خاتم الانبیاء ہیں لیکن اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا، لیکن نبوت کا معنی، یعنی ایک انسان کا منجانب اللہ مخلوق کی طرف مبعوث ہونا اور واجب الاطاعت گناہوں سے معصوم اور بقا علی الخطا سۓ محفوظ ہونا۔ آپ کے بعد آئمہ میں موجود تھا تو ایسا شخص زندیق ہے۔
نیز تفہیماتِ الہیہ، ص 244 میں بھی شاہ ولی اللہ عقیدہ امامت کو ختمِ نبوت کے خلاف قرار دیا ہے:
"لیکن ان شیعہ کی اصطلاح میں وہ امام مفترض الاطاعت ہے اور مخلوق کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے اور وحی باطنی امام کے لیے جائز کہتے ہیں۔ پس یہ درحقیقت ختمِ نبوت کے منکر ہیں، اگرچہ کہ زبان سے آنحضرت ص کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں۔
محترم برادران!
ان مخالفین کے الزامات کے برعکس، اللہ کے منتخب کردہ خلفاء/آئمہ کا عقیدہ اسلام کے عین مطابق ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ہمارے مخالفین بھی اس عقیدے کو مانتے ہیں (اگرچہ کہ کبھی اپنی عقلوں کو سوچنے کی زحمت نہیں دیتے)
اور اللہ کے خود منتخب کردہ خلفاء/آئمہ کے عقیدے کے برخلاف، امت کے انتخاب کردہ خلیفہ کا عقیدہ بذاتِ خود ایک بدعتی عقیدہ ہے، جس کا کوئی سراغ اسلام میں نہیں ملتا ہے۔
آئیے ان دو عقیدوں پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔
اللہ کے خود منتخب کردہ امام کا عقیدہ عین مطابقِ اسلام ہے اور ہرگز عقیدہِ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ہمارے مخالفین ایک طریقے سے یا دوسرے طریقے سے خود اللہ کے منتخب کردہ امام کے عقیدے پر یقین رکھتے ہیں (اگرچہ کہ اپنی عقلوں کو استعمال نہیں کرتے ہیں)۔ اور ایسا کرتے ہوئے انہیں یہ عقیدہِ ختمِ نبوت کے خلاف نظر نہیں آتا۔
مثال کے طور پر، کیا آپ کو پتا ہے کہ ہمارے یہ مخالفین امام مہدی (علیہ صلوة و سلام) کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ:
- امام مہدی (ع) کو اللہ نے خود امت کی امامت کے لیے منتخب کیا ہے (یعنی کہ وہ امت کے امام، امت کے ووٹوں سے نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ روزِ سقیفہ ووٹوں کا یہ ڈرامہ کھیلا گیا تھا)
- اور امام مہدی (ع) کی اطاعت ایسے ہی فرض ہو گی جیسا کہ رسول (ص) کی اطاعت فرض تھی۔
- اور یہ کہ امام مہدی (ع) اس بات سے معصوم ہوں گے کہ امت کی امامت میں کوئی غلطی کریں۔ اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ امام مہدی (ع) اس دنیا کو عدل اور امن سے بھر دیں گے۔
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
اگر اس دنیا کا وقتِ آخر آ بھی چکا ہو گا اور (قیامت میں) ایک دن ہی باقی رہ گیا ہو گا، تو اللہ اس دن کو اتنا طُول عطا کر دے گا کہ ایک شخص کی بادشاہت قائم ہو گی، جس کا تعلق ہم اہلِ بیت سے ہو گا اور جس کا نام میرے نام پر ہو گا۔ وہ شخص اس دنیا کو امن اور انصاف سے ایسے ہی بھر دے گا جیسا کہ یہ دنیا اُس وقت ناانصافی اور ظلمت سے بھری ہوئی ہو گی۔"سنی حوالے:صحیح ترمذی، ج 2، ص 86سنن ابو داؤد، ج 2، ص 7مسند احمد بن حنبل، ج 1، ص 84فتح الباری، ابن الحجر العسقلانی، ج 7، ص 305
اور امام اہلسنت علامہ سیوطی نے یہ روایت نقل کی ہے:۔
عن شهر بن حوشب رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : في المحرم ينادي من السماء : ألا إن صفوة اﷲ فلان، فاسمعوا له وأطيعوا، في سنة الصوت والمعمة.i. نعيم بن حماد، الفتن، 1 : 226، رقم : 630ii. نعيم بن حماد، الفتن، 1 : 338، رقم : 980iii. سيوطي، الحاوي للفتاوی، 2 : 76حضرت شہر بن حوشب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’محرم (کے مہینے) میں آواز دینے والا آسمان سے آواز دے گا۔ خبردار (آگاہ ہوجاؤ) بیشک فلاں بندہ اللہ رب العزت کا چنا ہوا (منتخب کردہ) شخص ہے۔ پس تم ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔2. عن جابر بن عبداﷲ رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من کذب بالدجال فقد کفر، ومن کذب بالمهدي فقد کفر.سيوطي، الحاوي للفتاوي، 2 : 73حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے دجال (کے آنے) کا انکار کیا یقیناً اس نے کفر (کا ارتکاب) کیا۔ اور جس نے (امام) مہدی (کے تشریف لانے) کا انکار کیا یقیناً اس نے (بھی) کفر کیا۔3. عن ابن عمررضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : يخرج المهدي و علي رأسه عمامة، فيأتي مناد ينادي : هذا المهدي خليفة اﷲ فاتبعوه.i. سيوطي، الحاوي للفتاوي، 2 : 61ii. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 71، رقم : 937iii. ديلمي، الفردوس، 5 : 510، رقم : 8920حضرت عبداللہ بن عمر رضي اﷲ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (امام) مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے سر پر عمامہ ہوگا۔ پس ایک منادی یہ آواز بلند کرتے ہوئے آئے گا کہ یہ مہدی ہیں جو اللہ کے خلیفہ ہیں۔ سو تم ان کی اتباع و پیروی کرو۔
اللہ کے اس منتخب کردہ امام کے مقابلے میں یہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ انسان کا منتخب کردہ امام بھی ہر قسم کی غلطی سے پاک رہتا ہے کہ نہیں۔
اگر انسانوں کے منتخب کردہ امام کو دیکھنا ہے تو جنابِ عائشہ کو دیکھا جائے، جنہوں نے امت کی امامت میں وہ فاش غلطیاں کی کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے ہاتھوں بہہ گیا۔
ابو بکرہ روایت کرتے ہیں:
جنگِ جمل کے دوران میں اللہ نے مجھے اپنے الفاظ کی رحمت سے نوازا (جو کہ میں نے رسول (ص) سے سنے تھے)۔ جب رسول (ص) نے سنا کہ اہلِ فارس نے خسرو کی بیٹی کو اپنی ملکہ منتخب کر لیا ہے تو آپ (ص) نے فرمایا: " وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جس نے ایک عورت کو اپنا امام مقرر کر لیا ہو۔"(صحیح بخاری، ج 9، کتاب 88، حدیث 219)
اور سینکڑوں ستاروں کی مانندصحابہ ایک عورت کو امام مقرر کر کے اس کی سربراہی میں عادل امام کے خلاف علمِ بغاوت بلنر کرتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔
اور اسی طرح انسانوں کے منتخب کردہ اماموں کو دیکھئیے جیسا کہ معاویہ اور یزیر تھے۔ ان فاسق اماموں نے اس دنیا کو ناانصافی اور ظلم سے بھر کر رکھ دیا۔ پس اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ انسانوں کا منتخب کردہ امام صحیح راستے پر چلائے گا یا غلطی کرے گا (چاہے اُسے فاش غلطی کا نام دیا جائے یا اجتہادی غلطی)
مختصراً یہ کہ ہم مولا علی (ع) کی امامت پر کم و بیش اسی طرح سے ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے مخالفین امام مہدی (ع) کی امامت میں یقین رکھتے ہیں۔
جنابِ ابو بکر کی خلافت میں اختلاف تھا۔ جناب سعد بن عبادہ نے کبھی ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی (سعد بن عبادہ انصار کے لیڈر تھے)۔ مولا علی (ع) اور بنی ہاشم نے بھی بخاری کی روایت کے مطابق 6 مہینے تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی (جبکہ ہمارے نزدیک آپ (ع) نے کبھی بھی ابو بکر کی بیعت نہیں کی)۔
اور جنابِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا تو انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ (ع) شیخین سے انتہائی سخت ناراض تھیں، مرتے دم تک آپ نے اُن سے کلام نہیں فرمایا اور نہ ہی انہیں اپنے جنازے میں شریک ہونے دیا اور نہ ہی آپ (ع) نے بھی کبھی ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔
مگر ہمارے مخالفین یہ بتائیں کہ کیا ان کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی امام مہدی (ع) کی بیعت سے انکار کریں؟
یہ ہمارے مخالفین کے لیے چیلنج ہے کہ ثابت کریں کہ امام مہدی (ع) کی بیعت سے انکار کرنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو گا۔
طالوت (ایک غیر نبی) کا اللہ کی طرف سے امت کا امام مقرر کیا جانا
اللہ کے منتخب کردہ امام کا عقیدہ عین اسلام کے مطابق ہے جبکہ انسان کے بنائے ہوئے خلیفہ کا عقیدہ اس کے مقابلے میں بدعت و ضلالت ہے۔
سورہ بقرہ کی ان آیات کو ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ کس طرح خود امت کا امام مقرر کرتا ہے
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُواْ قَالُواْ وَمَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَآئِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْاْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ {246}کیا تم نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کونہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راہِ خدا میں جہاد کریں. نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہاد واجب ہوجائے توتم جہاد نہ کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیوں کر جہاد نہ کریں گے جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بّچوں سے الگ نکال باہر کردیا گیا ہے. اس کے بعد جب جہاد واجب کردیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور اللہ ظالمین کو خوب جانتا ہےوَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ {247}ان کے پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں. نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہےاور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی
یہ ہے قرانی عقیدہ امامت کہ نبی کے ہوتے ہوئے ایک غیر نبی کو بھی بطور امام اللہ ہی منتخب کر رہا ہے، اور امت کے شور و غوغا کے باوجود انہیں اپنے امام کے چننے کا حق نہیں۔
اور اللہ تعالی نے طالوت کو امام مقرر کرنے کی وجہ بیان کی ہے کہ "۔۔۔ اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے ۔۔۔"۔
تو کون ہے جو "مدینۃ العلم" علی سے علم میں بڑھ کر تھا؟ دسیوں مختلف روایات ہیں جہاں جناب عمر نے مشکل میں پڑ کر جب بے بس پڑے تھے تو علی آ کر مشکل کو حل کرتے ہیں۔ اور جناب عمر ہر ہر مرتبہ گواہی دیتے ہیں کہ "اے ابو الحسن (علی) اگر آپ نے ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا"۔
اور کون ہے جو "فاتح خیبر" ہے؟ کون ہے جو بدر و حنین کا ہیرو ہے؟ وہ کونسا واحد اور اکیلا شخص ہے جس کی شجاعت کی خصوصیات خون لسان نبوت ان الفاظ میں بیان کرتی ہے "۔۔۔ وہ جو بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والا ہے، وہ جو غیر فرار ہے، اور اللہ خود اسکے اسلام کو فتح دلوائے گا"؟ تو کون ہے وہ مائی کا لعل جسکی شجاعت کی لسانِ نبوت نے یوں تعریف کی ہو؟
(اگلی آیت)
وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ {248}"اور ان کے پیغمبر علیہ السلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میںپروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسیٰ علیہ السلام اور آل ہارون علیہ السلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے قدرتِ پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو"فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُواْ مِنْهُ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ قَالُواْ لاَ طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُو اللّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ {249}اس کے بعد جب طالوت علیہ السلام لشکر لے کرچلے تو انہوں نے کہا کہ اب خدا ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے جو اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا اور جو نہ چکھے گا وہ مجھ سے ہوگا مگر یہ کہ ایک چلّو پانی لے لے. نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پانی پی لیا سوائے چند افراد کے---- پھر جب وہ صاحبانِ ایمان کو لے کر آگے بڑھے لوگوں نے کہا کہ آج تو جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی ہمت نہیں ہے اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
یہ ہے اللہ کا منتخب کردہ امام جس پر غیر نبی ہوتے ہوئے بھی اللہ وحی یا الہام یا فرشتے نازل فرما رہا ہے۔ اور اسی وحی یا الہام یا فرشتوں کے ذریعے طالوت علیہ السلام کو خبر ہوتی ہے کہ نہر کا پانی امت کے لیے امتحان ہے، اور وہ اس امتحان کی خبر آگے امت کو دیتے ہیں۔
تو اب اگر اللہ کے منتخب کردہ ائمہ پر وحی نازل ہونے کا عقیدہ رکھنا عقیدہ ختم نبوت کی نفی ہے تو اب ہمارے مخالفین لگائیں سب سے پہلے اللہ پر ختم نبوت کے انکار کا فتویٰٰ، جو قران میں خود اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔
وَلَمَّا بَرَزُواْ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُواْ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ {250}اور یہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا کہ خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرمافَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاء وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ {251}نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دے دی اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاہا دے دیا اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی گواہی کہ اس امت کے کچھ لوگوں کا رتبہ انبیاء سے بھی بلند ہو گا
اور یہ وہ روایت ہے جو ان مخالفین کے دعوؤں کا مکمل قلع قمع کر کے پاش پاش کر رہی ہے، اور اسی لیے یہ لوگ اس روایت کو چھپاتے پھرتے ہیں۔
حدثنا زهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالا حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، أن عمر بن الخطاب، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن من عباد الله لأناسا ما هم بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الأنبياء والشهداء يوم القيامة بمكانهم من الله تعالى " . قالوا يا رسول الله تخبرنا من هم . قال " هم قوم تحابوا بروح الله على غير أرحام بينهم ولا أموال يتعاطونها فوالله إن وجوههم لنور وإنهم على نور لا يخافون إذا خاف الناس ولا يحزنون إذا حزن الناس " . وقرأ هذه الآية { ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون } .
ترجمہ:
عمر ابن الخطاب کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں ایسے بھی ہیں جو انبیاء ہیں اور نہ شہید، مگر اسکے باوجود انبیاء اور شہداء ان پر رشک کرتے ہوں گے کیونکہ انہیں یوم قیامت اللہ کے ہاں وہ مکان و رتبہ حاصل ہو گا (جو انبیاء و شہداء سے بھی بلند ہو گا)۔رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اس پر رسول (ص) نے جواب دیا، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور انہیں مال متاع اور رشتے داری کی کوئی لالچ نہیں۔ انکے چہرے چمکتے ہوں گے نور کے عرشوں پر۔ اور (روز قیامت) انکو کوئی ڈر نہ ہو گا جبکہ دوسرے لوگ کو خوف گھیرے ہو گا۔ پھر رسول اللہ (ص) نے یہ آیت تلاوت فرمائی:"الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم و لاھم یحزنون" (اللہ کے اولیاء پر کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی حزن)۔حوالہ:سنن ابو داؤد (آنلائن لنک)
سعودی مفتی البانی صاحب کہتے ہیں کہ یہ حدیث "صحیح ہے۔
یہی حدیث مسند احمد بن حنبل (جلد 5، حدیث 22984) پر موجود ہے اور شیخ الارنوؤط کہتے ہیں:
صحيح لكن من حديث معاذ بن جبل
یعنی یہ حدیث صحیح ہے اگرچہ یہ حدیث معاذ ابن جبل سے ہے۔
یہی حدیث ایک اور "سند" سے ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے (مسند ابو یعلی، 10/495) اور اسکے حاشیہ پر حسن سلیم اسد صاحب لکھتے ہیں
إسناده صحيح
یعنی اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔
ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور شیخ الارنوؤط کہتے ہیں کہ یہ "صحیح" ہے۔ الہیثمی نے اسکو مجمع الزاوئد میں عمرو بن عبسہ سے نقل کیا ہے اور اسکو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
رواه الطبراني ورجاله موثقون
یعنی طبرانی نے اسے نقل کیا ہے اور اسکے تمام رجال ثقہ ہیں۔
امام الترمذی نے اسکو اپنی کتاب سنن ترمذی میں معاذ بن جبل کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ اس کو نقل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں:
وفي باب عن أبي الدرداء وابن مسعود وعبادة بن الصامت وأبي هريرة وأبي مالك الأشعر
یعنی اس حدیث کو صحابی ابو درداء، صحابی ابن مسعود، صحابی عبادہ ابن صامت، ابو ہریرہ اور ابو مالک اشتر نے بھی روایت کیا ہے۔ ۔۔ (آگے امام ترمذی لکھتے ہیں) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
امام حاکم نے بھی یہ حدیث المستدرک میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
شیخ مبارکپوری اپن کتاب تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں:
وفي الباب عن أبي الدرداء وابن مسعود وعبادة بن الصامت وأبي مالك الأشعري وأبي هريرة أما حديث أبي الدرداء فأخرجه الطبراني بإسناد حسن وأما حديث ابن مسعود فأخرجه الطبراني في الأوسط وأما حديث عبادة بن الصامت فأخرجه أحمد بإسناد صحيح وأما حديث أبي مالك الأشعري فأخرجه أحمد وأبو يعلى بإسناد حسن والحاكم وقال صحيح الاسناد
ترجمہ:
اس حدیث کو ابو درداء، ابن مسعود، عبادہ بن صامت، ابو مالک الاشتر اور ابو ہریرہ نے روایت کیا ہے۔ ابو درداء کی روایت کو طبرانی نے حسن اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابن مسعود کی روایت کو طبرانی نے الاوسط میں نقل کیا ہے۔ عبادہ بن الصامت کی روایت کو احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابو مالک الاشتر کی روایت کو احمد بن حنبل اور ابو یعلی نے حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے جبکہ حاکم کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
چنانچہ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ یہ حدیث رسول کئی طریقوں سے کئی صحابہ سے مروی ہے، چنانچہ یہ بالکل "صحیح" روایت ہے ۔
نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انبیاء علیھم السلام پر ایمان لانا ایمان کا حصہ ہے مگر انکے رتبوں کا مسئلہ ثانوی ہے ۔ مگر یہ مخالفین چاہتے ہیں کہ رسول (ص) کی حدیث کو چھوڑ کر اپنی بدعتی شریعت نافذ کریں جس میں رتبے کی بنا پر دوسروں پر کفر کے فتوے لگاتے پھریں۔ ان حضرات کو انکی خود ساختہ شریعت مبارک ہو جہاں یہ شیعہ دشمنی میں قول رسول کو رد کرتے ہوئے شریعت کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کر رہے ہیں۔
کیا اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ امتِ مسلمہ میں خود اُس کی طرف سےامام مقررہوں گے؟
جی ہاں! امامت کے حوالے سے یہ ایک خالصتاً اسلامی بلکہ واحد اسلامی عقیدہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول (ص) کیا فرما رہے ہیں:
جابر ابن سمورہ روایت کرتے ہیں:"میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے: "تمہارے امیروں (سرداروں) کی تعداد 12 ہو گی۔" پھر آپ (ص) نے کچھ فرمایا جو کہ میں نہ سن سکا۔ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ رسول (ص) نے مزید فرمایا تھا کہ یہ تمام 12 سردار قریش کے قبیلے سے ہوں گے۔"صحیح بخاری، حدیث 9:329، کتاب الاحکام
رسول (ص) نے فرمایا:
"دینِ اسلام روزِ قیامت تک باقی رہے گا، اور تمہارے لیے 12 امیر مقرر کر دیے گئے ہیں جو کہ تمام کے تمام قریش سے ہوں گے"صحیح مسلم، کتاب الامارة، 1980 سعودی ایڈیشن، ج 3، ص 1453، حدیث 10
محترم برادران! آپ نے دیکھا کہ صرف اور صرف انہی 12 اماموں کو امت کا امیر/خلیفہ مقرر کیا ہے۔
تو پھر یہ انسانوں کے مقرر کردہ سینکڑوں خلفاء (جن کا تعلق بنی امیہ، بنی عباس، عثمانی اور فاطمی خلافت سے ہے) کا عقیدہ کہاں سے گھڑ لیا گیا؟
کیا یہ خود سے ایک بہت بڑی بدعت نہیں ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ امیروں کے مقابلے میں ان انسانوں کے بنائے ہوئے امیروں کو خلیفہ مانا جائے؟
اللہ تعالی کی اپنی طرف سے علی ابن ابی طالب کو “ہادی” مقرر کیا گیا
قران پاک میں اللہ فرماتا ہے:
إنما أنت منذر ولكل قوم هاد
(فتح محمد جالندھری) سو (اے محمدﷺ) تم تو صرف ہدایت کرنے والے ہو اور ہر ایک قوم کے لیے رہنما ہوا کرتا ہے
قرآن کی آیات 14:44، 19:39، 35:24، 34:28، 25:21، 6:51، 6:19، 42:52 سے پتا چلتا ہے کہ:
- رسول اللہ (ص) اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے ڈرانے والے اور ہدایت دینے والے دونوں تھے۔
- ڈرانے والے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر زمانے میں موجود رہ کر ڈرائے، مگر ہر زمانے میں ایک رہنما کی ضرورت ہے جو ہر زمانے میں صحیح چیز کی طرف رہنمائی کرے۔
- رسول اللہ (ص) اپنے زمانے کے تو رہنما تھے، مگر آپ (ص) کی وفات کے بعد امت کی رہنمائی کا ذمہ اوروں کا ہے۔
بلند اہلسنت مفسر القرآن ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لسان نبوت سے نکلی یہ تفسیر نقل کرتے ہیں:
حدثنا أحمد بن يحيى الصوفي قال حدثنا الحسن بن الحسين الأنصاري قال حدثنا معاذ بن مسلم بياع الهروي عن عطاء بن السائب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال : لما نزلت : { إنما أنت منذر ولكل قوم هاد } وضع صلى الله عليه وسلم يده على صدره فقال : أنا المنذر { ولكل قوم هاد } وأومأ بيده إلى منكب علي فقال : أنت الهادي يا علي بك يهتدي المهتدون بعدي
ترجمہ:
(بحذف سند) جب یہ آیت نازل ہوئی (میں ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے)، تو رسول اللہ (ص) نے علی ابن ابی طالب کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: "اے علی! آپ اس امت کے ہادی ہیں۔ وہ لوگ جو میرے بعد ہدایت ڈھونڈے گے، وہ آپ کے ذریعے اس ہدایت کو پائیں گے۔” (حوالہ تفسیر طبری، تفسیر آیت 13:07)
اس روایت کی اسناد بالکل ٹھیک ہیں جیسا کہ اہلسنت عالم دین ابن الحجر العسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری میں تحریر فرمایا ہے:
ما أخرجه الطبري بإسناد حسن من طريق سعيد بن جبير عن بن عباس قال لما نزلت هذه الآية وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على صدره وقال أنا المنذر وأومأ إلى على وقال أنت الهادي بك يهتدي المهتدون بعدي
ترجمہ:
جو کچھ ابن جریر طبری نے اسنادِ حسن کے ساتھ سعید ابن جبیر اور انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے، جنہوں نے فرمایا: "جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے اپنے ہاتھ علی ابن ابی طالب کے کندھے پر رکھ کر فرمایا: "اے علی! آپ ہادی ہیں۔ آپ کے ذریعے ہیں میرے بعد ہدایت ڈھونڈنے والے اسے پائیں گے۔”(حوالہ: فتح الباری از ابن حجر العسقلانی)
یاد رہے کہ یہ رسول (ص) نہیں ہیں جو علی ابن ابی طالب کو ہادی مقرر کر رہے ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ ہے جو کہ بذات خود براہ راست علی ابن ابی طالب کو قوم کا “ہادی” مقرر فرما رہا ہے۔ تو اب اگر کسی کو “منکر ختم نبوت” کا فتوی لگانا ہے تو وہ پہلے جا کر اللہ پر لگائے کہ یہ اللہ ہے جس نے اس ہادی کے عہدے کے لیے علی ابن ابی طالب کو براہ راست منتخب کیا ہے۔
اور اہلسنت کے امام حاکم اپنی کتاب المستدرک میں نقل کرتے ہیں:
أخبرنا أبو عمر و عثمان بن أحمد بن السماك ثنا عبد الرحمن بن محمد بن منصور الحارثي ثنا حسين بن حسن الأشقر ثنا منصور بن أبي الأسود عن الأعمش عن المنهال بن عمرو عن عباد بن عبد الله الأسدي عن علي : إنما أنت منذر و لكل قوم هاد قال علي : رسول الله صلى الله عليه و سلم المنذر و انا الهادي
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
ترجمہ:
(بحذف سند) علی ابن ابی طالب نے فرمایا: اس آیت میں (تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوا کرتا ہے) ڈرانے والے رسول اللہ (ص) ہیں جبکہ میں ہادی ہوں۔
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق “صحیح” ہے مگر انہوں نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔
اور امام احمد بن حنبل بھی ذیل کی روایت نقل کر کے اوپر بیان شدہ دو روایات کی تصدیق کرتے ہیں:
حدثنا عبد الله حدثني عثمان بن أبي شيبة ثنا مطلب بن زياد عن السدي عن عبد خير عن علي : في قوله { إنما أنت منذر ولكل قوم هاد } قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم المنذر والهاد رجل من بنى هاشم
إسناده صحيح
ترجمہ:
(بحذفِ سند) علی اس آیت (آپ تو بس ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوا کرتا ہے) کی بابت کہتے ہیں: "اللہ کے رسول (ص) ڈرانے والے ہیں جبکہ ہادی بنو ہاشم کا ایک شخص ہے۔”
شیخ احمد شاکر اس روایت کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ یہ “صحیح” روایت ہے۔
اہلسنت عالم الہیثمی بھی اسی روایت کو اپنی کتاب “مجمع الزوائد” میں نقل کرنے کے بعد اس روایت کو “صحیح” قرار دیتے ہیں۔
مزید اہلسنت روایات:
1 - في قوله { إنما أنت منذر ولكل قوم هاد } قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المنذر والهادي رجل من بني هاشم
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/44
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
2 - عن ابن عباس قال : لما نزلت هذه الآية في قوله { ولكل قوم هاد } وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على صدره وقال : أنا المنذر وأومأ إلى علي وقال : أنت الهادي بك يهتدي المهتدون بعدي
الراوي: سعيد بن جبير المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 8/226
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
3 - عن علي في قوله { إنما أنت منذر ولكل قوم هاد } قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : المنذر والهاد رجل من بني هاشم
الراوي: عبد خير الهمداني المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/227
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
شیعہ عالم دین شیخ ہادی النجفی یہ روایت نقل کرتے ہیں:
الكليني ، عن عدة من أصحابنا ، عن أحمد بن محمد ، عن الحسين بن سعيد ، عن النضر بن سويد ، وفضالة بن أيوب ، عن موسى بن بكر ، عن الفضيل قال : سألت أبا عبد الله ( عليه السلام ) عن قول الله عز وجل : ( ولكل قوم هاد ) ( 2 ) فقال : كل إمام هاد للقرن الذي هو فيهم . الرواية صحيحة الإسناد
ترجمہ:
(بحذف سند) میں نے ابو عبداللہ (امام جعفر الصادق) علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا (اور آپ تو بس ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوتا ہے) تو انہوں نے جواب دیا کہ: "ہر امام اپنے اپنے زمانے کا ہادی ہے۔”
شیخ ہادی النجفی نے اس روایت کو “صحیح” قرار دیا ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ہر امام اپنے اپنے زمانے کا ہادی ہے۔
اہلسنت کتب سے بھی اللہ کی یہ سنت ثابت ہے۔
امام مسلم اپنی “صحیح” میں نقل کرتے ہیں:
ما زال الأمر في قريش ما بقي اثنان
ترجمہ:
اور “امر” کبھی قریش (قبیلہ) سے جدا نہ ہو گا، حتی کہ اگر صرف دو انسان ہی (اس زمین) پر باقی نہ رہ جائیں۔ (حوالہ: صحیح مسلم)
اور امام بخاری نے بھی یہ نقل کیا ہے:
ابن عمر سے روایت ہے:
اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:"یہ امر (خلافت) فقط قریش تک محدود رہے گی، اگرچہ کہ فقط دو انسان ہی کیوں نہ باقی رہ جائیں۔ (حوالہ: صحیح بخاری)
اور سعودیہ کے شیخ البانی لکھتے ہیں:
قريش ولاة الناس في الخير و الشر إلى يوم القيامة
ترجمہ:
قریش انسانوں کے اچھے اور برے وقت میں قیامت تک کے لیے امام ہیں۔
اس روایت پر پھر تبصرہ کرتے ہوئے البانی صاحب نے لکھا ہے “و هذا إسناد صحيح” (حوالہ “سلسلہ الاحادیث الصحیحیہ، جلد 3، صفحہ 145، روایت 1155)
امام بخاری اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:
حدثنا عبدان أخبرنا عبد الله عن يونس عن الزهري أخبرني أبو سملة بن عبد الرحمن انه سمع أبا هريرة رضي الله عنه يقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
ترجمہ:
ابو ہریرہ سے روایت ہے:
اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: "جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے “میرے امیر” کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے “میرے امیر” کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ (حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الاحکام)
لفظ امیر نکلا ہے “امر” سے۔ اللہ کے رسول نے صاف طور پر “میرے امیر” کی بات کی ہے۔ اگر رسول (ص) نے “قریش کا امیر” کہا ہوتا تو یہ اس سے بالکل مختلف ہے کہ کہا جائے “اللہ کے رسول کا امیر”۔
اللہ کے رسول (ص) نے فقط 12 امیر مقرر کیے ہیں۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ نے امت مسلمہ کے فقط 12 امیر براہ راست مقرر کیے ہیں اور ان 12 امیروں کے لیے کوئی سقیفے نہیں سجیں گے اور نہ ہی کوئی ووٹنگ ہو گی۔
امام بخاری روایت نقل کرتے ہیں:
حدثني محمد بن المثنى حدثنا غندر حدثنا شعبة عن عبد الملك سمعت جابر بن سمرة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول يكون اثنا عشر أميرا فقال كلمة لم اسمعها فقال أبي أنه قال كلهم من قريش
ترجمہ:
جابر بن سمورہ سے روایت ہے:
میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا: "اس امت کے 12 امیر ہوں گے۔ پھر آپ (ص) نے کچھ فرمایا جو میں نہ سن سکا۔ میرے والد نے کہا:"یہ سب (12 امیر) قریش سے ہوں گے۔”(حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الاحکام)
سعودیہ کے عالم، شیخ البانی یہ روایت نقل کرتے ہیں:
" يكون من بعدي اثنا عشر أميرا كلهم من قريش " .
أخرجه الترمذي ( 2 / 35 ) و أحمد ( 5 / 90 و 92 و 95 و 99 و 108 ) من طريق سماك ابن حرب قال : سمعت # جابر بن سمرة # قال : فذكره مرفوعا . و قال : " حديث حسن صحيح " . و قد تابعه عبد الملك بن عمير سمعت جابر بن سمرة به . أخرجه البخاري ( 13 / 179 ) و أحمد ( 5 / 93 ) من طريق شعبة عنه . و له طريق أخرى بلفظ : "
يكون بعدي اثنا عشر خليفة كلهم من قريش , ثم رجع إلى منزله فأتته قريش فقالوا : ثم يكون ماذا ? قال : ثم يكون الهرج " .
أخرجه أبو داود ( 2 / 207 ) و أحمد ( 5 / 92 ) عن زهير حدثنا زياد بن خيثمة حدثنا الأسود بن سعيد الهمداني عن جابر بن سمرة . و هذا إسناد حسن رجاله ثقات رجال مسلم غير الأسود هذا و هو صدوق كما في " التقريب " و " الخلاصة " .
ترجمہ:
روایت (میرے بعد بارہ امیر ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہوں گے)، اس روایت کو الترمذی (2/35) نے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل نے (5/90، 92،95،99 اور 108) نے سماک ابن حرب کے حوالے سے نقل کیا ہے۔۔۔ الترمذی کہتے ہیں “یہ روایت حسن صحیح ہے”۔ عبد الملک بن عمیر نے جابر بن سمورہ سے نقل کیا ہے۔ اور بخاری (13/179) اور احمد 5/93) نے اسے شعبہ کے طریقے سے نقل کیا ہے۔
اس روایت کی تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ ایک اور طریق بھی ہے جو یوں ہے:
"میرے بعد 12 خلفاء ہوں گے اور ان تمام کا تعلق قریش سے ہو گا”۔
اسے امام ابو داؤد (2/207) اور امام احمد (5/92) نے نقل کیا ہے ۔۔۔ اسکی سند حسن ہے اور اسکے رواۃ ثقات ہیں اور امام مسلم کے رجال ہیں سوائے الاسود کے، مگر یہ صدوق ہے جیسا کہ التقریب اور الخلاصہ میں تحریر ہے۔(حوالہ: کتاب سلسلہ الاحادیث الصحیحیہ، از البانی، جلد 3، صفحہ 63، حدیث 1075)
اور پھر شیخ البانی یہ روایت نقل کرتے ہیں:
الأئمة من قريش إن لي عليكم حقا ولهم عليكم حقا مثل ذلك
ترجمہ:
(رسول ص نے فرمایا) یہ ائمہ قریش سے ہوں گے۔ اور میرا تم پر حق ہے (کہ تم میری غیر مشروط فرمانبرداری کرو)، اور ان ائمہ کا بھی تم پر یہی حق ہے۔ (حوالہ: شیخ البانی، کتاب صحیح الترغیب و الترحیب، روایت 2188)۔
شیخ البانی اس کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ روایت “صحیح لغیرہ” ہے۔ (یعنی یہ روایت کئی طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور مل کر یہ اسے حسن کے درجے سے بلند کر کے صحیح لغیرہ کے درجے پر لے آتی ہیں)۔
شیخ البانی قریش کے متعلق یہ روایت نقل کرتے ہیں:
قدموا قريشا ولا تقدموها وتعلموا من قريش ولا تعلموها
ترجمہ:
قریش کو اپنے پر تقدم دو اور انہیں اپنے پیچھے نہ کرو۔ اور قریش سے سیکھو، اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرو۔ (حوالہ: صحیح الجامع الصغیر، روایت 4382، از البانی)
البانی اس روایت کے متعلق کہتے ہیں “صحیح”۔
البانی نے یہ روایت بھی نقل کی ہے:
لا تقدموا قريشا فتهلكوا ولا تخلفوا عنها فتضلوا
ترجمہ:
قریش سے کبھی آگے نہ بڑھو ورنہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔ اور ان سے اختلاف نہ کرو، ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ (حوالہ: ظلال الجنۃ 2/464)
یاد رہے کہ ان بارہ ائمہ/خلفاء/امراء کی تعداد قیامت کے دن تک کبھی بھی 12 سے تجاوز نہیں کر سکتی ہے۔
امام احمد بن حنبل یہ روایت نقل کرتے ہیں:
عن مسروق قال: «كنّا جلوساً عند عبد الله بن مسعود وهو يُقرئنا القرآن فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن هل سألتم رسول الله صلى الله عليه وسلّم كم تملك هذه الأمة من خليفة فقال عبد الله بن مسعود ما سألني عنها أحد منذ قدمت العراق قبلك ثم قال: نعم ولقد سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اثنا عشر كعدة نقباء بني إسرائيل»
ترجمہ:
مسروق کہتے ہیں:
ہم عبداللہ ابن مسعود کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں قرآن کی تلاوت سنا رہے تھے۔ پھر ایک شخص نے ان سے پوچھا: "اے عبدالرحمن کے باپ، کیا آپ نے کبھی رسول اللہ (ص) سے پوچھا تھا کہ کتنے خلفاء اس امت پر حکمرانی کریں گے؟ ابن مسعود نے جواب دیا: "جب سے میں عراق آیا ہوں، اُس وقت سے کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا۔ ہاں، ہم نے رسول (ص) سے پوچھا تھا، اور انہوں نے فرمایا تھا: "بارہ، جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارہ نقیب تھے”۔ (حوالہ: مسند احمد بن حنبل)
سلفی شارح، احمد محمد شاکر، نے اس روایت کے حاشیہ میں لکھا ہے: "اسنادہ صحیح”۔
چنانچہ ان بارہ خلفاء کو اللہ نے اپنی طرف سے براہ راست امت پر مقرر فرمایا ہے۔
امام حاکم نے رسول (ص) کی ایک اور روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ان بارہ میں سے پہلے امام جنابِ علی المرتضی تھے:
أخبرنا أبو أحمد محمد بن محمد الشيباني من أصل كتابه ثنا علي بن سعيد بن بشير الرازي بمصر ثنا الحسن ابن حماد الحضرمي ثنا يحيى بن يعلى ثنا بسام الصيرفي عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن معاوية بن ثعلبة عن أبي ذر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع عليا فقد أطاعني ومن عصى عليا فقد عصاني
ترجمہ:
حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: "جس نے اللہ کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے علی کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔(حوالہ: مستدرک الحاکم)
امام حاکم اس روایت پر یہ حکم لگاتےہیں:
یہ روایت بالکل صحیح الاسناد ہے، مگر امام بخاری و مسلم نے اسے نقل نہیں کیا۔
اور امام الذہبی بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، مگر انہوں نے (امام بخاری و مسلم) نے اسے نقل نہیں کیا۔
ان بارہ ائمہ کا اللہ کی طرف سے براہ راست مقرر ہونا ہی سنتی عقیدہ ہے، جبکہ انسانوں کے بنائے ہوئے خلفاء کا عقیدہ باطل بدعتی عقیدہ ہے۔
حدیثِ ثقلین میں اللہ نے براہ راست عترت اہلبیت کو مقرر و منتخب کیا ہے
شافعی اہلسنت کے بہت بڑے امام گذرے ہیں جنکا نام ہے ابن حجر الہیثمی۔ وہ اپنی کتاب صوائق محرقہ میں بیان حدیث ثقلین کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
وفي رواية صحيحة : إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما ، وهما كتاب الله وأهل بيتي عترتي
ترجمہ:
"صحیح” روایات میں (رسول اللہ ص) سے منقول ہے: "میں اپنے پچھے دو امر چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر تم انکی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ اور یہ ہیں اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت میری عترت۔ (حوالہ: صوائق محرقہ، ابن حجر الہیثمی، جلد 2، صفحہ 428، شائع شدہ لبنان)
پھر چیزوں کو مزید واضح کرنے کے لیے رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عترت اہلبیت کے خلفاء ہیں۔ شیخ البانی اس حدیث خلیفتین کو نقل کرتے ہیں (آنلائن لنک):
إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء و الأرض و عترتي أهل بيتي و إنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض
ترجمہ:
میں تمہارے درمیان دو “خلیفے” چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک کتاب اللہ ہے جو کہ رسی ہے جو زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی ہے، اور دوسری میری عترت میری اہلبیت۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر یہ مجھ سے آ ملیں۔ (شیخ البانی اس روایت کو “صحیح” قرار دیتے ہیں۔
اس روایت کو حدیث خلیفتین کہا جاتا ہے۔ مزید تفصیل یہاں پڑھیں۔
سعودی شیخ البانی یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:
ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ أَبِي بَلْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا أَنَّكَ لَسْتَ نَبِيًّا إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي
ترجمہ:
(بحذف سند) جناب رسولِ خدا نے علی ابن ابی طالب سے فرمایا: "تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی، سوائے اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ اور یہ مناسب نہ ہو گا کہ میں یہ بتائے بغیر جدا ہو جاؤں کہ تم میرے بعد تمام مومنین پر خلیفہ ہو۔ (حوالہ:ظلال الجنۃ از البانی، جلد 2، صفحہ 565)۔
شیخ البانی اس روایت کے متعلق کہتے ہیں “اسنادہ حسن”۔
سعودی شیخ البانی ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:
علي إن عليا مني وأنا منه وهو ولي كل مؤمن بعد
ترجمہ:
بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں۔
(حوالہ: کتاب سلسلہ الاحادیث الصحیحیہ، جلد 5، صفحہ 261، روایت 2223، از البانی)
شیخ البانی اس روایت کے متعلق کہتے ہیں “صحیح”۔
اس روایت کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے پڑھیں حدیث الولایۃ۔
چنانچہ اگر اللہ نے براہ راست رسول (ص) کے بعد خلیفہ و امام چنا ہے تو بجائے ہم پر الزام لگانے کے، بہتر ہے کہ یہ لوگ اللہ پر اب منکرِ ختم رسالت کا الزام لگائیں۔
اللہ کے براہ راست منتخب اور مقرر کیے ہوئے ان بارہ خلفاء پر ایمان لانا عین سنت ہے، جبکہ سقیفوں میں بنے انسانوں کے خلفاء کا عقیدہ عین بدعت ہے۔
12 امیروں/خلفاء کی احادیث کے متعلق اہلسنت علماء کیا کہتے ہیں؟
ابن العربی:
ہم نے رسول (ص) کے بعد 12 امراء کی تعداد کو گنا ہے اور ہمارے نزدیک یہ یہ ہیں: ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن، معاویہ، یزید، معاویہ ابن یزید، مروان، ۔۔۔ اس کے بعد بنی عباس کے 20 خلفاء آئے۔اگر ہم ان میں سے صرف 12 کو چنیں، تو ہم صرف سلیمان تک پہنچ پائیں گے۔ اور اگر ہم اس کے ظاہری معنی لیں تو ہمارے پاس ان کی تعداد صرف 5 بنتی ہے۔ اگر ان میں 4 راشد خلفاء کو شامل کر لیا جائے اور عمر ابن عبد العزیز کو بھی۔۔۔۔میں اس حدیث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں۔
[ابن العربی، شرح سنن ترمذی، 9:68]
یاد رہے کہ ان بارہ ائمہ/خلفاء/امراء کی تعداد قیامت کے دن تک کبھی بھی 12 سے تجاوز نہیں کر سکتی ہے۔
امام احمد بن حنبل یہ روایت نقل کرتے ہیں:
عن مسروق قال: «كنّا جلوساً عند عبد الله بن مسعود وهو يُقرئنا القرآن فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن هل سألتم رسول الله صلى الله عليه وسلّم كم تملك هذه الأمة من خليفة فقال عبد الله بن مسعود ما سألني عنها أحد منذ قدمت العراق قبلك ثم قال: نعم ولقد سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اثنا عشر كعدة نقباء بني إسرائيل»
ترجمہ:
مسروق کہتے ہیں:
ہم عبداللہ ابن مسعود کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمیں قرآن کی تلاوت سنا رہے تھے۔ پھر ایک شخص نے ان سے پوچھا: "اے عبدالرحمن کے باپ، کیا آپ نے کبھی رسول اللہ (ص) سے پوچھا تھا کہ کتنے خلفاء اس امت پر حکمرانی کریں گے؟ ابن مسعود نے جواب دیا: "جب سے میں عراق آیا ہوں، اُس وقت سے کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا۔ ہاں، ہم نے رسول (ص) سے پوچھا تھا، اور انہوں نے فرمایا تھا: "بارہ، جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارہ نقیب تھے”۔ (حوالہ: مسند احمد بن حنبل)
سلفی شارح، احمد محمد شاکر، نے اس روایت کے حاشیہ میں لکھا ہے: "اسنادہ صحیح”۔
قاضی عیاض
خلفاء کی تعداد یقیناً اس سے زیادہ تھی اور اس کو صرف 12 تک محدود کر دینا صحیح نہیں ہے۔ رسول (ص) نے یہ نہیں کہا ہے کہ صرف یہ 12 خلفاء ہی ہوں گے اور ان کے بعد مزیر خلفاء آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سو یہ ممکن ہے کہ ان 12 خلفاء کے بعد بھی مزید خلفاء آئیں[النووی، شرح صحیح مسلم، 12:201، ابن الحجر العسقلانی، فتح الباری، 16:33]
تبصرہ:
قاضی عیاض کو جب اپنے ہاں یہ بارہ خلفاء/امیر نہیں ملے تو انہوں نے تو رسول ﷺ کی حدیث کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور ان بارہ کی تعداد کا ہی انکار کر دیا۔ ذیل میں حافظ سیوطی کا فرمان ملاحظہ فرمائیے۔
حافظ جلال الدین السیوطی
روزِ قیامت تک خلفاء کی تعداد صرف 12 ہو گی (حافظ سیوطی نے یہ کہہ کر اوپر دیے گئے قاضی عیاض کے ظن کو بالکل مسترد کر دیا ہے کہ یہ امیر تعداد میں 12 سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں) اور وہ سچائی کے راستے پر چلتے رہیں گے چاہے یہ 12 خلفاء کے آنے کا زمانہ ایک کے بعد ایک نہ بھی ہو۔ہم دیکھتے ہیں کہ ان 12 میں سے 4 تو راشد خلفاء ہیں، پھر حسن ہیں، پھر معاویہ اور ابن زبیر ہیں اور آخر میں عمر ابن عبد العزیز ہیں۔ ان کی تعداد 8 بنتی ہے۔ اسطرح ان میں سے 4 مزید آنا باقی ہیں۔ ان میں سے ایک شاید مہدی (ع) ہوں گے۔ عباسی کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق بنی عباس سے ایسا ہی ہے جیسا کہ عمر ابن عبد العزیز کا تعلق بنی امیہ سے تھا۔ اور ان میں طاہر عباسی کو بھی شامل کیا جائے گا کیونکہ وہ عادل حکمران تھا۔ اس طرح ابھی 2 اور کو آنا ہے۔ ان میں سے ایک تو امام مہدی (ع) ہوں گے کیونکہ ان کا تعلق اہلِ بیت سے ہے۔[السیوطی، تاریخِ خلفاء، ص 12، اور ابن الحجر الہیثمی، الصواعق المحرقہ، ص 19]
تبصرہ:
کیا طاہر عباسی، عمر بن عبد العزیز اُسی پائے کےاللہ کے منتخب کردہ امام ہیں جیسے کہ طالوت تھے؟
کیا اُن پر بھی اللہ وحی کیا کرتا تھا، اور وہ لوگوں کو اُس کی خبر دیا کرتے تھے؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اِن لوگوں کو خود خبر تھی کہ وہ اللہ کے منتخب کردہ اُن بارہ ائمہ میں سے ایک امام ہیں کہ جن کا تذکرہ رسول ﷺ کیا کرتے تھے؟
حافظ ابن الحجر العسقلانی
کسی کو بھی صحیح بخاری کی اس حدیث کے معنوں کے متعلق صحیح طور پر پتا نہیں ہے۔یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ تمام آئمہ ایک ہی زمانہ میں موجود ہوں گے۔[ابن الحجر العسقلانی، فتح الباری 16:338]
تبصرہ:
جب حافظ عسقلانی صاحب کو اپنے ہاں یہ بارہ ائمہ نہیں مل سکے تو وہ فرما رہے ہیں کہ (معاذ اللہ) رسول یا تو فضول کی خبریں لوگوں کو دیا کرتے تھے یا پھر کام کی خبر بھی ہوتی تھی تو بھی لوگوں کے لیے فضول ہوتی تھی کیونکہ اُن کے معنوں کو کوئی بھی صحیح طرح نہیں جانتا تھا۔
ابن الجوزی
بنی امیہ کا پہلا خلیفہ یزید ابن معاویہ تھا جبکہ آخری مروان الحمر تھا۔ ان کی تعداد 13 بنتی ہے۔ عثمان، معاویہ اور ابن زبیر کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان کا تعلق اصحاب سے تھا۔ اگر ہم ان میں سے مروان بن الحکم کو اس فہرست سے اس بنا پر خارج کر دیں کہ آیا اسے صحابیِ رسول (ص) مانا جائے یا نہیں، تو ہمیں 12 کی یہ مقررہ تعداد مل جاتی ہے۔۔۔۔ جب خلافت بنی امیہ کے ہاتھوں سے نکلی تو آفات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا حتیٰ کہ بنی عباس نے اپنی خلافت کو مستحکم نہ کر لیا۔ چنانچہ (روزِ قیامت والی) اصل شرط مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔[ابن الجوزی، کشف المشکل، جیسا کہ العسقلانی نے اس کا حوالہ اپنی فتح الباری 16:340 پر دیا ہے]
تبصرہ:
جب ابن جوزی کو اپنے ہاں یہ بارہ امیر نظر نہیں آئے تو انہوں نے یزید بن معاویہ (اور بنی امیہ کے دیگر فاسق و فاجر خلفاء) کو طالوت جیسا اللہ کا منتخب امام قرار دے دیا۔
دوسرا یہ کہ ابن جوزی نے قیامت والی شرط ہی تبدیل کر دی (یعنی رسول ﷺ نے بتایا تھا کہ ان بارہ خلفاء کے بعد قیامت نے آنا ہے، مگر ابن جوزی فرما رہے ہیں کہ چونکہ بنی عباس نے اپنی خلافت کو مستحکم کر لیا اس لیے اللہ نے قیامت نہیں بھیجی)
امام النووی
اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ 12 امام اس وقت تک رہیں گے جب تک اسلام اپنے عروج پر رہے گا (یعنی روزِ قیامت کی شرط کا مطلب اسلام کا عروج ہے)۔ وہ وقت جبکہ اسلام چھایا ہوا ہو گا، یہ خلفاء اپنے دور میں اسلام کی بالادستی قائم کریں گے۔[النووی، شرح مسلم، 12:202]
تبصرہ:
حیرت ہے کہ امام النووی اللہ کے ان بارہ منتخب کردہ ائمہ کے متعلق ایسی قیاسی تھیوریاں تو پیش کر رہے ہیں، مگر یہ نہیں بتا رہے کہ یہ بارہ امیر ہیں کون کہ جن کا تعلق قریش سے ہے۔
امام البیہقی
یہ 12 کی تعداد ولید ابن عبد المالک تک پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد انتشار اور افراتفری پھیل گئی۔ اس کے بعد عباسی خلفاء کا دور شروع ہوا۔ اگر ہم ان کچھ خصوصیات کو نطر انداز کر دیں جو کہ انتشار کے بعد رونما ہوئیں، تو ان کی تعداد 12 سے کہیں زیادہ بن جاتی ہے۔[ابن کثیر، تاریخ 6:249، السیوطی، تاریخ الخلفاء، ص 11]
تبصرہ:
امام بیہقی کو جب یہ بارہ امیر اپنے ہاں نہیں ملے تو وہ اس بات پر بھی پر تولتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ولید بن عبدالمالک جیسے فاسق و فاجر خلفاء کو بھی اللہ کے منتخب کردہ ائمہ کی فہرست میں شامل کر دیں (کہ جن میں مہدی علیہ السلام اور طالوت علیہ السلام جیسے لوگ شامل ہیں)۔ اس ولید بن عبدالمالک کے متعلق حافظ ابن کثیر کا تبصرہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ ابن کثیر
جو کوئی بھی امام بیہقی کی رائے کی پیروی کرتا ہے اور اس بات سے متفق ہے کہ اس سے مراد وہ خلفاء ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بعد بغیر کسی وقفے کے آئے حتیٰ کہ ولید ابن یزید ابن عبد المالک جیسے فاسق خلیفہ مقرر ہوئے جس کے متعلق ہم نے روایات نقل کی ہیں جس میں اس پر تنقید کی گئی ہیں اور اس کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔اور اگر ہم ابن عبد المالک سے پہلے ابن زبیر کی خلافت تسلیم کر لیں تو خلفاء کی تعداد 16 پہنچ جائے گی۔ اور اس طریقے میں یزید ابن معاویہ تو شامل ہو جائے گا مگر عمر ابن عبد العزیز رہ جائیں گے۔ مگر علماء کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ عمر ابن عبد العزیز ایک سچا اور عادل خلیفہ تھا۔[ابن کثیر، تاریخ 6:249]
تبصرہ:
حافظ ابن کثیر تمام زندگی چکراتے رہے اور اپنے ہاں یہ بارہ قریشی امیر ڈھونڈتے رہے مگر انہیں نہیں مل سکے۔
بلکہ ایک حافظ ابن کثیر پر ہی کیا موقوف، پچھلے چودہ سو سالوں سے پوری اہلسنت قوم چکرا رہی ہے، سر پٹخ رہی ہے، مگر اپنے ہاں ان بارہ قریشی امراء کو نہیں ڈھونڈ پا رہی ہے، اور بلا شبہ قیامت تک نہیں ڈھونڈ پائے گی۔
کیا آپ ذہنی طور پر کنفیوزڈ تو نہیں ہو گئے؟
اب ہمیں ایک اور سنی عالم کی ضرورت ہے جو کہ آخر میں اس عقدہ کو حل کرے کہ یہ 12 وصی، خلفاء، امیر اور امام آخر کون ہیں:
ہمارے مخالمین کا پسندیدہ عالم الذھبی اپنی کتاب تذکرة الحفاظ (ج 4، ص 298) میں لکھتا ہے اور ابن الحجر العسقلانی اپنی کتاب الدرور الکامینہ، ج 1، ص 67 پر لکھتے ہیں کہ صدر الدین ابراہیم بن محمد بن الجوینی الشافعی حدیث کے ایک بہت بڑے عالم تھے۔
یہی الجوینی عبد اللہ ابن عباس (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول (ص) نے فرمایا:
"میں انبیاء کا سردار ہوں اور علی (ع) اوصیاء کے سردار ہیں۔ اور میرے بعد میرے اوصیاء کی تعداد 12 ہو گی۔ ان میں سے پہلے تو یہ علی (ع) ہیں، اور ان میں سے آخری مہدی (ع) ہوں گے۔"
الجوینی نے ایک اور حدیث بھی ابن عباس (ر) سے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا:
"بے شک میرے خلفاء، جو کہ میرے وارث اور تمام مخلوقات پر اللہ کی حجت ہوں گے، ان کی تعداد 12 ہو گی۔ ان میں سے پہلا میرا بھائی ہو گا اور آخری میرا بیٹا ہو گا۔" آپ (ص) سے پوچھا گیا کہ آپ (ص) کا وہ بھائی کون ہے؟ آپ (ص) نے جواب دیا کہ "علی ابن ابی طالب"۔ پھر لوگوں نے پوچھا کہ آپ (ص) کا وہ بیٹا کون ہو گا؟ اس پر آپ (ص) نے جواب دیا کہ "المہدی! جو کہ اس دنیا کو عدل اور انصاف سے ایسے بھر دے گا جیسا کہ یہ دنیا ناانصافی اور ظلم سے بھری ہوئی ہو گی۔ اور اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھ کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے، کہ اگر اس دنیا کہ زندگی کا ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو بھی اللہ اس دن کو اتنا طول دے دے گا کہ وہ میرے بیٹے المہدی کو بھیجے گا، اور پھر وہ روح اللہ عیسیٰ ابن مریم (ع) کو نازل کرے گا جو کہ امام مہدی (ع) کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ اور یہ دنیا اس کے نور سے منور ہو جائے گی اور اس کی حکمرانی مشرق سے لیکے مغرب تک قائم ہو جائے گی۔"
الجوینی نے رسول اللہ (ص) سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ:
میں، علی، حسن، حسین اور حسین کی نسل سے 9 افراد طاہر کیے گئے ہیں اور (کسی بھی قسم کی لغزشوں سے) معصوم ہیں۔"[الجوینی، فرائض السمتین، ص 160، طبع بیروت]
اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔