مضر پیرائے
محرم سے مضر پیرایوں کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بعض چیزیں ہیں جو صرف پیرا یہ ہیں یعنی نہ نقصان دہ ہیں اور نہ جھوٹ ۔ جو بھی ایک ہنر مندانہ انداز میں کسی واقعہ کو بیان کرنا چاہتا ہے وہ فقط اس واقعہ کے متن کو نہیں دہراتا ۔ جب آپ سنتے ہیں کہ کسی شخص نے خاص حالات میں یہ باتیں کہی ہیں تو آپ ان باتوں کے متکلم کے احساسات و جذبات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ یہ ایک طبیعی چیز ہے ۔ جب ایک شخص ایک صحرا یا بیابان میں ایک لشکر کے سامنے کوئی بات کہتا ہے ( البتہ اس شرط کے ساتھ کہ بات کس طرح کی ہے دعوت ہے ، التماس ، دہمکی ہے یا … )تو قاعدہ یہ ہے کہ اس متکلم کے ذہن و روح میں کہ خاص کیفیات ہوتی ہیں جو ایک عاقل سامع کے لئے قابل ادراک اور ایک مقرر کے لئے قابل بیان ہوتی ہیں ۔ ان چیزوں کے بیان میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ جب ہم چاہیں کہ امام حسین ( ع ) اور ان کے اصحاب کے حالات بیان کریں ( البتہ جتنا معتبر کتابوں میں ملتا ہے ) تو یقینا اس بیان کی کچھ خصوصیات اور کیفیات ہوں گی مثلا اگر امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے کچھ کہا تو آپ اس کو اس انداز میں بیان کر سکتے ہیں : رات کی تاریکی میں یا اس رات کی غمناک اور المناک تاریکی میں یا اس طرح کی دوسری تعبیرات ۔ یہ پیرا ئے یا طریقےنہ مضر ہیں اور نہ ہی جھوٹ ہیں ۔ لیکن بعض پیرائے جھوٹ ہوتے ہیں اور بعض باتیں جو نقل کی جاتی ہیں خلاف حقیقت ہوتی ہیں یہاں تک کہ بعض وہ چیزیں جو کتابوں میں لکھی گئی ہیں وہ حسینی تحریک اور قیام کی شان سےمناسبت نہیں رکھتی ہیں ۔ اب پہچاننے اور الگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ( ۵۱ )
مرثیہ یعنی عاشور کی یاد کو زندہ رکھنا
جب سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اسی وقت سے امام کی عزاداری اور مرثیہ خوانی شروع ہوگئی ۔ امام کی سب سے پہلی مرثیہ خوان خود جناب زینب کبریٰ تھی ں ۔ امام عالی کے سراہنے آئیں اور فرمایا : ( بابی المظولم حتی قضیٰ ) میرا باب آپ پر فدا ہو کہ مظلوم اس دنیا سے گئے ہو ( بابی العطشان حتی مضی ) میرا باپ آپ جیسے شہید پر قربان کہ تشنہ لب شہید ہوئے ۔ یہ تھا امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ جس کی بنیاد جناب زینب سلام اللہ علیہا نے ڈالی ۔
یہ بات یاد رہے کہ امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنا ، یعنی اس آگ کو شعلہ ور رکھنا جو امام حسین نے روشن کی تاکہ ظلم و ستم اور متکبر و مستکبر کو اس میں جلا ڈالیں ۔ اب اس آگ کو جلائےرکھنا ہماری ذمہ داری ہے جس کا طریقہ عزاداری ، مرثیہ خوانی اورتعزیہ داری ہے ۔ البتہ اس تعزیہ داری کے کچھ شرائط ہیں ۔ اگر ان شرائط پر عمل ہوا تب تو آپ نے تعزیہ داری کی ہے اور اگر ان شرائط کو پورا نہیں کیا تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نہ صرف تعزیہ داری نہ کی بلکہ خطا بھی کی ہو ۔
یہ بات یاد رہے کہ امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنا ، یعنی اس آگ کو شعلہ ور رکھنا جو امام حسین نے روشن کی تاکہ ظلم و ستم اور متکبر و مستکبر کو اس میں جلا ڈالیں ۔ اب اس آگ کو جلائےرکھنا ہماری ذمہ داری ہے جس کا طریقہ عزاداری ، مرثیہ خوانی اورتعزیہ داری ہے ۔ البتہ اس تعزیہ داری کے کچھ شرائط ہیں ۔ اگر ان شرائط پر عمل ہوا تب تو آپ نے تعزیہ داری کی ہے اور اگر ان شرائط کو پورا نہیں کیا تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نہ صرف تعزیہ داری نہ کی بلکہ خطا بھی کی ہو ۔
پہلی شرط
سب سے پہلی شرط مطالب کا ہونا ہے ۔ ہم صرف جذبات کی بنیاد پر توگریہ نہیں کرنا چاہتے ۔ ایک آدمی اپنے گلے سے غمناک آواز نکالے اور ہم رونے لگیں ۔ ممکن ہے چار آدمی غزل سن کے بھی رو دیں صرف اپنے لطیف احساسات کی بنیاد پر ،لیکن ہم لطیف احساسات کی بنیاد پر نہیں رونا چاہتے بلکہ امام حسین علیہ السلام پر رونے کے لئے ضروری ہے کہ گریہ ان کے مصائب کے تذکرہ اور یاد کے ساتھ ہو ۔ لہٰذا جو کچھ بھی کہا جائے ، جو کچھ بھی پڑہا جائے جو کچھ بھی گنگنایا جائے وہ مفید مطالب پر مشتمل ہو ۔ یہ پہلی شرط ہے ۔
محتشم کے شعروں کو دیکھئے اس میں انقلاب ، اسلام اور مقابلہ کی باتیں ہیں لیکن اس نے واقعہ عاشورا کو بہت ہنر مندانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر شعر اس طرح کے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے اشعار کہے جائیں تا کہ واقعہ کربلا کی عظمت اجاگر ہو ۔
محتشم کے شعروں کو دیکھئے اس میں انقلاب ، اسلام اور مقابلہ کی باتیں ہیں لیکن اس نے واقعہ عاشورا کو بہت ہنر مندانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر شعر اس طرح کے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے اشعار کہے جائیں تا کہ واقعہ کربلا کی عظمت اجاگر ہو ۔
دوسری شرط
دوسری شرط یہ ہے کہ مطالب گمراہ کن نہ ہوں ۔ بعض باتیں ، بعض اشعار اور بعض بیانات واقعاً گمراہ کن ہوتے ہیں ۔ یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جو سراسر جھوٹ ہیں ۔ غیر واقعی اور غلط واقعات جو کسی بھی معتبر کتاب میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔ مثلا ایک شخص نے اپنی طرف سے کچھ باتیں لکھ دیں اب دوسرےبھی پڑھنےلگے اس طرح کی باتیں نہیں پڑھنی چاہئے ۔ سید ابن طاووس کی " لہوف " ، شیخ محمد عباس قمی کی " نفس المہموم " خود امام حسین کے خطبات اور اقوال ان سب کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔ اور وہ باتیں جو گمراہ کن ہیں نہیں پڑھنی جانا چاہئیں ۔
تیسری شرط
تیسری شرط یہ ہے کہ عزاداری حرام کام کے ساتھ مخلوط نہ ہو ۔ ایک ایسی طرز اور ایساترنم جسے انسان دور سے سنتا ہے لیکن سمجھ نہیں پاتا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔ صرف اتنا سمجھ تا ہے کہ ایک غیر شرعی اور غیر اخلاقی دہن ہے ایسی دہن کا استعمال عزاداری میں کیوں کیا جائے ؟ وہ ترنم اور دہن جو ایک فاسد گلو کار کلب میں جا کر لہو و لعب والے اشعار کے ساتھ استعمال کرتا ہے تاکہ بزرگوں اور جوانوں کو گمراہ کرے اب ہم اسی دہن کو استعمال کریں اور صرف اشعار اور مطالب بدل دیں مثلا حسین ، قرآن ، خدا ، شہادت ، خون ، نیزہ ، خنجر اور اس طرح کے الفاظ کا استعمال کریں یہ بہت گہٹیا اور برا کام ہے ۔ ( ۵۲ )
بہترین اور خوبصورت اشعار
ایسا کام ہونا چاہیے کہ جہاں چند انقلابی اور حزب اللّہی جوانوں کا گروہ عزاداری بپا کرتا ہے ان کے درمیان پڑھے جانے والے اشعار سراپا معرفت ہوں ۔ ابھی مجھے کہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ اشعار سراپا درس اور معرفت ہوں اس کے لئے کس سے مدد لی جائے ؟ بہترین شاعر ، بہترین مفکر اور بہترین اشعار سے استفادہ کیجئے نہ کہ عوامانہ اشعار سے ۔
لیکن کس تجویز سے یہ کام کیا جائے ؟ ایک شعر شناس کی تجویز سے نہ کہ انجمن کے سربراہ کی تجویز ہے ۔ انجمن کا سربراہ ممکن ہے سرے سے شعر ہی سمجھ نہ پاتا ہو ۔ ہر کام کا ایک ماہر ہوتا ہے ۔ ایک شعر شناس ، ایک دینی اور مذہبی ماہر کی مدد سے جدید ، بہترین بلند و اعلیٰ معارف ان حزب اللہی جوانوں تک منتقل کیجئے ۔
آپ کا دس منٹ یا بیس منٹ کا اجلاس بھی معارف اسلام سے خالی نہیں جانا چاہئے۔ مرثیہ خوانی وغیرہ میں ابتدا معارف اور نصیحت سے ہونی چاہیے وہ بھی خوبصورت اور بہترین اشعار میں ۔ قدیم زمانے سے یہی رواج تھا لیکن اب کم ہوگیا ہے ۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ مداح اہل بیت آغاز میں دس ، پندرہ ، بیس شعر میں فقط نصیحت اور اخلاق کی باتیں کرتا تھا لوگ سمجھ تے بھی تھے اور اثر ابھی ہوتا تھا ۔ میں پہلے بھی کہا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شاعر کے چند اشعار کا اثر ایک خطیب کی ایک گہنٹے کی تقریر سے زیادہ ہوتا ہے البتہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کبھی کبھی ہوتا ہے ۔ اگر بہترین اندازہ میں کہا اور پڑہا جائے تو یقینا ایسا ہی ہوگا ۔ ( ۵۸ )
لیکن کس تجویز سے یہ کام کیا جائے ؟ ایک شعر شناس کی تجویز سے نہ کہ انجمن کے سربراہ کی تجویز ہے ۔ انجمن کا سربراہ ممکن ہے سرے سے شعر ہی سمجھ نہ پاتا ہو ۔ ہر کام کا ایک ماہر ہوتا ہے ۔ ایک شعر شناس ، ایک دینی اور مذہبی ماہر کی مدد سے جدید ، بہترین بلند و اعلیٰ معارف ان حزب اللہی جوانوں تک منتقل کیجئے ۔
آپ کا دس منٹ یا بیس منٹ کا اجلاس بھی معارف اسلام سے خالی نہیں جانا چاہئے۔ مرثیہ خوانی وغیرہ میں ابتدا معارف اور نصیحت سے ہونی چاہیے وہ بھی خوبصورت اور بہترین اشعار میں ۔ قدیم زمانے سے یہی رواج تھا لیکن اب کم ہوگیا ہے ۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ مداح اہل بیت آغاز میں دس ، پندرہ ، بیس شعر میں فقط نصیحت اور اخلاق کی باتیں کرتا تھا لوگ سمجھ تے بھی تھے اور اثر ابھی ہوتا تھا ۔ میں پہلے بھی کہا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شاعر کے چند اشعار کا اثر ایک خطیب کی ایک گہنٹے کی تقریر سے زیادہ ہوتا ہے البتہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کبھی کبھی ہوتا ہے ۔ اگر بہترین اندازہ میں کہا اور پڑہا جائے تو یقینا ایسا ہی ہوگا ۔ ( ۵۸ )
Post a Comment