بعثت بغیر ہجرت


 بعثت بغیر ہجرت

آج ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اقوام عالم کو یہ سمجھ ائیں کہ وہ بعثت جس میں ہجرت نہ ہو وہ اسلام کامل نہیں ہے ۔ وہ دین جس میں دین کی سیاسی طاقت احکام الٰہی کا نفاذ ، اسلامی نظام کی بنیاد اور معاشرے کے پہلواگر قرآن کے مطابق نہ ہوں تو وہ کامل اسلام نہیں ہے بلکہ ایک ناقص اسلام ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جس سے آج عالمی استکبار اور اس کے حواری سخت خائف ہیں ۔
آپ نے دیکھا  ہوگا مکہ کے حادثہ میں ، اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی  یہ بات واضح اور روشن تھی  ۔ اس مادی دنیا کے حکمران اور عالمی استکبار کے نو کر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جتنا ممکن ہوسکے یہ ثابت کریں کہ دین کا سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دین معاشرے کی باگ ڈور نہیں سنبہال سکتا اور معاشرے کے سیاسی و اجتماعی مسائل احکام خدا کے ذریعہ حل نہیں کئے جاسکتے ۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ دین کو سیاست سے بالکل الگ رکہیں ۔
سن ۶۱ ہجری میں واقعہ کربلا ہجرت پیغمبر کا تسلسل تھا  فرق صرف یہ ہے کہ پیغمبر ایک اسلامی اور دینی نظام کی بنیاد ڈالنا چاہتے تھے  اور امام حسین علیہ السلام اس نظام کو زندہ کرنا چاہتے تھے  کیونکہ یہ نظام بنی امیہ اور دشمنان دین کے ہاتھوں  انحراف کا شکار ہوگیا تھا  ۔
یہ ہے واقعہ عاشورا کی صحیح تفہیم اور مسألہ ہجرت کی صحیح تفسیر ۔ محرم انہیں خصوصیات کی وجہ سے اسلامی معاشرے بالخصوص شیعہ معاشرے میں ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ البتہ جیسا کہ پہلے بھی  عرض کیا یہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں تھا  غیر شیعہ اسلامی ممالک میں بھی  محرم ، عاشورا اور مصیبت اہل بیت لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے جس کی ایک لمبی داستان ہے ۔ ( ۳۲ )

 انجمن ، صرف جذبات کی بنیاد پر نہیں

انجمن، حسین ابن علی ، مجلس عزا ، سینہ زنی ، نوحہ و ماتم وغیرہ کے نام پرجذباتی اور فکری اجتماع کا نام ہے ۔ یعنی بعض لوگ جمع ہوتے ہیں ان کاموں کے لئے اور ان کے کام کی بنیاد جذبات اور فکر دونوں ہیں صرف جذبات نہیں ۔ اگر صرف جذبات ہوں تو اس کا زندگی میں کوئی رول اور اثر نہیں ہوتا اور اسی طرح اگر خشک فکر ہو بغیر جذبات کے تو یہ نفوذ اور بقا نہیں رکھتی  ۔ فکر اس وقت شاداب ہوتی ہے جب جذبات سے ہم آہنگ ہوجائے ۔ اور اس محور بھی  سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ۔ ایک ایسا چشمہ جو کبھی  خشک نہیں ہوسکتا ایک ایسا دریا جس کی گہرائی تک انسان نہیں پہنچ سکتا البتہ فکر ب اور جذبات دونوں کے ساتھ ۔ ( ۳۷ )
محرم کے ان شب و روز کی قدر سمجھئے اور عزاداری کیجئے اور اس عزاداری میں امام عالی مقام سے درس حاصل کیجئے ۔ عزاداری صرف رونے کا نام نہیں ہے ۔ گریہ ایک وسیلہ ہے دلوں کی پاکیزگی قلوب کی طہارت اور حسین ابن علی کی عظمت کو سمجھ نے کا ۔ اس عزاداری سے درس لینا چاہئے ۔ انشاء اللہ خدا سید الشہداء علیہ السلام کی نظر لطف و عنایت کو اس قوم کی طرف موڑے اور ان کی دعا کو ہمارے حق میں قبول فرمائے اور ہمیں واقعی شیعہ ، اہل بیت کاحقیقی پیرو کار اور سچا مسلمان       قرار دے ۔ ( ۳۶ )

 شیعہ سنی اتحاد

عزاداری کبھی  بھی  شیعوں سے مخصوص نہیں رہی ہے بلکہ ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اہل بیت کی محبت رہی ہے ان کے مصائب بر غمگین  اور عزادار رہا ہے ۔ اور انہوں نے مختلف طریقے سے اس محبت اور عشق کا اظہار کیا ہے مرثیہ خوانی کے ذریعہ ، مذہبی انجمنوں میں عزاداری بپا کر کے اور مجلس و ماتم کے اجتماع کی شکل میں ۔ مراسم عزا نہایت مقدس اور محترم ہیں ہم اپنے ملک میں ہمیشہ صحیح شکل اور پر امن صورت میں ان مراسم کے حامی اور محرک رہے ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی  جہاں جہاں موالیان اہل بیت رہتے ہیں یہ مراسم نہ صرف یہ کہ ان کی انجام دہی میں کوئی حرج  نہیں ہے بلکہ بہت اچھا  ہے اور قابل قدر ہے ۔ البتہ شیعہ سنی دونوں کو اس بات کا خیال رکھنا  چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے عالمی استکبار کو اختلاف کی آگ بھڑکانے کا موقع ملے ۔ ان مراسم میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دوسرے فرقوں کی توہین ہوتی ہو ۔ برادران اہل سنت کو اس بات کی طرف مکمل توجہ دینی چاہئے کہ آج عالم استکبار کا مقصد اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے جیسے شیعہ سنی میں اختلاف ۔ لہٰذا اس دشمن سے دہوکہ نہ کہائیں ۔ عاشورا تاریخ اسلام کا ایک عظیم سانحہ ہے اور محرم میں  امام حسین ان کے اصحاب با وفا اور ان کی اولاد کی شہادت کی یاد منانا ہمارا ایک اسلامی فریضہ ہے اور صرف وہی لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ جو حسین ابن علی اور بزرگان دین کے مقصد سے نا آشنا ہیں یا پھر  مخالف ہیں ۔ عالمی استکبار شدت سے عزاداری اور عاشورا سے خائف ہے اسی لئے اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ ( ۶۸ )

 پروگرامنگ ضروی ہے

محرم و صفر بہت حساس اور اہمیت کا حامل مسألہ ہے ۔ محرم و صفر کے لئے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ ہے ایک خاص پروگرامنگ ۔ مثلا ایک کمیٹی بنائی جائے جو محرم آنے سے پہلے اس کے بارے میں پروگرامنگ کرے کہ آنے والے محرم و صفر میں حالات کو مد نظر رکھتے  ہوئے کون سے موضوعات اہم ہیں ۔ ان سے متعلق مواد و مطالب اکٹھا کئے جائیں اور ایک مرکز یا ایک Institute انہیں علما و ذاکرین اور خطبا و واعظین کے حوالے کرے ۔ ان سے کہا جائے کہ مثلا آج ان موضوعات اور ان مطالب کو بیان کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے بھی  بڑھ کر کہا جائے کہ اس لہجہ ، اس روش اور اس سیاست کی ضرورت ہے ۔
ایک ایسی پروگرامنگ ابھی  تک نہیں ہوسکی ہے ۔ البتہ پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پروگرامنگ کی کیسے جاتی ہے ۔ کہاں سے شروع کی جائے ؟ اس سلسلے میں کن لوگوں سے رائے لی جائے ؟ اور حاصل شدہ مواد کو کس طرح مختلف افراد تک پہنچایا جائے ۔ قرآنی موضوعات حدیثی موضوعات ، عالمی ، مسائل وغیرہ ۔ بہر حال آج ہمارے پاس اسلامی جمہوریہ کا نظام ہے ۔ آج ہم ایک مجموعہ کی شکل میں ہیں ۔ یک و تنہا نہیں ہیں ۔ آج ہمارے پاس ایک نظام ہے ۔ آج ہمارے  لئے یہ نقص و عیب کی بات ہے کہ تبلیغ کا موسم آئے ، ہمارے پاس افرادی قوت بھی ہو لیکن اس کے لئے ہم نے پہلے سے کوئی پروگرامنگ نہ کی ہو ۔ ( ۳۸ )

 سب کافریضہ ہے

اگر میں پورے ملک کی مجالس عزا اور عزاداری کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا چاہوں تو یہ فیصلہ سو فیصد صحیح نہیں ہوسکتا ۔ لوگوں کی محبت ، خلوص ، ارادت ، وفاداری اور ایمان کے بارے میں کوئی شک و شبہہ  نہیں ہے ۔ بعض اہل منبر اور مجالس بہت جذاب اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں ۔ بعض عزاداریاں بہت اچھی ہیں لیکن سب کچھ  یہی نہیں ہے ۔
آج ہمیں پوری کوشش اور ہمت کرنی چاہئے کہ انہیں مجالس عزا کی برکت سے حسین ابن علی کے دئے ہوئے درس کو اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ  معاشرے کے ذہنوں میں اتاریں کیونکہ آج بحمد للہ ہماری زندگی کی فضاؤں میں   امام حسین ( ع ) ، جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا ، جناب علی اکبر ، حضرت ابو الفضل العباس اور دوسرے بزرگ افراد موجودہیں اور زندگی کا درس دینے والے یہ سب معلم ہمارے درمیان زندہ ہیں (بل احیاء) یہ وہ کام ہے جو میرا ، آپ کا ، نوحہ خواں کا ، خطیب کا ، ماتمی دستوں کا سب کافریضہ ہے ۔ ہمارے پاس ایک خاص ہنر ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ۔ کوئی بھی  مذہب یا قوم ایک تو اسے اس طرح مجسم نہیں کر پائی جس طرح ہم نے کیا ہے  اور دوسرے یہ کہ اسے بقا نہیں دے سکی اس طرح کہ ایمان و جذبات  ایک ساتھ  مل جائیں اور ایک زندہ تحریک کو وجود میں لائیں جو دن بدن اور زندہ ہوتی جائے ۔ آپ کی آج کی عزاداریاں حقیر کی جوانی کے ایام کی عزاداریوں سے زیادہ پر جوش اور بہترین ہیں اور یہ فیضان اسی طرح جاری ہے ۔ اب اس کی برکتیں بھی  ظاہر ہونی چاہئیں ۔ ( ۳۹ )

 تبلیغ ،  حاکمیت اسلام کے زمانے میں

چند صدیوں سے ایران اور دنیا کی ان جگہوں پر  جہاں موالیان و پیروان اہل بیت رہتے ہیں ، ماہ محرم میں تبلیغ کی سنت جاری و ساری ہے ۔
اسلام کی حاکمیت کے زمانے اور عدم حاکمیت کے زمانے میں تبلیغ میں کافی فرق پایا جاتاہے ۔ ان دونوں زمانوں میں تبلیغ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حاکمیت اسلام کے زمانے میں دین مسائل زندگی کے ایک مجموعہ کو کہا جاتا ہے جس میں سیاست بھی  ہے ، حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا اور چلانا بھی  ہے خارجہ تعلقات کے مسائل بھی  ہیں ، دنیا کے مختلف گروہوں کے مقابل مسلمانوں کا اپنا نقطہ نظر بھی ہے ، اقتصادی مسائل بھی  ہیں لوگوں کے ایک دوسرے سے روابط اور زندگی کے مختلف امور میں اخلاق کی رعایت بھی  ہے ۔ دین ایک مجموعہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی مسائل کو شامل ہیں ، اس میں وہ مسائل بھی ہیں  جو سب مل کر انجام دیتے ہیں اور وہ مسایل بھی ہیں جو اگرچہ اجتماعی ہیں لیکن ایک ایک شخص بھی بھی انہیں انجام دے سکتا ہے اور وہ مسائل بھی  ہیں جو دنیا اور ملک کی تقدیر کےساتھ  جڑے ہیں ۔ جب ہم تبلیغ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ان تمام مسائل کی تبلیغ ۔
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تبلیغ اس تبلیغ سے کتنی مختلف ہے جو ہم اسلامی اور الہی حکومت کے قیام سے پہلے کیا کرتے تھے  ۔ اس وقت اتنا ہی کافی تھا  کہ ہم جس چیز کی تبلیغ کرنا چاہتے اس سے صحیح طور پر آشنا ہوں جو ایسا ہوتا تھا  اسے ایک اچھا  مبلغ کہا جاتا تھا  ۔ لیکن آج اگر پوری دنیا اور کم از کم اپنے معاشرے کے حالات سے اچھی  طرح واقف نہ ہوں تو ہم ایک اچھے  مبلغ نہیں بن سکتے چاہے اس موضوع کے بارے میں ہماری معلومات کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں ۔
آج ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں جو بات کہنی ہے وہ کہاں سے مربوط ہوتی ہے ۔ عالمی سطح پر یا ملکی سطح پر ۔ یہ کس گروہ کے حق میں ہے اورکس گروہ کےخلاف ،بالکل ایک میدان جنگ کی طرح ۔کبھی  انسان ایک دشمن سے روبرو ہوتا ہے اور دفاع کرتا ہے یہ دفاع کی ایک قسم ہے ۔ اور کبھی  چند کلو میٹر کا پورا مورچہ اس سے رو برو ہوتا ہے اور وہ دفاع کرنا چاہتا ہے ہر دفاع کی نوعیت دوسری ہوگی ۔کبھی مصلحت آگے بڑھنے کی ہوتی ہے اور کبھی  پیچھے ہٹنے کی ۔ کبھی  ایسا بھی  ہوتا ہے کہ انسان یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ وہ دشمن پر حملہ کر رہا ہے لیکن در حقیقت وہ خود کو نشانہ بنائےہوتا ہے ۔ (۴۰)

 زمانے کی ضرورت کو پہچانیں

یہ راہ جاری ہے ۔ اب کون اس مشینری کو ، اس تحریک اور اس شگفتہ و شاداب قافلہ کو آگے بڑہائے گا ؟
( اس کا جواب ہے ) مبلغ حضرات جن میں سر فہرست انبیائے الٰہی اور بندگان صالح تھے  ۔ بالکل ایک شمع کی طرح جو پروانوں کو متحرک کرتی رہتی ہے ۔
چون شمع تازیانھ ای پروانھ ایم ما عشاق را بھ تیغ زبان گرم می کنیم
ایک مبلغ اپنی زبان ، اپنے دل ، اپنی جان ، اپنی روح ، اپنی ہمت اور اپنی روشن نگاہ کے ساتھ  آگے بڑھتا  ہے ۔ ہر زمانے میں دینی مبلغ کا ہنر یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو اس کی ضرورتوں سے آگاہ کرے ۔ اس لئے زمانے کی ضرورتوں کی شناخت بہت ضروری ہے ۔ معیارات بہت اہمیت رکھتے  ہیں۔ شیطان اہل دین کی جماعتوں میں ہمیشہ تحریف کا سہارا لیتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا  ہے ۔ اگر اس کے لئے یہ کہتا ممکن ہوتا کہ " دین کو چھوڑ  دو " تو وہ ایسا ہی کرتا ہے  تا کہ شہوتوں اور مضر پروپیگنڈوں سے لوگوں کے دینی ایمان کو سلب کر لے ۔ اگر اس سے یہ کام نہ ہوسکے تو دین کی چیزوں کو الٹا بنا کر پیش کرتا ہے ۔ جیسے آپ ایک سڑک پر چلے جا رہے ہوں ( آپ کو کسی ایسی جگہ جانا ہو جہاں کا راستہ خود آپ کو معلوم نہ ہو ۔ اب سڑک پر اس راستے کی راہنمائی کے لئے کوئی راہنما پتہر لگایا گیا ہو لیکن کوئی خائن آکر اس پتہر کا رخ دوسری طرف موڑ دیتا ہے ۔ ( ۴۲ )

 منبرکا بیان انسان ساز اور فکر ساز ہونا چاہئے

واقعہ عاشورا کو صرف تاریخ میں نہیں سمجھ نا چاہئے بلکہ ہر زمانے میں دیکھ نا چاہئے، یزیدی شخصیت کے عناصر کہاں پائے جاتے ہیں پھر  اس وقت اس  کےمقابلے میں حسینی شخصیت کے عناصر کو میدان میں اتارنا چاہئے ۔ لہٰذا معرفت اور شناخت نہایت ضروری ہے ۔ انجمنوں ، مجالس اور عزاداریوں کی ایک ذمہ داری اسی مسالہ کی تبیین و توضیح ہے ۔
البتہ ان کی دوسری ذمہ داری قرآن ، دین اور ان اسلامی معارف کے بیان کی ذمہ داری ہے جن پر امام حسین قربان ہوئے ۔ امام حسین ( ع ) اور دیگر ائمہ نے اپنے آپ کو فدا کیا تا کہ یہ معارف باقی رہیں ۔ ان مجالس میں یہ چیزیں بتائی جانی چاہئیں ۔ آپ ان مجالس کا ان نشستوں سے موازنہ کیجئے جن میں ایک انسان دو گہنٹے تک بیٹھتا  ہے لیکن آخر میں دیکھتا ہے کہ اسے کچھ  حاصل نہیں ہوا ۔ ہماری بعض مجالس بھی  ایسی ہی ہیں ۔ لہٰذا صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مجالس ہو بلکہ اس میں مجلس کی روح بھی  ہونا چاہئے اب یہ کیسے حاصل ہوگی ؟
( اس طریقہ یہ ہے کہ ) سب سے پہلے آپ کے اہل منبر اور آپ کی مجالس کارساز ہوں ۔ یعنی اس طرح کی مجالس ہوں کہ اگر ایک انسان تین سال تک آپ کی مجالس میں شرکت کرے تو تین سال بعد وہ ایک عام آدمی نہ ہو بلکہ وہ ایک آگاہ ، آشنا اور معلومات رکہنے والا انسان ہو ۔ منبر کو انسان ساز اور فکر ساز ہونا چاہئے ۔ البتہ یہ بات مجھے  منبروں پر بھی  کہنی چاہئے اور کہتا بھی  ہوں ۔ لیکن آپ لوگوں سے کہنا بھی  ضروری سمجھ تا ہوں کیونکہ آپ خطیب کا انتخاب کرتے ہیں ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خود نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ میں بھی  جدید حسینی مسائل ،معرفت و آگاہی کی فضا ہونا چاہئے ۔ شاید آپ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہوا اور ممکن ہے بہت سے افراد کو یاد نہ ہو کہ انقلاب سے پہلے کا آخری محرم ایسا تھا  کہ اس میں جو نوحے وغیرہ پڑھے  جاتے تھے  اور ان کی جو کیسٹیں نشر ہوتی تھیں وہ ایسے نوحے ہوتے تھے  جن میں طاغوتی نظام کی مذمت پائی جاتی تھی  ۔ مجھے  اس زمانے میں شہر بدر کر دیا گیا تھا  شیراز اور رفسنجان سے میرے لئے یہ کیسٹیں لائی گئیں اور میں نے سنا ۔ آپ ان کیسٹوں کو سنیں ۔ عزاداری اس طرح کی ہونی چاہئے ۔ ان دنوں مجالس میں برسر اقتدار طاغوتی نظام کی بات ضرور ہوتی تھی ۔ آج الحمد للہ طاغوتی نظام نہیں ہے ۔ لیکن بہت سی دوسری باتیں اور موضوعات ہیں جنہیں بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ تمام مسائل جن کی طرف آج اسلامی جمہوریہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے دین کے بنیادی مسائل ہیں اور سب کے سب حسینی بھی  ہیں مثلاً عدالت ، برائیوں سے مقابلہ ، عالمی استکبار سے جنگ ، بے انصافی سے مقابلہ صالح افراد انتخاب اور ان کو محور بنانے کا مسألہ وغیرہ یہ سب مسائل ہمارے ماتمی دستوں میں آنا چاہئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب نوحہ ، مصائب ، گریہ اور نالہ و شیون سے سازگاری رکھتے  ہیں ؟ جی ہاں ! اس لئے کہ یہ تمام چیزیں واقعہ کربلا کے عناصر ہیں ۔ یہ ایک عجیب اور چند عناصر کی ترکیب ہے ۔ ( ۴۳ )

 اس تبلیغ کا مقصد انسان سازی ہے

ہماری تبلیغ میں ان تینوں عناصر یعنی عطوفت ، منطق اور حماسہ کا اہم رول ہونا چاہئے ۔ صرف جذباتی پہلو کو اجاگر اور عقل و منطق کے پہلو کو نظر کرنا کربلا کے واقعہ میں پوشیدہ ہے اس تحریک کومحدود کرنے کے مترادف ہے اور اسی طرح حماسہ کے پہلو کو نظر انداز کرنا بھی  اس عظیم واقعہ کو چھوٹا کرنے اور ایک قیمتی گوہر کو توڑنے کے مترادف ہے ۔ تمام خطباء مقررین اور شعرا کو اس نکتہ کی توجہ دینی چاہئے ۔
تبلیغ کا کیا مطلب ہے ؟ تبلیغ یعنی پہونچانا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہونچایا جائے ۔ کہاں پہنچایا جائے ؟ کان تک پہنچایا جائے ؟ جی نہیں ! بلکہ دل تک پہنچایا جائے ! ہماری بعض تبلیغیں کانوں تک بھی  نہیں پہنچتیں ۔ کان بھی  انہیں درک نہیں کر پاتے ۔ جب کان نے درک کرلیا تو وہ ذہن کے حوالے کرتا ہے ۔ صرف یہیں تک محدود نہ رہا جائے بلکہ یہ پیغام دل تک پہنچے ، اس میں راسخ ہوجائے اور سامع کے اندر ایک انقلاب آجائے ۔ یہ ہے تبلیغ کا مقصد ہم اس لئے تبلیغ کرتے ہیں تاکہ جس موضوع کو بیان کر رہے ہیں وہ مخاطب کے دل میں اتر جائے ۔ اور وہ موضوع کیا ہو ؟ ہر وہ چیز جو امام عالی مقام کی جان ، عزت و ناموس اور اہل حرم کی نظر میں ایک قدر کے عنوان سے پہچانا گیا ۔ اگر چہ تمام انبیائے الٰہی ، اولیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی سب نے یہی کیا لیکن اس کا مظہر کامل حسین ابن علی کی شخصیت ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دینی اقدار ، دینی اخلاق اور ان تمام چیزوں کی تبلیغ کریں جو دین کی بنیاد پر انسانی شخصیت میں اثر انداز ہوتی ہیں تاکہ ہمارا مخاطب اسی دینی شخصیت میں بدل جائے ۔ آپ قرآن کریم کی آیات کودیکھیں ( تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ) انسان سازی ہی اس تبلیغ کا مقصد ہے اور یہ بہت بڑا کام ہے ۔ ( ۴۴ )

 برا دفاع ، خطرناک ہے

مخاطب کے دل و دماغ اور فکر و روح کو تعمیر ، آباد اور سیراب کرنا چاہئے ۔ البتہ اس کے لئے ایک باطنی سر چشمہ کی ضرورت ہے ۔ ہمارے اندر کچھ  ہونا چاہئے تاکہ مخاطب پر اثر انداز ہو ورنہ یہ کام نا ممکن ہے ۔ اور وہ باطنی سرچشمہ ہے عقل و منطق ۔ ہمارے پاس سالم عقل و منطق ہونی چاہئے تاکہ کوئی ہے معنی بات نہ کہیں ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ناقص اور برے دفاع کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے بالکل صحیح کہتے ہیں ۔ جب دین کا دفاع کمزور اورغیرمحکم ہوگا تو اس کا اثر خود دین پر حملہ کرنے سے زیادہ خطرناک ہے ۔ ہمیں اس سے خدا کی پناہ مانگنا چاہئے ۔ ہم جو کچھ  بھی  تبلیغ کے نام پر کہہ رہے اس میں ہرگز کوئی عبث ، بے معنی اور بچکانہ بات نہیں ہونی چاہئے ۔ کبھی  ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میں کوئی ایسی حکمت یا اخلاقی بات ہوتی ہے جس کی کوئی سند نہیں ہوتی ۔ یہاں سند کی ضرورت نہیں ہے اسے بیان کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن کبھی  ایک ایسی بات ہوتی ہے جو مخاطب کے فہم و تصور سے بہت بعید ہوتی ہے ایسی بات نہیں کہنی چاہئے کیونکہ یہ بات اسے اصل مطلب سے بھی  دور کردے گی اور اس کے دل و دماغ میں دین اور اس مبلغ دین کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی اور وہ یہ تصور کرے گا کہ اس کے پاس عقل و منطق نام کی کوئی چیز نہیں ہے جب کہ ہمارے کام کی بنیاد منطق ہے ۔ لہٰذا منطق اس تبلیغ کا اصل عنصر ہے ۔ ( ۴۸ )

 بیان ہنر مندانہ ہونا چاہئے

میری نظر میں منبر کی بہت اہمیت ہے ۔ آج انٹرنیٹ ، سیٹلائٹ ، ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے کوئی منبر نہیں ہے ۔ منبر یعنی آمنے سامنے ہوکر گفتگو کرنا یہ اپنا ایک اہم اور واضح اثر رکھتا  ہے جو کسی بھی  دوسری چیز میں نہیں ہے ۔ اس کی حفاظت اور بقا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت اہم چیز ہے یہ البتہ بیان ہنر مندانہ ہونا چاہئے تاکہ اثر انداز ہو ۔ امام سجاد علیہ السلام ایک جگہ خداوند متعال سے فرماتے ہیں ( تفعل ذالک یا الٰھی بمن خوفھ اکثر من رجائھ لا ان یکون خوفھ قنوطا ) میرے اندر خوف امید سے زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں مایوس ہوں یہ ایک عام دستور العمل ہے جو بیان کیا جارہا ہے ۔ امید کے ساتھ  دل میں خوف بھی ہونا چاہئے بلکہ خوف زیادہ ہونا چاہئے۔
یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم صرف آیات رحمت کو پڑہیں ( جب کہ ان آیات بشارت میں سے بہت سی مومنین کے ایک خاص گروہ کے لئے ہیں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ) اور لوگوں کو غفلت کا شکار بنائیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوکہ لوگ اس خیال خام میں پڑجائیں کہ وہ معنویت میں غرق ہیں جب کہ وہ واجبات دین اور ضروریات دین سے غافل ہوں ۔ قرآن کریم میں بشارت مخصوص ہے مومنین سے لیکن انداز یعنی ڈراناسب کے لئے ہے ۔ انذار کا تعلق مومنین سے بھی  ہے اور کافرین سے بھی  ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رو رہے ہیں ایک شخص عرض کرتا ہے اے اللہ کے نبی خدا فرماتا ہے ( لیغفرک لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ) پھر  آپ رو کیوں رہے ہیں ؟ جواب دیا : ( اولا اکون عبدا  شکورا ) یعنی اگرمیں اس مغفرت کا شکر ادا نہ کروں تو مغفرت کی بنیاد کمزور ہوجائے گی بہر حال انذار ہمارے دل و سماعتوں پر حاکم ہونا چاہئے ۔ راستہ بہت دشوار ہے، انسان کو چاہئے کہ خود کو یہ راستہ طے کرنے اور منزل تک پہنچنے کے لئے تیار کرے ۔ ( ۴۹ )

 قمہ زنی ایک خلاف شریعت عمل ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات عزاداری کے سلسلے میں بے بنیاد ، غلط اور خرافاتی باتیں کہی جاتی ہیں ۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ بات غلط نہ بھی  ہو لیکن صحیح بات بھی  اگر غیر مستند اور بے بنیاد طور پر کہی جائے یا ایسی بات کہی جائے جو لوگوں کے ایمان کو کمزور کرتی ہو اور مخاطبین کی سمجھ  سے باہر ہو تو وہ بھی  نقصان دہ ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کوئی عالم یا کوئی ذمہ دار شخصیت ایک حق بات کہے تو یہ کہہ کر ایک تحریک کھڑی کی جائے کہ اس بات سے عزاداری پر حرف آرہا ہے ( اور عزاداری خطرے میں ہے ) جیسا کہ ہم نے دیکھا  کہ قمہ زنی کے معاملے میں ایسا ہی ہوا ۔ ہماری نظر میں قمہ زنی یقینی طور پر ایک خلاف شریعت عمل تھا  اور ہے ۔ ہم اس کا اعلان کر چکے ہیں اور علماء و بزرگان نے بھی  اس کی حمایت کی ہے لیکن بعد میں ہم نے دیکھا  کہ ملک کے بعض حصوں میں اس کا الٹا کیا جارہا ہے ۔ اگر قمہ زنی میں کوئی حرج  نہ بھی ہو اور حرام نہ بھی  ہو تب بھی  واجب تو نہیں ہے ۔ پھر  آخر ان چیزوں پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے جن میں سے بعض خرافات ہیں ؟ اور وہ کام بھی  جو محض خرافات نہیں ہیں وہ بھی  اس ٹیکنا لوجی کی دنیا میں، آج کے رائج تمدن اور ثقافت میں ہمارے گہروں ، جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں میں موجود عقلانیت پر الٹا اثر رکھتے  ہیں ۔ یہ شریعت کے واضحات میں سے نہیں ہیں کہ کہا جائے چاہے دنیا کو اچھا  لگے یا برا ہم تو کہیں گے ۔ ان چیزوں میں بہر حال شک و تردید پائی جاتی ہے ۔ ( ۵۰ )

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget