مداحی اور ذاکری ایک با فضیلت منصب


 مداحی اور ذاکری ایک با فضیلت منصب

میں بارہا یہ بات آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ مداحی اور ذاکری ایک با فضیلت اور با شرف مقام و مرتبہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آج بھی  بحمد للہ عوام بالخصوص جوانوں کا رجحان مداح حضرات کی طرف بہت اچھا  ہے ۔ آپ ملاحظہ کرتے ہوں گے کہ لوگ ان افراد کا استقبال کرتے ہیں ۔ ان سے عشق و لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کے لئے جمع ہوتے ہیں ، گفتگو کرتے ہیں انہیں پیسے دیتے ہیں یہ ایک منصب ہے ۔ منصب جس قدر حساس ہو ذمہ داری بھی  اتنی ہی بڑہ جاتی ہے ۔ اگر ہم کوئی غلطی کریں تو ہماری غلطی عام لوگوں جیسی غلطی نہیں ہے بلکہ بہت بڑی اور سنگین غلطی ہے ۔
اگر ہم خدا نخواستہ کسی کو ضلالت و گمراہی میں ڈالا تو وہ عام افراد کے ایسے ہی عمل سے فرق رکھتا ہے ۔ ایک مداح کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا کہہ پڑہ رہا ہے او رکیا کہہ رہا ہے ۔ بہترین آواز ، دل نشین ترنم ، غنیمت موقع جدید برقی وسائل اور پر جوش استقبال ، آج بھی  ہمارے جوانوں نے معاشرے اور ملک کو اپنے خالص دلوں سے پاک و صاف بنا کر رکھا  ہے ۔ اس ملک کے اس قدر جوان ، آپ سب مداحوں کے شیدائی ہیں ۔ اب آپ لوگوں کو کیا دینا چاہتے ہیں ۔ میں مختلف مواقع پر آپ کے طرز بیان اورمطالب پر جو زور دیتا ہوں اس کی وجہ یہی حساسیت ہے جو آپ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ ( ۵۵ )

 مداحی کا ہنر

جب شعر کی زبان سے لوگوں سے گفتگو ہوتی ہے ، اگر چہ شعر پیچیدہ ہی کیوں نہ ہو اور جب ایک مداح اپنے ہنر سے شعر کے ایک ایک لفظ کو سامع کے ذہن تک پہنچاتا ہے تو اس کا دل میں اثر ہوتا ہے ۔ بعض شعراء نے ماشاء اللہ ائمہ کی عبادت خضوع، جہاد ، تضرع ، انفاق اور جہاد کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ جیسا کہ آج بھی  بہت سے شعروں میں دیکھنے  کو ملا ۔ لہٰذا شعر کو بہترین ہنر کے ساتھ  پیش کیجئے کیونکہ یہ اثر انداز ہوتا ہے ایک اچھا  اور ہنر مندانہ شعر کی خاصیت عام ہنر کی طرح ہوتی ہے ۔ عام ہنر کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ کہنے والا بہت سی جگہ پر متوجہ ہو ئے  بغیر سننے والے کی اس کی طرف توجہ  ہوئے بغیر اثر انداز ہوتا ہے ۔ شعر ، آرٹ ، دلنشین آواز ، اچھا  ترنم اور ہنر کی دوسری اقسام غیر شعوری طور پر مخاطب پر اثر انداز ہوتی ہیں یعنی بغیر اس کے کہ مخاطب متوجہ ہو اپنا اثر چھوڑ تی ہے ۔ یہ تاثیر کی سب سے اچھی  قسم ہے ۔ آپ  ملاحظہ فرمائیں کہ خداوند متعال نے سب سے بلند معارف کو بیان کرنے کے لئے سب سے زیادہ فصیح کلام کا انتخاب کیا یعنی قرآن مجید ۔ خدائے دانا و توانا ان معارف اور قرآن کو معمولی پیراے میں بھی  بیان کرسکتا تھا  ، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے اسے سب سے زیادہ فصیح ، بلیغ ، خوبصورت اور ہنر مندانہ انداز میں بیان کیا جس کے لئے خود قرآن کہتا ہے کہ تم میں سے کوئی اس ہنر اور اس قالب کا کلام نہیں لاسکتا ۔ اگر چہ مطلب واضح اور آشکار ہے ۔ نہج البلاغہ کے خطبوں کو دیکھ ئے ۔ حسن و جمال کا ایک مرقع ہے ۔ امیر المومنین معمولی انداز میں بھی  اسے بیان کر سکتے تھے  لیکن ایسا نہیں کرتے بلکہ ہنر کا استعمال کرتے ہیں ۔
" و بعد فنحن امراء الکلام " خود ان ہستیوں کا کہنا تھا  کہ ہم بادشاہ سخن ہیں اور یقینا ایسا ہی تھا  یہ سب کے سب بادشاہان سخن تھے  ۔ ( ۵۶ )

 صرف چشم و ابرو

ایک اور چیز جس کی حقیر کو اطلاع ملی ہے وہ بعض مداحوں کی طرف سے کی جانے والی بے جا مدح و ثنا ہے جو بسا اوقات مفید ہونے کے بجائے مضر بھی  ہوتی ہے ۔ فرض کریں جناب ابو الفضل العباس سے متعلق گفتگو ہو رہی ہے اب مداح ان کی چشم و ابرو کی تعریف کرنا شروع کرے مثلا آپ کیآنکھوں پر قربان جاؤں ۔ کیا دنیا میں خوبصورت آنکھوں کی کمی ہے ؟ کیا آپ نے جناب عباس کو دیکھا  ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کی آنکھیں  کیسی تھیں ؟ یہ سب چیزیں تشیع کے بلند و عالی معارف کی سطح کو نیچے لے آتی ہیں ۔ تشیع کے معارف بہت کمال و عروج پر ہے ۔ ہمارے شیعہ معارف ایسے ہیں کہ جو ہینری کاربن جیسے مغرب میں پرورش یافتہ اور مغربی فلسفہ اور افکار سے آشنا فلسفی کو علامہ طباطبائی کے سامنے زانوے ادب تہہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ وہ ان معارف کے آگے سر جھکا دیتاہے اور پھر  وہ یورپ میں شیعہ معارف کا مروج بن جاتا ہے ۔ شیعہ تعلیمات کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ایک عام اور درمیانی سطح سے لیکر بڑے بڑے فلاسفہ کی اعلیٰ سطح تک ۔ ہمیں ان تعلیمات کے ساتھ  مذاق نہیں کرنا چاہئے ۔ جناب عباس علیہ السلام کی فضیلت ان کے جہاد ، ان کی فدا کاری ان کے اخلاص اور اپنے امام کے سلسلے میں ان کی معرفت میں ہے ۔ان کی فضیلت ان کے صبر و استقامت میں ہے۔ پیاس کی شدت میں لب دریا ہونے کے باوجود پانی کو منہ نہ لگانے میں ہے جب کہ شرعا اور عرفا ان کے لئے پابندی نہیں شہدائے کربلا کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے سخت ترین حالات میں ، جتنے سخت تصور کئے جاسکتے ہوں حریم حق کا دفاع کیا ۔
یہاں انسان حاضر ہے کہ ایک عظیم جنگ میں ( جہاں وہ بظاہر مغلوب ) جائے اور ممکن ہے مارا بھی  جائے ، جو کہ بہت بڑا مقام ہے ،اور یہ سب کے بس کی بات نہیں ہے خدا کی راہ میں جہاد کرنے اور شہید ہونے والے بہت کم ہیں ۔ ہمارے زمانے میں بھی  بہت سے شہدا نمایاں اور عظیم تھے  ۔ لیکن ان حالات میں شہید جو میدان کربلا  کے شہیدتھے  ، غربت کا وہ عالم ، وہ سختیاں ، وہ پیاس کی شدت اور مصائب و آزار کی وہ آماجگاہ، ان میں اور آج میں بہت فرق ہے ۔
جناب عباس ، جناب حبیب ابن مظاہر اور جناب جون جیسے افراد کی فضیلت ان سب چیزوں میں ہے ۔ نہ کہ ان کے رشد قد اور طاقتور بازووں میں ۔ رشید قد کے مالک دنیا میں بہت ہیں ، شڈول اور مضبوط جسم رکھنے والے ورزشکار افراد بہت ہیں ۔ معنوی معیاروں میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کبھی  انہیں تعبیروں اور تعریفوں پر زور دیا جاتا ہے ۔ ایک شاعر اپنی تیس چالیس اشعار کی ایک نظم میں جناب عباس کے حسن و جمال کا بھی  تذکرہ کرتا ہے یہ الگ بات ہے اس سلسلے میں بھی  ہمیں بہت سخت اور خشک مزاج نہیں ہونا چاہئے لیکن ہم صرف ان کی کمان جیسی بہووں ، قلمی ناک ، باخمارآنکھوں جیسی باتیں کرنے لگیں تو یہ ان کی مدح و ثنا نہیں ہے بلکہ بسا اوقات یہ نقصان دہ بھی  ہے ۔ ( ۵۷ )

 میوزک ؟

عزاداری پیغام کی حامل ہونی چاہئے ۔ عشق و محبت اور لگاؤ کی حامل ہونی چاہئے ۔ جتنا ممکن ہوسکے نوحہ خوانی ، مرثیہ خوانی ، مصائب میں واقعہ کربلا کے مطالب بیان کئے جائیں اور ان واقعات کو اجاگر کیا جائے، البتہ  بعض جگہ ان چیزوں کی طرف بے توجہی یا کم توجہی برتی جارہی ہے ۔ جیسا کہ سننے میں آیا ہے کہ بعض انجمنوں میں سینہ زنی مجالس میں اب نوحے نہیں پڑھے  جاتے بلکہ ایک ساز بجایا جاتا ہے جس کی آواز پر سینہ زنی ہوتی ہے یہ ایک غلط کام ہے ۔ آواز ، دہن اور میوزیک کوئی رول نہیں رکھتے  ۔ ( یہ سب اس وقت ایک رول ادا کر سکتے ہیں ) جب عاشور کے حقائق کو منعکس اور بیان کرسکیں ۔ عاشور کے حقائق لوگوں کے لئے بیان ہونے چاہئیں۔ اس کو اہمیت دیجئے ۔ ورنہ صرف کچھ  بے معنی اشعار پڑہنا جس میں کربلا اور عاشور کا کوئی پیغام نہ ہو یا سرے سے کوئی شعر نہ پڑہنا بلکہ صرف ایک میوزک کے ساز پر ماتم کرنا ایک بے بنیاد اور غلط کام ہے ۔ البتہ ہر طرح کی میوزک اور موسیقی کے ہر آلے کا استعمال بھی  جائز اور حلال نہیں ہے ۔ موسیقی کے  ایسے بہت سے وسائل ہیں جن میں اشکال پایا جاتا ہے ۔ اب وہ کہیں  اوربھی  بجائے جائیں اور ماتمی دستوں میں بھی  بجائے جائیں تو جائز نہیں ہوں گے ۔ اس لئے جو چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ہے مواد اور مطالب ۔ البتہ مطالب کو ہنر کے ساتھ  پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اچھی  دہن ، اچھا  شعر ، اچھا ں بیان ، اچھی  آواز اور اسی طرح جائز اور حلال میوز ک یہ سب وہی ہنر ہیں جن کے ذریعہ مطالب کو ذہنوں تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔ (۶۰)

 مناقب اہل بیت

نوحوں کے اشعار جدید مضامین کے حامل ہونے چاہئیں ۔ کبھی  نوحے میں ایسے اشعار ہوتے ہیں جو تکرار ہی ہوتے ہیں مثلا ایک انسان کسی امام کو مخاطب کر کے کہے : مجھے  آپ سے محبت ہے ، البتہ اہل بیت سے محبت کا اظہار بہت اچھی  چیز ہے لیکن اگر یہی  چیزبالکل ایک انداز میں دس بار ، سو بار بیان کی جائے تو یہ تکراری چیز ہے اور اس میں کوئی پیغام نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اشعار کے مضامین ، بامعنی اور مفید ہوں ۔ یعنی آپ دیکھیں کہ آج ہمارے معاشرے ، ہماری جوان نسل اور ہمارے مخاطبین کو کن معارف کی ضرورت ہے، ان معارف اور تعلیمات کو شعر اور نوحہ کی صورت میں بیان کیا جائے اور یہ ممکن ہے ۔ یہ تصور نہ کیا جائے کہ یہ کام ناممکن ہے ۔ بہت سے شعرا ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ،یا کرسکتے ہیں ۔ تمام اسلامی تعلیمات کو شعر کے قالب میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔ ان تعلیمات میں سے ایک اہل بیت سے محبت کا احساس ہے ۔ انسان مناقب اہل بیت بیان کرے تاکہ دل میں ان کی محبت پیدا کرے یہ بہت اچھی  چیز ہے ۔
ایک اور تعلیم اہل بیت کے بلند مقام و مرتبہ کو بیان کرنا ہے ۔ البتہ ہماری رسائی ان تک نہیں ہے لیکن جہاں تک ممکن ہوسکے ان کے مقام و رتبہ کو اشعار میں بیان کیا جائے ۔ ان کا راستہ ، ان کا مقصد ، ان کا جہاد اور ان کی وہ توحید جس کی وہ تبلیغ کرنا چاہتے تھے  انسان زندگی کو صحیح رخ دیتی ہے ۔ ( ۶۱ )

 من گھڑت مصائب

بے معنی باتوں اور ظاہری عشق و عاشقی سے پرہیز کیجئے جو اندر سے بالکل خالی ہوتی ہیں ۔ حسینی اور اسلامی مفاہیم ، صبر ، جہاد ، تقوا ، پرہیزگاری اور آداب زندگی کو اپنے اشعار میں بیان کیجئے اور پڑہئے ۔ جہاں پر مصائب کی بات ہو صحیح مصیبت کا تذکرہ کیا جائے نہ کہ من گھڑت مصائب ۔
بعض خطبا ، شعرا اور ذاکرین ماحول اور مجمع کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ رقت طاری کرنے کے لئے جو ذہن میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ایک واقعہ پیش آیا ہے اب اس واقعہ کو صحیح بیان ہونا چاہئے ۔ غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے ۔ فضائل یا مصائب شروع کرنے سے پہلے کچھ  اخلاقیات بھی  بیان کئے جائیں ۔ اخلاق اور معرفت کے حامل اشعار پڑھے  جائیں البتہ اچھے  اور با معنی شعر نہ کہ بے معنی اور بے ربط اشعار ۔ بعض الحان اور دہنیں جنہیں "پاپ " کے نام سے جانا جاتا ہے ؟ کیوں ؟ میں اس لہجہ کا مخالف نہیں ہوں جو نیاہو لیکن تقلید کیوں ؟ جس انسان کے اندر خودایجاد کی صلاحیت  پائی جاتی ہے وہ ایک بےسر و پا گلوکار مثلا ایک اسپینی یا آرجنٹائنی کی تقلید کرے کس لئے ؟ اور وہ بھی  اتنے اہم اور اعلیٰ معارف میں انسان ایک مہمل اور بے کار چیز کے ذریعہ اپنے سننے والوں کو اپنے جوانوں کو منحرف کرے یہ صحیح نہیں ہے ۔
مضامین مفکرانہ ، عمیق ، با معرفت اور پر جوش ہونا چائیں یعنی احساسات اس میں ضرور ہونا چاہئیں تاکہ وہ لطیف اور شیریں ہوجائیں ۔ ( ۶۲ )

 لوگوں کو آزار و اذیت پہنچاناحرام ہے

عزاداران امام مظلوم سے میری ایک نصیحت یہ ہے کہ لوگوں کی ناراضگی اور ان کی اذیت کا سبب نہ بنیں ۔ امام خمینی ( رح ) ہمیشہ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے  کہ راتوں میں یہ لاؤڈاسپیکر لوگوں کی اذیت کا سبب نہیں ہونے چاہئیں ۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہم امام حسین ( ع ) کی عزاداری منا رہے ہیں کسی کو نیند نہیں آتی تو نہ آئے ۔ یہ بات کسی بھی  صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ بعض لوگ مائک پر جاکر سینہ زنی کرتے ہیں آخر کس لئے ؟ یا اگر نوحہ خوانی ، مرثیہ خوانی یا تقریر کرنا ہے تو سامعین کے درمیان ہونا چاہئے ۔ سڑکوں پر ، چہتوں پر بازاروں اور محلے میں تو کوئی سننے والا نہیں ہوتا ۔ اس مقرر کو سننے والے افراد مجلس میں بیٹھے  ہوتے ہیں اگر مائک اور لاؤڈاسپیکر کی ضرورت ہے تو وہاں رکھا  جائے ۔ مجلس سے باہر آدہی رات کو گھنٹوں لوگوں کو اذیت پہنچانا ، کسی بیمار کی نیند خراب کرنا اس کا کسی بھی  اسلامی اور حسینی منطق سے سروکار نہیں ہے ۔ اگر آپ نے اس وقت جو لوگوں کے سونے اور آرام کرنے کا وقت ہے ( دن کے وقت اور اول شب کا وقت میری مراد نہیں ہے ) اپنے نوحے سے کسی کو اذیت پہنچائی تو آپ نے حرام اور خلاف شریعت کام انجام دیا ہے ۔ ( ۶۳ )
اگر آپ کو باہر اسپیکر لگانا ہے تو محلے والوں کا راضی ہونا ضروری ہے اگر وہ راضی نہ ہوں تو اسپیکر نہ لگایا جائے خاص کر رات میں دیر تک اس بات کی اجازت نہیں ہونا چاہئے اور حکومت کے ذمہ دار افراد کو اس کی روک تھا م بھی  کرنا چاہئے ۔
عزیزو ! توجہ کریں کہ حسین ابن علی علیہما السلام خدا کے لئے قیام کرنے کا ایک مظہر تھے  ۔ مظہر تقوا تھے  اور آپ جو بھی  کر رہے ہوں وہ بھی  مظہر تقویٰ ہونا چاہئے ۔ اور میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ عزاداری امام حسین میں تقوائے الٰہی کا خیال رکہئے کیونکہ یہ عمل خود تقوے کا مصداق کامل ہے عزاداری کے کاموں اور اس کی خصوصیات میں خدا نخواستہ تقوے سے دور نہ ہوئیے ۔ ( ۶۶ )

 مثبت شبیہ خوانی

بعض ایسے کام جن میں حقیقت کا رنگ و بو نہیں اور وہ کوئی معنی و مفہوم نہیں رکھتے ،ہماری نظر میں ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ ان میں سے ایک کام بعض شبیہ خوانیاں ہیں ۔ ہم شبیہ خوانی کے مخالف نہیں ہیں لیکن شبیہ خوانی ، مثبت، صحیح اور حقیقت کے مطابق ہونی چاہئے ۔ بعض ضعیف روایات کی شبیہ خوانی سے کیا حاصل ؟!
مثلا شیر اور جناب فضہ کا قصہ جس کی بنیاد اور اصل بھی  کسی کو معلوم نہیں ہے ۔ اب بعض لوگ آئیں اور اس قصہ کی شبیہ خوانی کریں ایک شیر بنائیں اور شروع ہوجائیں ۔ وہ اس شیر سے کیا دکھانا  چاہتے ہیں ۔یہ واقعہ عاشورا کے کس پہلو کو اجاگر کرتا  ہے ؟یہ دیکھنے  میں آتا ہے کہ بعض ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جنہیں ٹیلی ویژن بھی  کبھی  کبھی  دکھاتا  ہے ۔ شبیہ خوانی ایک اچھی  چیز ہے لیکن اسی وقت جب واقعیت اور حقیقت سے ہم آہنگ ہو ۔
شبیہ خوانی ایک نمائش اور ایک ڈرامہ کی طرح ہے جو عام بیان سے بالکل مختلف ہے لیکن اچھی  اور مثبت ہونا چاہئے ۔ اس میں جھوٹ  نہیں ہونا چاہئے ۔ حقیقت کے خلاف پہلو نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسا ہونا چاہئے جو لوگوں کے لئے حقائق بیان       کرے ۔ ( ۶۴ )

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget