قيام کربلا کے اجتماعي پہلو


قيام کربلا کے اجتماعي پہلو

قيام امام حسين کي خصوصيات

سيد الشہدا کا بہايا گيا خونِ ناحق تاريخ ميںہميشہ محفوظ ہے، چونکہ شہيد يعني وہ شخص جو اپني جان کو خلوص کے طبق ميں رکھ کر دين کے بلند ترين اہداف کيلئے پيش کرتا ہے اور ايک خاص قسم کي صداقت اور نورانيت کا حامل ہوتا ہے۔ کوئي کتنا ہي بڑا کاذب و مکار کيوں نہ ہو اور اپني زبان و بيان سے خود کو حق کا کتنا ہي بڑا طرفدار بناکر کيوں نہ پيش کرے ليکن جب اُس کے شخصي منافع خصوصاً جب اُس کي اور اُس کے عزيز ترين افراد کي جان خطرے ميں پڑتي ہے تو وہ پيچھے ہٹ جاتا ہے اور کسي بھي قيمت پر حاضر نہيں ہوتا کہ اُنہيں قربان کرے۔ ليکن وہ  شخص جو ايثار و فداکاري کے ميدان ميں قدم رکھتا ہے اور مخلصانہ طور پر اپني تمام ہستي کو راہ الٰہي ميں پيش کرتا ہے تو ’’حق? عَلَي اللّٰہِ‘‘ تو اُس کا خدا پر حق ہے يعني خدا اپنے ذمہ ليتا ہے کہ اُسے اور اُس کي ياد کوزندہ رکھے۔ ’’وَلاَ تَقُولُوا لِمَن يُّقتَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموات?‘‘ ،’’ جو خدا کي راہ ميں مارا جائے اُسے مردہ نہ کہو‘‘: ’’وَلَا تَحسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموَاتًا بَل اَحيَآئ?‘‘ ،’’جو لوگ خدا کي راہ ميں قتل کرديے جائيں اُنہيں ہرگز مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہيں‘‘؛ شہيد في سبيل اللہ زندہ رہتے ہيں۔ اُن کے زندہ رہنے کا ايک پہلو يہي ہے کہ اُن کي نشانياں اور قدموں کے نشان، راہِ حق سے کبھي نہيں مٹتے اور اُن کا بلند کيا ہوا پرچم کبھي نہيں جھکتا۔ ممکن ہے چند روز کيلئے ظلم و ستم اور بڑي طاقتوں کي مداخلت کي وجہ سے اُن کي قر با ني اورفدا کا ري کے رنگ کو پھيکا کر ديں ليکن خداوند عالم نے قانونِ طبيعت کو اِسي طرح قرار ديا ہے اور خدا کي سنت اور قانون يہ ہے کہ پاک و پاکيزہ اور صالح و مخلص افراد کا راستہ ہميشہ باقي رہے۔ خلوص بہت ہي عجيب چيز ہے لہٰذا يہي وجہ ہے کہ امام حسين کي ذات گرامي ،اُن کے اور اُن کے اصحابِ با وفا کے بہائے گئے خونِ ناحق کي برکت سے آج دنيا ميں دين باقي ہے اور تاقيامت باقي رہے گا۔
ميں نے امام حسين کے تمام ارشادات ميں کہ جن ميں سے ہر ايک ميں کوئي نہ کوئي تربيتي نکتہ موجود ہے اور ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ لوگوں کي ہدايت و اصلاح کيلئے امام ٴکے ارشادات سے زيادہ سے زيادہ استفادہ کيا جائے، اِ س جملے کو اپني آج کي اِس محفل کيلئے زينت قرار ديا ہے کہ جسے آپ کي خدمت ميں عرض کررہا ہوں۔ امام ٴسے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا ’’اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعلَمُ اَنَّہُ لَم يکُن مِنَّا تَنَافُسًا سُلطَانِ وَلَا التِمَاسًا مِن فُضُولِ الحُطَامِ‘‘ (1) ’’پروردگارا! يہ تحريک جو ہم نے چلائي ہے، جس امر کیلئے قيام کيا اورجس ميںتجھ سے فيصلے کے طالب ہيں تو جانتا ہے کہ يہ سب ا قتدارکي خواہش کيلئے نہيں ہے؛ اقتدار کي خواہش ايک انسان کيلئے ہدف نہيں بن سکتي اور نہ ہي ہم چاہتے ہيں کہ زمام قدرت کو اپنے ہاتھ ميں ليں؛ نہ ہي ہمارا قيام دنيوي مال و منال کے حصول کيلئے ہے کہ اُس کے ذريعہ سے دنيوي لذتوں سے لُطف اندوز ہوں، شکم پُري کے تقاضے پورے کريں اور مال ودولت جمع کريں؛اِن ميںسے کوئي ايک بھي ہمارا ہدف و مقصد نہيں ہے‘‘۔

پس سيد الشہدا کا قيام کس ليے تھا؟ امام حسين نے اِس بارے ميں چند جملے ارشاد فرمائے ہيں کہ جو ہماري جہت کو واضح کرتے ہيں۔ پوري تاريخ ميں اسلام کي تبليغ کا مقصديہ تھا، ’’ وَلٰکِن لِنُرِيَ المَعَالِمَ مِن دِينِکَ‘‘ (2) ، ’’ہم تيرے دين کي نشانيوں کو واضح اور آشکار کرنا چاہتے ہيںاور دين کي خصوصيات کو لوگوں کيلئے بيان کرنے کے خواہاںہيں‘‘۔
اِن خصوصيات کا بيان بہت اہم ہے؛ شيطان ہميشہ ديندار افراد کي گمراہي کيلئے غير مر ئي و غير محسوس انحراف کا راستہ اپناتا ہے اور صحيح راہ کو اِس انداز سے غلط بناکر پيش کرتا ہے( کہ ابتدائي مرحلے ميں اگر انسان بصيرت کا ما لک نہ ہو تووہ اُس کي تشخيص نہيں کو سکتا) ۔ اگر اُس کا بس چلے تو يہ کہتا ہے کہ ’’دين کو چھوڑ دو‘‘؛ اگر اُس کے امکان ميں ہوتو يہ کام ضرور انجام ديتا ہے اور يوں شہوت پرستي اور اپنے غلط پروپيگنڈے کے ذريعہ لوگوں کے ايمان کو اُن سے چھين ليتا ہے اور اگر يہ کام ممکن نہ ہو تو دين کي نشانيوں کوہي بدل ديتا ہے۔ بالکل ايسے ہي جيسے آپ ايک راستے پر حرکت کررہے ہوں تو سنگ ميل يا راہنما سائن بورڈ آپ کي حرکت کو ايک خاص سمت ميں ظاہر کرتے ہيں ،ليکن اگر کوئي خائن شخص آئے اور راستے کي سمت کو بتانے والے سائن بورڈوںپردرج شدہ علامات کو بدل دے کہ جو راستے کو ايک دوسري ہي طرف ظاہرکريں تو يقينا آپ کي حرکت کي سمت بھي تبديل ہو جا ئے گي!

اصلاح معاشرہ اور برائيوں کا سدِّباب

امام حسين اِسي امر کو اپنے قيام کا پہلا ہدف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں ’’ لِنُرِيَ المَعَالِمَ مِن دِينِکَ و نُظہِرَ الاِصلَاحَ فِي بِلَادِکَ‘‘(3) ؛’’بارالٰہا!ہم چاہتے ہيں کہ اسلامي ممالک ميں برائيوں کي ريشہ کني کريں اور معاشروں کي اصلاح کريں‘‘۔ يہاں امام حسين کس اصلاح کي بات کررہے ہيں؟ اِصلاح يعني برائيوں کو نابود کرنا؛يہاں امام ٴکن برائيوں کي بات کررہے ہيں؟ برائيوں کي مختلف انواع و اقسام ہيں؛ چوري بھي برائي ہے، خيانت بھي برائي ہے، بيروني طاقتوں سے وابستگي بھي برائي کے زُمرے ميں آتي ہے ، ظلم وستم  بھي برائي ہي کا مصداق ہے ، اخلاقي انحراف و بگاڑبھي برائيوں کي ہي ايک قسم ہے،مالي خردبُرد اور اقتصادي ميدان  ميں انجام دياجا نے والا کرپشن بھي اجتماعي برائيوں سے ہي تعلق رکھتا ہے، آپس ميں دست و گريباں ہونا اور ايک دوسرے سے دشمني رکھنا بھي برائي کي ہي ايک نوع اور قسم ہے، دشمنانِ دين کي طرف ميل و رغبت اور جھکاو بھي برائيوں کا ہي حصہ ہے اور دين کي مخالف چيزوں سے اپنے شوق و رغبت کو ظاہر کرنا بھي گناہ ہے ؛(ايک اسلامي معاشرے ميں يہ)تمام چيزيں دين کي آڑاور اُس کے سائے ميں ہي وجود ميں آتي ہيں(اور پيغمبر اکرم ۰ کے بعديہ چيزيںديني حکومت کي آڑميں وجود ميں آئيں )۔ سيد الشہدا اِس کے بعد فرماتے ہيں کہ ’’وَيَامَنَ المَظلُومُونَ مِن عِبَادِکَ‘‘ (4) ،تا’’کہ تيرے بندے امن و سکون پائيں‘‘؛ يہاں مظلوم سے امام ٴ کي مراد، معاشرے کے مظلوم افراد ہيں، نہ کہ ستمگراور ظلم کرنے والے؛نہ ظلم کے مدّاح اورنہ اُسے سرانے والے اورنہ ہيظالموںکاساتھ دينے والے! ’’ مَظلُومُونَ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہيں کہ جو بے يارو مددگار ہيں اور جنہيں اپني نجات کي کو ئي راہ سجھائي نہيں ديتي۔ ہدف يہ ہے کہ معاشرے کے مستضعف اور کمزور افراد خواہ وہ کسي بھي طبقے سے تعلق رکھنے والے کيوں نہ ہوں، امن و سکون کا سانس ليں،اُن کي حيثيت و آبروکي حفاظت اوراُن کيلئے عدل و انصاف کي فراہمي کا سامان ہواور وہ اقتصادي طور پر امن و سکون کا سانس ليں کہ آج ہماري دنيااِن ہي چيزوں کي بہت تشنہ ہے؛ چنا نچہ آپ غو رکيجئے کہ امام حسين نے کس طرح اُس زمانے ميں طاغوتي حکومت کے بالکل نقطہ مقابل ميں موجود چيز پر انگلي رکھي۔ آج آپ بين الاقوامي سطح پر نگاہ ڈاليے تو آپ يہي صورتحال سامنے اپنے سامنے موجود پائيں کہ دين کے پرچم کواُلٹا اور اسلامي تعليمات کو غلط انداز سے پيش کيا جارہا ہے ، عالم استکبار اور لٹيرے خدا کے مظلوم بندوں پر پہلے سے زيادہ ظلم کررہے ہيں اوراِن ظالموں نے اپنے پنجوں کو مظلوموں کے جسموں ميں گاڑا ہوا ہے۔

احکام الٰہي کا نفاذ

اِسي خطبے کے آخر ميں سيد الشہدا فرماتے ہيں کہ ’’و يُعمَل وَبِفَرَائِضِکَ اَحکَامِکَ و  سُنَنِکَ ‘‘ (5) ،’’اورہمارا مقصد يہ ہے کہ تيرے فرائض وسنت اور احکام پر عمل کيا جائے‘‘؛ يہ ہے امام حسين کا  ہدف! اب ايسے موقع پر ايک گوشے سے ايک شخص کھڑا ہو جو نہ صرف اسلامي تعليمات سے آشنا نہيں ہے بلکہ امام حسين کے کلمات حتيٰ عربي لغت کي الف ب سے بھي واقف نہيں ہے، امام حسين کے ہدف کے بارے ميں لب گشائي کرے کہ امام حسين نے فلاں ہدف کيلئے قيام کيا تھا(کہ جس کا امام حسين کے ہدف سے سرے ہي سے کو ئي تعلق نہيں ہے)! تم يہ بات کہاں سے اور کس دليل کي بنا پرکہہ رہے ہو؟! يہ سيد الشہدا کاا رشاد فرمايا ہوا جملہ ہے کہ ’’و يُعمَلَ وَبِفَرَائِضِکَ وَاَحکَامِکَ وسُنَنِکَ‘‘ ، يعني امام حسين اپني اور اپنے زمانے کے پاکيزہ ترين اور صالح انسانوں کي جانوں کو صرف اِ س ليے قربان کررہے ہيں لوگ احکام دين پر عمل کريں، آخر کيوں؟ اِس ليے کہ دنيا و آخرت کي سعادت ،احکام دين پر عمل کرنے ميں مضمر ہے ، اِس ليے کہ عدل وانصاف، احکام دين پر عمل کرنے سے ملتا ہے اور اِس ليے کہ حريت و آزادي، احکام دين پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اِن لوگوں کوآزادي کہاں سے نصيب ہوگي؟ انسان ،احکام دين کے سائے ميں ہي اپني تمام خواہشات کو پاسکتا ہے۔ (6)

١ محرم کي آمد سے قبل علمائ اور مبلغين سے خطاب 12/4/2000
2 بحار الانوار ج١٠٠، ص ٧٩
3 و 4 حوالہ سابق
5 و 6 حوالہ سابق

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget