زینبی کردار


زینبی کردار

جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی  کوئی ان کے سامنےکھڑا  ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔
ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔
ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے  ٹیک دیتے ہیں ۔
زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینب کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب کو نہ للکا رسکے ۔ زینب نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا  ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر  یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔
زینب کبریٰ کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے او ردوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت ، عظمت اور سکون و پایداری ، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص  معرفت ،جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔
ان کی نسوانی عظمت ، جھوٹے  بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت ! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے  کو نہیں ملتی ۔
وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بہڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان ھوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔
اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ( ۲۰ )

 ہنر مندانہ گفتگو

میری نظر میں جناب زینب کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔
اگر جناب زینب نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔
سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ  ایک شیوہ اور طریقہ ہے ۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار ، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں ۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا ، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی  ۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی  ایسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تووہ  ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا ۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا  ہے شام میں جناب زینب اور امام سجاد نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنر مندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا ۔ ( ۲۱ )

 تین بنيادی عناصر

امام حسین علیہ السلام کے قیام میں تین بنیادی عنصر پائے جاتے ہیں :
عنصر منطق و عقل ، عنصر عزت و حماسہ ، عنصر مہر و عطوفت:
عقل و منطق کا عنصر امام عالی مقام کے خطبات اور بیانات میں صاف نظر آتا ہے ۔واقعہ سے پہلے سے یعنی مدینہ سے کربلا تک امام کے نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک محکم اور پایدار عقل و منطق کی حکایت کرتا ہے ۔ اس منطق کا خلاصہ یہ ہے جب حالات سازگارہوں ، اسباب فراہم ہوں اور موقع غنیمت ہو تو مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیام کرے ۔ چاہے اس میں خطرات ہوں یا نہ ہوں ۔ جب اساس دین خطرے میں ہو اور آپ اپنی زبان و عمل سے اس کا مقابلہ نہ کریں تو خدا یہ حق رکھتا  ہے کہ اس غیر ذمہ دار انسان کے ساتھ  ویسا ہی سلوک کرے جیسے اس ظالم اور ستمگر کے ساتھ  کرے گا ۔

 عنصر عزت و حماسہ

دوسرا عنصر ، حماسہ ہے ۔ یہ  مجاہدت اور یہ مقابلہ اسلامی عزت و وقار کے ساتھ  ہو " العزة للہ و لرسولھ و للمومنین " کیونکہ عزت صرف خدا ، اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے ۔ اس قیام اور جہاد میں ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی اور اسلام کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس مظلومیت کے اوج پر آپ کو ایک چہرہ نظر آتا ہے ایک حماسی اور صاحب عزت چہرہ ۔ اگر ہم آج کےسیاسی اور فوجی مقابلوں اور جہاد پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ وہ افرادہاتھ میں بندوق لے کر میدان جنگ کے لئے نکل پڑے ، بسا اوقات انہوں نے خود ذلیل کیا ہے ۔ لیکن واقعہ عاشورامیں ایسا کچھ بھی  نہیں ہے ۔
جب امام حسین ( ع ) ایک شب کی مہلت مانگتے ہیں تو عزت مندانہ طریقے سے مہلت لیتے ہیں ۔ جب ھل من ناصر کہہ کر نصرت طلب کرتے ہیں وہاں بھی  عزت و اقتدار ہے ۔ مدینہ سے کوفہ تک کے راستے میں جب مختلف افراد سے ملتے ہیں ، ان سے گفتگو کرتے ہیں اور انہیں اپنی نصرت کی دعوت دیتے ہیں یہ ضعف و ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی  ایک نمایاں اور دلیرانہ عنصر ہے ۔
( اسی زمانے میں ) مدرسہ فیضیہ میں عاشور کے دن امام خمینی ( رح ) کے اس یادگار خطاب کو یاد کیجئے ۔ ایک عالم جس کے پاس نہ کوئی مسلح فوجی ہے نہ کوئی ہتھیار لیکن پھر  اس عزت و وقار کے ساتھ  گفتگو کرتا ہے کہ اپنی عزت کے آگے دشمن کو گہٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ یہ ہے عزت کا مقام و مرتبہ ۔

 عنصر مہر و عطوفت

عاشورا کا تیسرا عنصر مہر و عطوفت ہے ۔ جو خود اس واقعہ میں بھی  نظر آتا ہے اور اس کے بعد بھی  نظر آتا ہے ۔ اس عنصر کا بہت اہم رول رہا ہے جس نے عاشورائی اور شیعہ تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممتاز بنا دیا ۔ عاشورا صرف ایک عقلی اور استدلالی تحریک نہیں ہے بلکہ اس میں عتق و محبت، نرمی و مہربانی اور گریہ و اشک کا عنصر بھی  پایا جاتا ہے ۔ جذبات و احساسات کی طاقت بہت عظیم طاقت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ ہمیں حکم دیتا ہے رونے کا رلانے کا اور اسے واضح اور روشن کرنےکا ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کوفہ و شام میں ایک گفتگو کرتی ہیں لیکن ساتھ  میں مرثیہ بھی  پڑھتی ہیں امام سجاد شام کے منبر پر جاکر عزت و افتخار کے ساتھ  حکومت وقت کو پکارتے ہیں لیکن مرثیہ پڑھتے ہیں ۔ جذبات اور احساسات کے ماحول میں بہت سے ایسےحقائق کو سمجھا جاسکتا ہے جو دوسری جگہوں پر سمجھ  میں نہیں آتے ۔ ( ۲۲ )

 عاشورا ایک عید

واقعہ کربلا کو ایک وقت ہم مصیبت کی آنکہ سےدیکھتے ہیں جس میں تمام مصیبتیں پائی جاتی ہیں ہم اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کی تأئید کرتے ہیں ۔ اور ہمارے لئے اس کی بہت زیادہ برکات تھی ں ( اور ہیں ) اور یہ اس واقعہ کا جذباتی ، احساساتی اور عاطفی پہلو ہے ۔ امام حسین کون تھے  ؟ کیوں قتل کیے گئے ؟ کیسے قتل کئے گئے ؟ کن لوگوں نے انہیں قتل کیا ؟ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔
لیکن ایک بار آپ عاشورا کو اس نگاہ سےدیکھتے ہیں کہ اسلام مر رہا تھا  عاشورا نے اسے زندہ کیا ۔ اس خون اور اس شہادت کے ذریعہ دم توڑتا اسلام پھر  سے زندہ ہوگیا ۔ جب آپ اس نگاہ سے عاشورا کودیکھیں گے تو آپ بھول  جائیں گے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تھا  ۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا ؟ آپ بھول  جائیں گے کہ امام حسین علیہ السلام جیسی کسی شخصیت کا قتل ہو ۔ کیونکہ اس واقعہ کا یہ مثبت پہلو اتنا صاف ، شفاف اور حاوی ہے کہ تمام منفی پہلووں کوچھپا دیتا ہے ۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو سید ابن طاووس کہتے ہیں : " اگر یہ درد و غم اور مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم عاشور کے دن نیا لباس پہنتے اور اسے ایک عید کے طور پر مناتے " ۔ ( ۲۴ )

 خون کی خاصیت

دنیا کی بزرگ اور نمایاں شخصیات جب ایک عظیم مقصد کی راہ میں شہید ہوجاتی ہیں وہ اگرچہ اس تحریک ، اس انقلاب یا اس معاشرے کو اپنے فقدان کے ذریعہ ایک اہم اور گرانقدر شخصیت سے محروم کر دیتی ہیں لیکن اپنی فداکاری اور اپنے خون و شہادت کے ذریعہ اس تحریک کو زندہ کر جاتی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے تاریخ میں ہمارے شہدا کا وجود رہا ہے جس کی ایک واضح مثال واقعۂ کربلا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام جیسی بے مثل اور گرانقدر شخصیت جب اس دنیا سے اٹھ  جاتی ہے اگرچہ معاشرہ کا اس شخصیت سے محروم ہونا نا قابل جبران نقصان اور خلا کا باعث ہے لیکن ان کی قربانی اتنی عظیم ہے کہ تحریک حسینی زندہ جاوید بن جاتی ہے ۔ یہ ہے قربانی اور فداکاری کی تاثیر ۔ یہ ہے خون کی خاصیت ۔ جب دعوے انسانوں کے خون سے جامہ عمل پہن لیتے ہیں تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں۔ ( ۲۵ )

عزا برپا کرنے والے غافلو

مولانا روم نقل کرتے ہیں کہ ایک شاعر شہر حلب میں داخل ہوا ۔اس نےدیکھا  کہ پورے شہر کے در و دیوار سیاہ پوش ہیں ۔ اس نے سوچا شاید کوئی بادشاہ ، شہزادہ ، سردار یا شہر کا کوئی معزز انسان دنیا سے چل بسا ہے ۔ کسی سے پوچھا  کہ آخر کون مرگیا جو پورا شہر سیاہ پوش ہوگیا ہے ؟ اس شخص نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور پوچھا  کیا تم اس شہر میں اجنبی ہو ؟ جواب دیا : ہاں ! بولا : میں سمجھ  گیا تھا  کہ تم اجنبی ہو اسی لئے پوچہ رہے ہو ۔ یہ محرم کا مہینہ ہے ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت کا مہینہ ہے اسی لئے ہم سب سیاہ پوش ہوگئے ہیں ۔
اب شاعر نے اس سیاہ پوش کے جواب میں شعر کہنا شروع کہا کہ  جب یہ لوگ جو  درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور حسین ابن علی شہید کئے گئے ہیں تو یہ ان کی  خوشی اور جشن کا دن ہے ۔
زانکہ ایشان خسرو دین بودہ اند وقت شادی شد جو بگستند بند
 سوی شاد روان دولت تاختند     کندہ و زنجیر را انداختند
وہ شہید ہوکر خوش ہوئے لہٰذا ان کے دوستوں کو بھی  ان کی شہادت پر خوش ہونا چاہئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کو آج کیوں معلوم ہوا کہ حسین شہید ہوئے ؟ آج معلوم ہوا تو عزاداری بپا کر رہے ہیں ؟ ان چند سو سالوں میں ( چوتھی  اور پانچویں صدی میں ) دنیائے اسلام یہ نہ سمجھی کہ حسین ابن علی شہید ہوگئے  اور انہیں کیوں شہید کیا گیا ؟ تم خواب غفلت کا شکار تھے  ۔
پس عزا برخود کنیدای خفتگان زانکھ بد مرگسیت این خواب گران
حقیقت ہے جو لوگ جو یہ نہ سمجھ  پائے کہ حسین کیوں شہید ہوئے ۔ جو یہ نہ سمجھ  پائے کہ وہ علم جو حسین ابن علی علیہما السلا کے ہاتھوں  میں تھا  وہ کیوں بلند کیا گیا اور حسین کو ماننے والوں کی ذمہ داری کیا ہے ، انہیں خود پر رونا چاہئے جب بھی  حسین کے نام پر آپ کے دل میں سوزش ہو اور آپ گریہ کریں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس عزاداری اور ان اشکوں کا کیا پیغام ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی  غافل رہیں اور پھر  خود پر گریہ کریں اور حسین ابن علی کو نہ سمجھ  پائیں ۔ (82 )

 چہلم

چہلم کی اہمیت کس وجہ سےہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ امام عالی کی شہادت کے چالیس ان گذر چکے ہیں ؟ آخر اس کی کیا خاصیت ہے ؟ چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔ فرض کیجیےاگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما ہوتا یعنی حسین ابن علی اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے ساتھ یوں کے جسمہائے مبارک کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی صورت میں اس کا شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا ؟
یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر اور مستقبل کی بلاؤں ، مصیبتوں ، تاریکیوں اور یزیدان وقت پر بھی  اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ؟
ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے ۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی  پہنچے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ایک آواز پر دوسری آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے پائے ۔ اسی لئے وہ بے تھا شا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ دنیا نہ سمجھ  پائے کہ تحمیلی جنگ کیا تھی  ، کیوں پیش آئی ، اس کا محرک کون تھا  ، کس کے ذریعہ تھوپی گئی ۔ اس وقت بھی  استکباری طاقتوں کی پوری کوشش تھی  کہ جو بھی  جتنا بھی  خرچ ہو کسی بھی  طرح سے حسین کا نام ، ان کی یاد ، ان کی شہادت اور کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے ۔ البتہ شروع میں خود ان کی بھی  سمجھ  میں نہیں آیا تھا  کہ یہ شہادت کیا کرسکتی ہے لیکن جتنا زمانہ گزرتا گیا ان کی سمجھ  میں آنے لگا ۔ یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام عالی مقام کی قبر کو منہدم کیا گیا ۔ اسے پانی سے گھیر دیا گیا ۔ تاکہ اس کا کوئی نام نشان باقی نہ رہے ۔ یہ ہے شہداء اور شہادت کی یاد کا اثر ۔ شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکہاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا  جائے گا اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکہنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا اب چاہے امام حسین (ع) کے پہلے چہلم میں اہل حرم کربلا آئے ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر،ان کی زیارت کو آئے ۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے ۔ جابر اگرچہ نابینا تھے  لیکن عطیہ کاہاتھ پکڑ کر امام حسین علیہ السلام کی قبر  پر آئے اور زار و قطار رونے لگے ۔ امام حسین علیہ السلام سے گفتگو کی ، درد دل بیان کیا ۔ امام حسین ( ع ) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا ۔ ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن ۔ ( 83 )

جوقوم اسیر ہے

ہمارے ملک میں لوگ امام عالی مقام کو جانتے اور پہچانتے تھے  اور ان کی تحریک سے واقف تھے  ۔ ان کے اندر حسینی روح تھی  اس لیے جب امام خمینی ( رح ) نے فرمایا کہ محرم وہ مہینہ ہے جب شمشیر پر خون کی فتح ہوگی تو لوگوں نے تعجب نہیں کیا اور یہی ہوا بھی  خون شمشیر پر فتح پاگیا ۔ کئی سال پہلے یعنی انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ایک نشست میں حقیر نے اسی بات کو سمجھ انے کے لئے مولانا روم کی زبانی ایک مثال دی اور وہ مثال یہ تھی  کہ ایک شخص تھا  جس نے گھر میں ایک طوطا پال رکھا  تھا  ۔ ایک بار اس نے ہندوستان سفر کا ارادہ کیا ۔ جب وہ اپنے اہل و عیال سے رخصت ہونے  لگا تو اپنے اس طوطے کے پاس بھی  گیا اور اس سے کہا : میں تمہارے وطن ہندوستان جارہا ہوں ( تمہیں اپنے ہم وطنوں سے کچھ  کہنا ہے ) طوطے نے کہا : جب وہاں پہنچو تو فلاں جگہ جانا وہاں میرے بہت سے ساتھی ہوں گے ان سے میرا حال زار بیان کرنا اور کہنا تمہاری طرح کا ایک طوطا میرے گھر میں بھی  ہے جسے میں نے پنجرے میں بند کر کے رکھا  ہے ۔ ( میرا یہ پیغام پہنچا  دینا) اس کے لئے علاوہ مجھے  کچھ  نہیں کہنا ہے ۔ جب وہ ہندوستان پہنچا اور اس جگہ گیا تو دیکھا  کہ درختوں پر بہت سےطوطے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کودیکھ  کر کہنے لگا : اے پیارے اور شیریں زبان طوطو ! میں تمہارے لئے ایک پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھ  میرے گھر میں پنجرے میں بند ہے ۔ بہت خوش و خرم ہے ۔ اچھے  سے اچھا کھانا  کھاتا ہے ۔ اور خوب مزے کرتا ہے اس نے تم سب کو سلام کہا ہے ۔
جیسے ہی تاجر نے یہ پیغام سنایا سب طوطےپر پھڑ پھڑا کر  زمین پر گر پڑے ۔ تاجر آگے بڑھا اور دیکھا  کہ سب مر گئے ہیں ۔ اسے بہت افسوس ہوا کہ آخر میں ایسی بات کیوں کہی جسے سن کر انہوں نے اپنی جان دے دی ۔ لیکن اب تو ہوچکا تھا  کچھ  کیا بھی  نہیں جاسکتا تھا  لہٰذا وہ پلٹ آیا جب گہر آیا تو پنجرے کے پاس جاکر طوطے سے کہنے لگا : میں نے تیرا پیغام تیرے ساتھیوں تک پہنچایا ۔ پوچھا :انہوں نے کیا جواب دیا : کہا: جیسے ہی انہوں نے تیرا پیغام سنا پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے درختوں سے زمین پر گرے اور مر گئے ۔ جیسے ہی تاجر کی باتیں ختم ہوئی اس طوطے نے بھی  اپنے پر پھڑ پھڑائے اور پنجرے ہی میں ڈھیر ہوگیا ۔ تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا اور سوچنے لگا اب تو یہ مر چکا ہے یہاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ لہٰذا اس نے پنجڑہ کہول کر اسے پیروں سے پکڑا اور چہت کی طرف اچھا ل دیا ۔ جیسے ہی تاجر نے اسے اوپر اچھا لا وہ اڑتا ہوا ایک دیوار پر جاکر بیٹہ گیا اور تاجر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا : بہت بہت شکریہ تم نے خود مجھے  آزادی دلائی ہے ۔ میں مرا نہیں تھا  بلکہ میں نے اپنے کو مردہ بنا لیا تھا  اور یہ درس میں نے اپنے ساتھیوں کے عمل سے سیکھا تھا  ۔ جب ان کو تمہاری زبانی پتہ چلا کہ میں پنجرے میں قید ہوں تو انہوں نے سوچا کہ مجھ سے کس طرح کہیں کہ کیا کروں تاکہ  آزاد ہوجاؤں ؟ انہوں نے عملاً مجھے  بتایا کہ اپنی نجات کے لئے کیا کروں۔ انہوں نے مجھ سے کہا مر جاؤ تاکہ زندگی پاؤ اور میں نے تمہاری زبانی ان کا یہ پیغام سمجھ  لیا ۔ یہ ایک عملی پیغام تھا  جو اتنی دور سے مجھ تک پہنچا تھا  اور میں نے اس سے سبق حاصل کیا ۔ تقریبا بیس سال پہلے ، میں نے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہوکر کہا : عزیزان گرامی ! امام حسین (ع) کس زبان میں کہیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ حالات ویسے ہی ہیں ۔ زندگی وہی ہے ۔ اسلام بھی  وہی اسلام ہے  لہٰذا امام حسین علیہ السلام نے عملا بتایا کہ کیا کرنا  چاہئے ۔ اگر امام عالی مقام اپنی زبان سے ایک لفظ بھی  نہ کہتے تب بھی ہمیں سمجھ  جانا چاہئے تھا  کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ۔ وہ قوم جو اسیر ہے ، وہ قوم جو قید و بند میں ہے ۔ وہ قوم جس کے حکام فساد کا شکار ہیں ۔ وہ قوم جس پر اسلام کے دشمن حکومت کر رہے ہیں اور اس کی باگ ڈورہاتھ میں لیتے ہوئے ہیں اسے بہت پہلے سمجھ  جانا چاہئے کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے ۔ کیونکہ امام عالی مقام نے عملاً بتا دیا کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئے ۔ اسے زبان سے نہیں کہا جاسکتا تھا  ۔ اگر سوبار بھی  زبان سے یہ بات کہتے اور خود نہ جاتے تو ناممکن تھا  کہ یہ پیغام تاریخ سے گزر کر ہم تک پہنچتا ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہنا تاریخ سے آگے نہیں بڑھتا  کیونکہ ہزاروں طرح سے ان باتوں کی توجیہ اور تاویل کی جاتی ہے ۔ لہٰذا عمل ہونا چاہئے اور وہ بھی  ایسا عظیم سخت اور فداکاری کے ساتھ  کہ جیسا امام عالی مقام نے انجام دیا ۔ ( ۳۱ )

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget