امام حسين ،دلربائے قلوب


امام حسين ،دلربائے قلوب

ميرے عزيز دوستو! حسين ابن علي کا نام گرامي بہت ہي دلکش نام ہے ؛ جب ہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امام حسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہے اور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔ البتہ مسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسين کي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيں کہ جن کا شمار اہل بيت کے شيعوں ميں نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سے ايسے افراد ہيںکہ حسين ابن علي کا مظلوم نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوں کا سيلاب جاري ہو جاتاہے ور اُن کے دل منقلب ہوجاتے ہيں۔ خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميں ايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو ہماري قوم سميت ديگر ممالک کے شيعوں کے دل و جان پر ايک روحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔ يہ ہے حضرت امام حسين کي مقدس ذات سے احساساتي لگاو کي تفسير۔
اہل بصيرت کے درميان ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے جيسا کہ روايات اور تاريخ سے بھي معلوم ہوتا ہے ، حضرت ختمي مرتبت ۰ اور امير المومنين کے گھر اور اِن بزرگوار ہستيوں کي زندگي ميں بھي اِس عظيم ذات کو مر کزيت حاصل تھي اور يہ ہميشہ اِن عظيم المرتبت ہستيوں کے عشق و محبت کا محور رہا ہے اور آج بھي ايسا ہي ہے۔

امام حسين کي تعليمات اور دعائيں

تعليمات اور دعاوں کے لحاظ سے بھي يہ عظيم المرتبت ہستي اور اُن کا اسم شريف بھي کہ جو اُن کے عظيم القدر مسمّيٰ(ذات) کي طرف اشارہ کرتا ہے، اِسي طرح ہے۔ آپ کے کلمات و ارشادات ، معرفت الٰہي کے گرانبہا گوہروں سے لبريز ہيں۔ آپ روز عرفہ ، امام حسين کي اِسي دعائے عرفہ کو ملاحظہ کيجئے تو آپ ديکھيں گے کہ يہ بھي زبور آل محمد ۰ (صحيفہ سجاديہ)کي مانند عشق و معرفت الٰہي کے خزانوں اور اُس کے حسن و جمال کے حَسِين نغموں سے مالا مال ہے ۔ يہاں تک کہ انسان جب امام سجاد کي بعض دعاؤں کا دعائے عرفہ سے موازنہ کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ امام سجاد کي دعائيں در حقيقت امام حسين کي دعائے عرفہ کي ہي تشريح و توضيح ہيں، يعني دعائے عرفہ ’’اصل ‘‘ ہے اور صحيفہ سجاديہ کي دعائيں اُس کي ’’فرع‘‘۔ عجيب و غريب دعائے عرفہ، واقعہ کربلا اور زندگي کے ديگر مواقع پر آپٴ کے ارشادات ،کلمات اور خطبات ايک عجيب معاني اور روح رکھتے ہيں اور عالم ملکوت کے حقائق اور عالي ترين معارف الہٰيّہ کاايسا بحر بيکراں ہيں کہ آثار اہل بيت ميں جن کي نظير بہت کم ہے۔

سيد الشہدا ، انسانوں کے آئيڈيل

بزرگ ہستيوں کي تآسّي وپيروي اور اوليائے خدا سے انتساب و نسبت، اہل عقل و خرد ہي کا شيوہ رہا ہے۔ دنيا کا ہر ذي حيات موجود، آئيڈيل کي تلاش اور اُسوہ و مثالي نمونے کي جستجو ميں ہے ،ليکن يہ سب اپنے آئيڈيل کي تلاش ميں صحيح راستے پر قدم نہيں اٹھاتے ہيں۔ اِس دنيا ميں بعض افراد ايسے بھي ہيں کہ اگر اُن سے دريافت کيا جائے کہ وہ کون سي شخصيت ہے کہ جو آپ کے ذہن و قلب پر چھائي ہوئي ہے تو آپ ديکھيں گے کہ اُن حقير اور پست انسانوں کا پتہ بتائيں گے کہ جنہوں نے اپني زندگي خواہشات نفساني کي بندگي و غلامي ميں گزاري ہے۔ اِن آئيڈيل بننے والے افراد کي عادات و صفات ،غافل انسانوں کے سِوا کسي اورکو اچھي نہيں لگتيں اور يہ معمولي اور غافل انسانوں کو ہي صرف چند لمحوں کيلئے سرگرم کرتے ہيں اور دنيا کے معمولي انسانوں کے ايک گروہ کيلئے تصوّراتي شخصيت بن جاتے ہيں۔ بعض افراد اپنے آئيڈيل کي تلاش ميں بڑے بڑے سياستدانوں اور تاريخي ہيرووں کے پيچھے چل پڑتے ہيں اور اُنہيں اپنے ليے مثالي نمونہ اور اُسوہ قرار ديتے ہيں ليکن عقلمند ترين انسان وہ ہيں جو اوليائے خدا کو اپنا اُسوہ اور آئيڈيل بناتے ہيںکيونکہ اوليائے الٰہي کي سب سے بڑي خصوصيت يہ ہے کہ وہ اِس حد تک شجاع ، قدرت مند اور صاحب ارادہ واختيار ہوتے ہيں کہ اپنے نفس اور جان و دل کے خود حاکم و امير ہوتے ہيں يعني اپنے نفس اور نفساني خواہشات کے غلام اور اسير نہيں بنتے۔

ايک حکيم (دانا)کا بے مثال جواب

قديم حکمائ اور فلسفيوں ميں سے کسي سے کيلئے منسوب ہے کہ اُس نے اسکندر رومي_ مقدوني_ سے کہا کہ ’’تم ہمارے غلاموں کے غلام ہو۔‘‘ اسکندر اعظم يہ بات سن کر برہم ہوگيا۔ اُس حکيم نے کہا کہ ’’غصہ نہ کرو، تم اپنے غصے اور شہوت کے غلام ہو۔ تم جب بھي کسي چيز کو حاصل کرتے ہوتو اُس وقت بھي بے تاب اور مضطرب ہوتے ہو اور جب غصہ کرتے ہو تو اُس وقت بھي پريشاني و بے کلي کي کيفيت تم پر سوار رہتي ہے اور يہ شہوت و غضب کے مقابلے ميں تمہاري غلامي کي علامت ہے جبکہ ميري شہوت و غضب ميرے غلام ہيں‘‘۔
ممکن ہے کہ يہ قصہ صحيح ہو اور ممکن ہے کہ يہ بالکل حقيقت نہ رکھتا ہو ليکن اوليائے خدا ، پيغمبروں اور بشريت کيلئے خدائي ہدايت کي شاہراہ کے راہنماوں کيلئے يہ بات بالکل صادق آتي ہے۔ اِس کي زندہ مثاليں حضرت يوسف ، حضرت ابراہيم اور حضرت موسيٰ ہيں اور اِ س کي متعدد مثاليں ہميں اوليائے الٰہي کي زندگي ميں نظر آتي ہيں۔ اہل عقل و خرد وہ انسان ہيں کہ جو اِن بزرگ ہستيوںاور اِن شجاع اور صاحب ارادہ و اختيار انسانوں کو اپنا آئيديل قرار ديتے ہيں اور اِس راستے پر گامزن ہو کر اپنے باطن ميں اپنے ارادے و اختيار کے مالک بن جاتے ہيں۔

واقعہ کربلا سے قبل امام حسين کي شخصيت و فعاليت

اِن بزرگ ہستيوں کے درميان بھي بہت سي عظيم شخصيات پائي جاتي ہيں کہ جن ميں سے ايک شخصيت حضرت امام حسين کي ہے۔ حق تو يہ ہے کہ يہ کہنا چاہيے کہ ہم خاکي ، حقير اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اوليائ کي ارواح اور تمام ملائکہ مقربين اور اِن عوالم ميں موجود تمام چيزوں کيلئے جو ہمارے ليے واضح و آشکار نہيں ہيں، امام حسين کا نورِ مبارک، آفتاب کي مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زير سايہ زندگي بسر کرے تو اُس کا يہ قدم بہت سود مند ہوگا۔
توجہ کيجئے کہ امام حسين نہ صرف يہ کہ فرزند پيغمبر ۰ تھے بلکہ علي ابن ابي طالب و فاطمہ زہرا ٭ کے بھي نور چشم تھے اور يہ وہ چيزيں ہيں کہ جو ايک انسان کو عظمت عطا کرتي ہيں۔ سيد الشہدا عظيم خاندان نبوت، دامن ولايت و عصمت اور جنتي اور معنوي فضاو ماحول کے تربيت يافتہ تھے ليکن اُنہوں نے صرف اسي پر ہي اکتفا نہيں کيا۔ جب حضرت ختمي مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کي عمر مبارک آٹھ ، نو برس کي تھي اور جب امير المومنين نے جام شہادت نوش کيا تو آپ سينتيس يا اڑتيس سال کے نوجوان تھے۔ امير المومنين کے زمانہ خلافت ميں کہ جو امتحان و آزمايش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زير سايہ اپني صلاحيتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے ميں بھرپور محنت کي اور ايک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصيت کي حيثيت سے اُبھرے۔
اگر ايک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جيسے انسانوں کي مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتني ہمت و حوصلہ کافي ہے، بس اتنا ہي اچھا ہے اور خدا کي عبادت اور دين کي خدمت کيلئے ہمت و حوصلے کي اتني مقدار ہمارے ليے کافي ہو گي ليکن يہ حسيني ہمت و حوصلہ نہيں ہے۔ امام حسين نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت ميں کہ آپ ماموم اور امام حسن امام تھے، اپني پوري طاقت و توانائي کو اُن کيلئے وقف کرديا تاکہ اسلامي تحريک کو آگے بڑھايا جاسکے ؛ يہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کي انجام دہي ، پيشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کي مطلق اطاعت ہے اور يہ سب ايک انسان کيلئے عظمت و فضيلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسين کي زندگي ميں ايک ايک لمحے پر غور کيجئے۔ شہادت امام حسن کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پيش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمي سے مقابلہ کيا اور تمام مشکلات کو برداشت کيا۔ امام حسن کي شہادت کے بعد آپ تقريباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کيجئے کہ امام حسين نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کيا کام انجام ديئے۔

دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ

امام حسين کي عبادت اورتضرّع وزاري، توسُّل ، حرم پيغمبر ۰ ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اور سير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کا دوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميںآپ کي خدمات اور تحريفات سے مقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف دين درحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلاب کي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِس بات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اور سبّ و شتم کريں۔ اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کي ولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کي جاتي، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان و خيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اور صرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُس کاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔
اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوط چٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑے ہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميںمحفوظ ہيں اور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريک کے روح رواں تھے۔

امر بالمعروف و نہي عن المنکر

آپ ٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہ امر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايک ناقابل انکار حقيقت اور قابل ديد حصّہ ہيں۔ اتفاق کي بات تو يہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک ميرے ذہن ميں ہے، اہل سنت مورخين نے نقل کيا ہے، يعني ميں نے نہيں ديکھا کہ شيعہ مورخين نے اُسے نقل کيا ہويا اگر نقل بھي کيا ہے تو سني مورخين سے نقل کيا ہے۔ آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيد کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہي عن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد

توجہ فرمائيے کہ ايک انسان مثلا امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ_ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیںنيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھي اپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔

امام حسين کي زندگي کے تين دور

سب سے پہلے مرحلے پر يہ سمجھنا چاہيے کہ يہ واقعہ کتنا عظيم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کيا جائے۔ کوئي يہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا ميں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کرديے گئے ہيں۔ جيسا کہ ہم سب زيارت عاشورا ميں پڑھتے ہيں کہ ’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّۃُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِيبَۃُ ‘‘۔ يہ مصائب و مشکلات بہت بڑي تھيں۔ ’’رزيّۃ‘‘ يعني بہت عظيم حادثہ؛ يہ حادثہ اور واقعہ بہت عظيم اور کمر توڑ دينے والا اور اپني نوعيت کا بے نظير واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کي عظمت و بزرگي کا اندازہ لگانے کيلئے ميں سيد الشہدا کي حيات طيبہ سے تين ادوار کو اجمالي طور پر آپ کے سامنے بيان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائيے کہ سيد الشہدا کي حيات کے اِن تين ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تينوں زمانوں ميں ايک ايسي شخصيت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کيلئے يہ گمان بھي نہيں کيا جاسکتا ہے کہ نوبت يہاں تک جا پہنچے گي کہ اِس شخصيت کے جدّ کي امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرليں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بيت کا نہايت سفاکانہ اور دردناک طريقے سے قتل عام کريں اور خواتين کو اسير و قيدي بناليں!
اِن تينوں زمانوں ميں سے ايک دور پيغمبر اکرم ۰ کي حيات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپٴ کي جواني يعني رسول اکرم ۰ کے وصال کے بعد پچيس سال اور امير المومنين کي حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تيسرا زمانہ امير المومنين کي شہادت کے بعد بيس سال کے عرصے پر محيط ہے۔

دورِ طفوليت

پيغمبر اکرم ۰ کي حيات ِ طيبہ کے اِس نوراني دور ميں امام حسين حضرت ختمي مرتبت ۰ کے نور چشم تھے۔ پيغمبر اکرم ۰ کي ايک صاحبزادي تھيں بنام فاطمہ ٭ کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پيغمبر اکرم ۰ نے اُن کے بارے ميں فرمايا کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَۃ وَ يَرضيٰ لِرِضَاھَا‘‘ (1) ، ’’اگر کسي نے فاطمہ کو غضبناک کيا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دي ہے اور اگر کسي نے فاطمہ کو خوش کيا تو اُس نے خدا کو خوشنود کيا‘‘۔ توجہ فرمائيے کہ يہ صاحبزادي کتني عظيم المرتبت ہے کہ حضرت ختمي مرتبت ۰ مجمع عام ميں اور کثير تعداد کے سامنے اپني بيٹي کے بارے ميں اِس طرح گفتگو فرماتے ہيں؛ يہ کوئي عام بات نہيں ہے۔
پيغمبر اکرم ۰ نے اپني اِس بيٹي کا ہاتھ اسلامي معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ ميں ديا کہ جو عظمت و بلندي اور اپني شجاعت و کارناموں کي وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، يعني علي ابن ابي طالب ۔ يہ جوان، شجاع ، شريف، سب سے زيادہ با ايمان، مسلمانوں ميں سب سے زيادہ شاندار ماضي کاحامل، سب سے زيادہ شجاع اور تمام نبرد و ميدان عمل ميں آگے آگے تھا ۔ يہ وہ ہستي ہے کہ اسلام جس کي شمشير کا مرہونِ منت ہے، يہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلير)پيچھے رہ جاتے ہيں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّيوں کو سلجھاتا ہے اور راستے ميں آنے والي ہر رکاوٹ کوتہس نہس کرديتا ہے؛ يہ وہ عزيز ترين  اور محبوب ترين داماد ہے کہ جسے خدا کے آخري رسول ۰ نے اپني بيٹي دي ہے ۔ اُس کي يہ محبوبيت رشتہ داري اور اقربا پروري اور اِسي جيسے ديگر امور کي وجہ سے نہيں ہے بلکہ اُس شخصيت کي عظمت کي وجہ سے ہے۔ اِس عظيم  جوان اور اِس عظيم المرتبت بيٹي سے ايک ايسا بچہ جنم ليتا ہے کہ جو حسين ابن علي کہلاتاہے۔
البتہ يہي تمام باتيں اور عظمتيں امام حسن کے بارے ميں بھي ہيں ليکن ابھي ہماري بحث صرف سيد الشہدا کے بارے ميں ہے۔ حسين ابن علي ،پيغمبر اکرم ۰ کے نزديک لوگوں ميں سب سے زيادہ  عزيزہیں۔ حضرت ختمي مرتبت ۰ جو دنيائے اسلام کے سربراہ ، اسلامي معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہيں، اِس بچے کو اپني آغوش ميں ليتے ہيں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد ميں لے  جاتے ہيں۔ سب ہي يہ بات اچھي طرح جانتے ہيں کہ يہ بچہ ، تمام مسلمانوں کي محبوب ترين ہستي کے دل کا چين، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم ۰ ، منبر پر خطبہ دينے ميں مصروف ہيں، اِس بچے کا پير کسي چيز سے الجھتا ہے اور زمين پر گر جاتا ہے ، پيغمبر اکرم ۰ منبر سے نيچے تشريف لاتے ہيں، اُسے اپني گود ميں اٹھا کر پيار اور نوازش کرتے ہيں؛ يہ ہے اِس بچے کي اہميت و حقيقت!
پيغمبر اکرم ۰نے چھ سات سال کے امام حسن اور امام حسين کے متعلق فرمايا کہ ’’سَيِّدي شَبَابِ اَھلِ الجَنَّۃِ ‘‘ (2) يہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہيں ۔ (يا رسول اللہ!) يہ تو ابھي بچے ہيں، ابھي تو سن بلوغ کو بھي نہيں پہنچے اور انہوں نے جواني کي دہليزميں ابھي تک قدم نہيں رکھا ہے؛ ليکن رسول اکرم ۰ فرماتے ہيں کہ يہ جوانان جنت کے سردار ہيں يعني يہ بچے چھ سات سال ميں بھي ايک جوان کي مانند ہيں، يہ سمجھتے ہيں، ادراک رکھتے ہيں ،عملي اقدام کرتے ہيں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود ميں موجزن ہے۔ اگر اُسي زمانے ميں کوئي يہ کہتا کہ يہ بچہ، اِسي پيغمبر کي اُمت کے ہاتھوں بغير کسي جرم و خطا کے قتل کرديا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئي بھي شخص اِس بات کو ہرگز تسليم نہيں کرتا۔ جيسا کہ پيغمبر ۰ نے يہ فرمايا اور گريہ کيا تو سب افراد نے تعجب کيا کہ کيا ايسا بھي ہوسکتا ہے؟!

امام حسين کا دورانِ جواني

دوسرا دور پيغمبر اکرم ۰ کي وفات کے بعد سے امير المومنين کي شہادت تک کا پچيس سالہ دور ہے۔ اِس ميں يہ شخصيت، جوان، رشيد، عالم اورشجاع ہے ، جنگوں ميں آگے آگے ہے، عالم اسلام کے بڑے بڑے کاموں ميں حصہ ليتا ہے اور اسلامي معاشرے کے تمام مسلمان اِس کي عظمت وبزرگي سے واقف ہيں۔ جب بھي کسي جواد و سخي کا نام آتا ہے تو سب کي نگاہيں اِسي پر متمرکز ہوتي ہيں، مکہ ومدينے کے مسلمانوں ميں، ہر فضيلت
ميں اور جہاں جہاں اسلام کا نور پہنچا، يہ ہستي خورشيد کي مانند جگمگا رہي ہے، سب ہي اُس کا احترام کرتے ہيں، خلفائے راشدين(3) بھي امام حسن اور امام حسين کا احترام کرتے ہيں ، اِن دونوں کي عظمت و بزرگي کے قولاً و عملاً قائل ہيں، ان دونوں کے نام نہايت احترام اور عظمت سے ليے جاتے ہيں ، اپنے زمانے کے بے مثل و نظير جوان اور سب کے نزديک قابل احترام۔ اگر اُنہي ايام ميں کوئي يہ کہتا کہ يہي جوان (کہ جس کي آج تم اتني تعظيم کررہے ہو) کل اِسي امت کے ہاتھوں قتل کيا جائے گا تو شايد کوئي يقين نہ کرتا۔

امام حسين کا دورانِ غربت

سيد الشہدا کي حيات کا تيسرا دور، امير المومنين کي شہادت کے بعد کا دور ہے، يعني اہل بيت کي غربت و تنہائي کا دور۔ امير المومنين کي شہادت کے بعد امام حسن اور امام حسين مدينے تشريف لے آئے۔حضرت علي کي شہادت کے بعد امام حسين بيس سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام ١ رہے اور آپ تمام مسلمانوں ميں ايک بزرگ مفتي کي حيثيت سے سب کيلئے قابل احترام تھے۔ آپ عالم اسلام ميں داخل  ہو نے والوںکي توجہ کا مرکز، اُن کي تعليم وتر بيت کا محور اوراہل بيت سے اظہا رعقيدت و محبت رکھنے والے  افراد کے توسل و تمسک کے نقطہ ارتکاز کي حيثيت سے مدينے ميں زندگي بسر کرتے رہے ۔ آپ ، محبوب، بزرگ، شريف، نجيب اور عالم وآگاہ شخصيت کے مالک تھے۔
آپ نے معاويہ کو خط لکھا، امام حسين اگر کسي بھي حاکم کو تنبيہ کي غرض سے خط تحرير فرماتے تو عالم اسلام کے نزديک اُس کي سزا موت تھي، معاويہ پو رے احترام کے ساتھ يہ خط وصول کرتاہے، اُسے پڑھتا ہے ، تحمل کرتا ہے اور کچھ نہيں کہتا۔ اگر اُسي زمانے ميں کوئي يہ کہتا کہ آئندہ چند سالوں ميں يہ محترم ، شريف اور نجيب و عزيز
شخصيت کو کہ جو تمام مسلمانوں کي نگاہوں ميں اسلام وقرآن کي جيتي جاگتي تصوير ہے، اسلام و قرآن کے اِنہي ماننے والوں کے ہاتھوں قتل کرديا جائے گا اور وہ بھي اُس دردناک طريقے سے کہ جس کا کوئي تصور بھي نہيں کرسکتا  تھا تو کوئي بھي اِس بات پر يقين نہيں کرتا۔ ليکن اپني نوعيت کا عجيب و غريب ، حيرت انگيز اور يہي ناقابل يقين واقعہ رونما ہوا اور کن افراد کے ہاتھوں وقوع پذير ہوا؟ وہي لوگ جو اُس کي خدمت ميں دوڑ دوڑ کر آتے تھے، سلام کرتے تھے اور اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اِن (متضاد) باتوں کا کيا مطلب ہے؟ اِ س کا مطلب يہ ہے کہ اسلامي معاشرہ اِن پچاس سالوں ميں معنويت اور اسلام کي حقيقت سے بالکل خالي ہوگياتھا، يہ معاشرہ صرف نام کا اسلامي تھا ليکن باطن بالکل خالي اور پوچ اور يہي خطرے کي سب سے بڑي بات ہے۔ نمازيں ہورہي ہيں، نماز باجماعت ميں لوگوں کي کثير تعداد موجود ہے، لوگوں نے اپنے اوپرمسلماني کا ليبل لگايا ہوا ہے اور کچھ لوگ تو اہل بيت کے طرفدار اور حمايتي بھي بنے ہوئے ہيں !!

رسول اللہ ۰کے اہل بيت تمام عالم اسلام ميں قابل احترام ہيں

ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ پورے عالم اسلام ميں سب ہي اہل بيت کو قبول کرتے ہيں اور کسي کو اِس ميں کسي بھي قسم کا شک وشبہ نہيں ہے ۔ اہل بيت کي محبت تمام عالم اسلام کے دلوں ميں موجود ہے اور آج بھي يہي صورتحال ہے۔ آج بھي آپ دنيائے اسلام کے کسي بھي حصے ميں جائيے، آپ ديکھيں گے کہ سب اہل بيت سے محبت کرتے ہيں۔ وہ مسجد جو امام حسين سے منسوب ہے اور وہ مسجد جو قاہرہ ميں حضرت زينب ٭ سے منسوب ہے ، ہميشہ زوّاروں سے پُر رہتي ہے۔ لوگ بڑي تعداد ميں يہاں آتے ہيں ، قبر کي زيارت کرتے ہيں اور توسل کرتے ہيں۔
ابھي دو تين سال قبل (4) ايک نئي کتاب مجھے دي گئي ؛ چونکہ قديمي کتابوں ميں يہ مطالب بہت زيادہ ہيں، يہ
کتاب’’ اہل بيت کون ہيں‘‘؟کے عنوان سے لکھي گئي ہے۔ سعودي عرب کے ايک محقق نے تحقيق کرکے اِس کتاب ميں ثابت کيا ہے کہ اہل بيت سے مراد علي ، فاطمہ ٭اور حسن و حسين ہيں۔ يہ حقيقت تو ہم شيعوں کي جان روح کا حصہ ہے ليکن ہمارے اِس سني مسلمان بھائي نے اس حقيقت کو لکھا اور طبع کيا ہے۔ يہ کتاب ميرے پاس موجود ہے اور اِس کے ہزاروں نسخے چھپ ہو کر فروخت ہوچکے ہيں۔ (5)



١ بحار الانوار ، جلد ٤٣ صفحہ ٤٤
2 بحار الانوار ، جلد١٠، صفحہ ٣٥٣
3 معنوي امام اس لحاظ سے کہ امير المومنين کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسن کو منتقل ہوئي اور آپ کي شہادت کے بعد امامت ، امام حسين کو منتقل ہوئي۔ امام حسن کي امامت کا زمانہ يا امام حسين کي اپني امامت کا دور، دونوں زمانوں ميں امام حسين ٢٠ سال تک تمام مسلمانوں کے معنوي امام رہے ۔ (مترجم)
4 تقريباً ١٩٩٨ ميں کيونکہ يہ تقرير سن ٢٠٠٠ کي ہے۔
5 خطبہ نماز جمعہ، 8/05/2000

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget