حسيني تحريک کا خلاصہ
انساني جہالت اور پستي کے خلاف جنگ!
امام حسين کي زيارت اربعين ميں ايک جملہ ذکر کيا گيا ہے جو مختلف زيارتوں اور دعاوں کے جملوں کي مانند قابل تآمّل اور معني خيزجملہ ہے اور وہ جملہ يہ ہے ’’وَ بَذَلَ مَھجَتَہُ فِيکَ‘‘ ، يعني زيارت پڑھنے والا خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ امام حسين نے اپني پوري ہستي اور دنيا ، اپني جان اور خون کو تيري راہ ميں قربان کرديا‘‘؛’’لِيَستَنقِذَ عِبَادِکَ مِنَ الجَھَالَۃِ وَحَيرَۃِالضَّلَالَۃِ‘ ،’’تاکہ تيرے بندوں کو جہالت سے نجات دلائيںاور ضلالت و گمراہي کي حيرت و سرگرداني سے اُنہيں باہرنکاليں‘‘۔ يہ اِس حقيقت کا ايک رُخ ہے يعني يہ حسين ابن علي ہے کہ جس نے قيام کيا ہے۔ اِس حقيقت کا دوسرا رخ جسے اِس زيارت کا اگلا جملہ بيان کرتا ہے، ’’وَقَد تَوَازَرَ عَلَيہِ مَن غَرَّتہُ الدُّنيَا وَبَاعَ حَظَّہُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰٰٰٰي‘‘ ،اِس واقعہ ميں امام ٴکے مدِ مقابل وہ لوگ تھے جو زندگي و دنيا سے فريب کھا کر اپني ذات ميں کھو گئے تھے، دنياوي مال و منال، خواہشات نفساني اور شہوت پرستي نے اُنہيں خود سے بے خود کرديا تھا، ’’وَبَاعَ حَظَّہُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰي‘‘؛’’اُنہوں نے اپنے حصے کو کوڑيوں کے دام بيچ ڈالا‘‘۔ خداوند عالم نے عالم خلقت ميں ہر انسان کيلئے ايک خاص حصہ قرار ديا ہے اور وہ حصہ ،دنيا و آخرت کي سعادت و خوش بختي سے عبارت ہے۔ اِن لوگوں نے اپني دنيا و آخرت کي سعادت کو دنيا کي صرف چند روزہ فاني زندگي کے عوض فروخت کرڈالا۔ يہ ہے حسيني تحريک کا خلاصہ کہ ايک طرف وہ عظمت و بزرگي اور ايک طرف يہ پستي اور ذلت و رسوائي!
اِس بيان ميں غوروفکر کرنے سے انسان اِس بات کا احساس کرتا ہے کہ حسيني تحريک کو دو مختلف نگاہوں سے ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور يہ دونوں نگاہيں درست ہيں ليکن يہ دونوں نگاہيں مجموعاً اِس تحريک کے مختلف اورعظيم ابعاو جہات کي نشاندہي کرنے والي ہيں۔
ايک نگاہ امام حسين کي تحريک کي ظاہري صورت سے متعلق ہے کہ آپ ٴ کي يہ تحريک و قيام؛ ايک فاسق، ظالم اور منحرف يزيدي حکومت کے خلاف تھاليکن ظاہري و معمولي اور آدھے دن ميں ختم ہو جانے والي يہي تحريک درحقيقت ايک بہت بڑي تحريک تھي کہ جسے يہ نگاہ دوم بيان کرتي ہے اور وہ انسان کي جہالت و پستي کے خلاف امام ٴ کي تحريک ہے ۔صحيح ہے کہ امام حسين گرچہ يزيد سے مقابلہ کرتے ہيں ليکن يہ امام عالي مقام ٴ کاصرف يزيد جيسے بے قيمت اور پست انسان سے تاريخي اور عظيم مقابلہ نہيں ہے بلکہ انسان کي جہالت وپستي ، ذلت و رُسوائي اور گمراہي سے مقابلہ ہے اور درحقيقت امام ٴ نے اِن سے جنگ کي ہے۔
اِس بيان ميں غوروفکر کرنے سے انسان اِس بات کا احساس کرتا ہے کہ حسيني تحريک کو دو مختلف نگاہوں سے ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور يہ دونوں نگاہيں درست ہيں ليکن يہ دونوں نگاہيں مجموعاً اِس تحريک کے مختلف اورعظيم ابعاو جہات کي نشاندہي کرنے والي ہيں۔
ايک نگاہ امام حسين کي تحريک کي ظاہري صورت سے متعلق ہے کہ آپ ٴ کي يہ تحريک و قيام؛ ايک فاسق، ظالم اور منحرف يزيدي حکومت کے خلاف تھاليکن ظاہري و معمولي اور آدھے دن ميں ختم ہو جانے والي يہي تحريک درحقيقت ايک بہت بڑي تحريک تھي کہ جسے يہ نگاہ دوم بيان کرتي ہے اور وہ انسان کي جہالت و پستي کے خلاف امام ٴ کي تحريک ہے ۔صحيح ہے کہ امام حسين گرچہ يزيد سے مقابلہ کرتے ہيں ليکن يہ امام عالي مقام ٴ کاصرف يزيد جيسے بے قيمت اور پست انسان سے تاريخي اور عظيم مقابلہ نہيں ہے بلکہ انسان کي جہالت وپستي ، ذلت و رُسوائي اور گمراہي سے مقابلہ ہے اور درحقيقت امام ٴ نے اِن سے جنگ کي ہے۔
امامت کي ملوکيت ميں تبديلي
اسلام کے ہاتھوں ايک آئيڈيل حکومت کي نبياد رکھي گئي ،اگر ہم اِس تناظر ميں واقعہ کربلا اور تحريک حسيني کا خلاصہ کرنا چاہيں تو اِ س طرح بيان کرسکتے ہيںکہ امام حسين کے زمانے ميں بشريت؛ ظلم و جہالت اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں پس رہي تھي اور دنيا کي بڑي بڑي حکومتيں خواہ وہ ايراني شہنشائيت ہو يا رومي سلطنت و بادشاہت، سب کي سب غير عوامي ، عياشي، ظلم و ستم اور جہالت و برائيوں کي حکومتيں تھيں۔
اِسي طرح نسبتاً چھوٹي حکومتيں جو جزيرۃ العرب ميں قائم تھيں، اُن سے بدتر تھيں غرضيکہ پوري دنيا پر جہالت کے سياہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اِس ظلمت و تاريکي ميں نور اسلام نے پيغمبر خدا ۰ کے وسيلے، امداد الٰہي اور عوام کي طاقت فرسا جدوجہد کے ذريعہ جزيرۃ العرب کے ايک علاقے کو منور کيا، بعد ميں يہ نور آہستہ آہستہ پھيلتا رہا اوراُس نے ايک وسيع و عريض علاقے کو منور کرديا۔
جب حضرت ختمي مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کي يہ حکومت ايسي حکومت تھي جو تاريخ بشريت ميں سب کيلئے ايک آئيڈيل تھي اور اگر وہ حکومت اُسي طرح باقي رہتي تو بلاشک و شبہ وہ تاريخ کو تبديل کرديتي يعني جو کچھ صديوں کے بعد يعني امام زمانہ کے ظہور کے زمانے ميں ظہور پذير ہوتا وہ اُسي زمانے ميں وقوع پذير ہوجاتا۔ امام زمانہ کے ظہور کے بعد کي دنيا عدل و انصاف، پاکيزگي، سچائي اور معرفت و محبت کي دنيا ہے، اِس عالم ہستي کي حقيقي دنيا امام زمانہ کے ظہور کے بعد کے زمانے سے متعلق ہے کہ يہ صرف خدا ہے جانتا ہے کہ اُس وقت بشر کن عظمتوں اور فضيلتوں کو حاصل کرے گا۔ بنابراِيں ، اگر پيغمبر اسلام ۰ کي حکومت جاري رہتي تو تاريخ انسانيت تبديل ہوجاتي ليکن کچھ خاص حالات کي وجہ سے يہ کام انجام نہ پاسکا۔
پيغمبر اسلام ۰ کي حکومت کي خصوصيت يہ تھي کہ ُاس کي بنياديں ظلم و ستم کے بجائے عدل و انصاف ؛ شرک اور انساني فکر کو متفرق اور پرا کندہ کرنے کے بجائے توحيد اور پروردگار عالم کي بندگي پر تمرکز؛ جہالت کے بجائے علم و معرفت اور حسد وکينے کے بجائے انسانوں ميں محبت و ہمدردي اور مداراکرنے کے رابطوں کي بنيادوں پر قائم تھي۔ ايسي حکومت کے سائے ميں پرورش پانے والا انسان ؛باتقويٰ ، پاکدامن ، عالم ، بابصيرت، فعال، پُرنشاط، متحرک اور کمال کي طرف گامزن ہوگا۔ ليکن پچاس سال بعد حالات بالکل ہي بدل گئے، نام کا اسلام رہ گيا اور لوگ صرف ظاہري مسلمان تھے ليکن باطن ميں اسلام و اسلامي تعليمات کا دور دور تک کوئي نام و نشان نہيں تھا۔ عدل و انصاف کي حکومت کے بجائے ظالم حکومت برسر اقتدار آگئي، اُخوت و مساوات کي جگہ طبقاتي نظام اور گروہ بندي برا جمان ہو گئے اورنور ِمعرفت بجائے جہالت کے سياہ با دلوںنے لوگوں پر سايہ کرليا۔ اِن پچاس سالوں ميں آپ جتنا آگے کي طرف جاتے جائيں گے اور اگر انسان ايسي مثاليں ڈھونڈنا چاہے تو ايسے سينکڑوں مثاليں موجود ہيں جنہيں اہل تحقيق ،نوجوان نسل کيلئے بيان کرسکتے ہيں۔
اِسي طرح نسبتاً چھوٹي حکومتيں جو جزيرۃ العرب ميں قائم تھيں، اُن سے بدتر تھيں غرضيکہ پوري دنيا پر جہالت کے سياہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اِس ظلمت و تاريکي ميں نور اسلام نے پيغمبر خدا ۰ کے وسيلے، امداد الٰہي اور عوام کي طاقت فرسا جدوجہد کے ذريعہ جزيرۃ العرب کے ايک علاقے کو منور کيا، بعد ميں يہ نور آہستہ آہستہ پھيلتا رہا اوراُس نے ايک وسيع و عريض علاقے کو منور کرديا۔
جب حضرت ختمي مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کي يہ حکومت ايسي حکومت تھي جو تاريخ بشريت ميں سب کيلئے ايک آئيڈيل تھي اور اگر وہ حکومت اُسي طرح باقي رہتي تو بلاشک و شبہ وہ تاريخ کو تبديل کرديتي يعني جو کچھ صديوں کے بعد يعني امام زمانہ کے ظہور کے زمانے ميں ظہور پذير ہوتا وہ اُسي زمانے ميں وقوع پذير ہوجاتا۔ امام زمانہ کے ظہور کے بعد کي دنيا عدل و انصاف، پاکيزگي، سچائي اور معرفت و محبت کي دنيا ہے، اِس عالم ہستي کي حقيقي دنيا امام زمانہ کے ظہور کے بعد کے زمانے سے متعلق ہے کہ يہ صرف خدا ہے جانتا ہے کہ اُس وقت بشر کن عظمتوں اور فضيلتوں کو حاصل کرے گا۔ بنابراِيں ، اگر پيغمبر اسلام ۰ کي حکومت جاري رہتي تو تاريخ انسانيت تبديل ہوجاتي ليکن کچھ خاص حالات کي وجہ سے يہ کام انجام نہ پاسکا۔
پيغمبر اسلام ۰ کي حکومت کي خصوصيت يہ تھي کہ ُاس کي بنياديں ظلم و ستم کے بجائے عدل و انصاف ؛ شرک اور انساني فکر کو متفرق اور پرا کندہ کرنے کے بجائے توحيد اور پروردگار عالم کي بندگي پر تمرکز؛ جہالت کے بجائے علم و معرفت اور حسد وکينے کے بجائے انسانوں ميں محبت و ہمدردي اور مداراکرنے کے رابطوں کي بنيادوں پر قائم تھي۔ ايسي حکومت کے سائے ميں پرورش پانے والا انسان ؛باتقويٰ ، پاکدامن ، عالم ، بابصيرت، فعال، پُرنشاط، متحرک اور کمال کي طرف گامزن ہوگا۔ ليکن پچاس سال بعد حالات بالکل ہي بدل گئے، نام کا اسلام رہ گيا اور لوگ صرف ظاہري مسلمان تھے ليکن باطن ميں اسلام و اسلامي تعليمات کا دور دور تک کوئي نام و نشان نہيں تھا۔ عدل و انصاف کي حکومت کے بجائے ظالم حکومت برسر اقتدار آگئي، اُخوت و مساوات کي جگہ طبقاتي نظام اور گروہ بندي برا جمان ہو گئے اورنور ِمعرفت بجائے جہالت کے سياہ با دلوںنے لوگوں پر سايہ کرليا۔ اِن پچاس سالوں ميں آپ جتنا آگے کي طرف جاتے جائيں گے اور اگر انسان ايسي مثاليں ڈھونڈنا چاہے تو ايسے سينکڑوں مثاليں موجود ہيں جنہيں اہل تحقيق ،نوجوان نسل کيلئے بيان کرسکتے ہيں۔
امامت و ملوکيت کا فرق!
خدا وند عالم کا عطا کردہ’’ ہدايت کانظام امامت‘‘ ؛ ملوکيت وسلطنت ميں تبديل ہوگيا! نظام امامت کي حقيقت و اصليت؛ سلطنت و ملوکيت کے نظام کي حقيقت و جوہر سے مختلف ہے، اُس سے مکمل طورپر تناقض رکھتي ہے اور يہ دونوں ايک دوسرے کي ضد ہيں۔ امامت يعني روحاني اور معنوي رہبري و پيشوائي، لوگوں سے ايک قلبي اور اعتقادي رابطہ ليکن ملوکيت و سلطنت يعني ظلم و قدرت اور فريب کي حکومت کہ جس ميں عوام اور حکومت ميں کوئي قلبي ، معنوي اور ايماني رشتہ و رابطہ قائم نہيں ہوتااور يہ دونوں بالکل ايک دوسرے کے مدّ مقابل ہيں۔ امامت؛ امّت کے درميان، امت کیلئے اور امت کي خير و بھلائي کيلئے ايک رواں اور شفاف چشمہ ہے جبکہ ملوکيت و سلطنت؛ عوام کي مصلحت پر زور زبردستي کا راج، سلطنت يعني خاص افراد کي فلاح و بہبود کي حکومت اور حکام و سلاطين کيلئے ثروت اندوزي اور شہوت راني کے وسائل فراہم کرنے کے امکانات! ہم امام حسين کے زمانے حکو مت کي جتني تصويريں ديکھتے ہيں ہميں ہر طرف ملوکيت و سلطنت ہي نظر آتي ہے۔
جب يزيد برسر اقتدار آيا تو اُس کا لوگوں سے نہ کوئي رابطہ تھا اور نہ وہ علم و پرہيز گاري اور پاکدامني اور تقويٰ کي الف ب سے واقف تھا؛راہ خدا ميں جہادکرنے کااُس کانہ کوئي سابقہ تھا اور نہ ہي وہ معنويت و روحانيت پر يقين و اعتقاد رکھتا تھا؛ نيزنہ اُس کا کردار ايک مومن کے کردارکي مانند تھا اور نہ اُس کي گفتارايک حکيم و دانا کي گفتار تھي اور سنتِ رسول ۰ سے اُس کا دور دور کاکو ئي واسطہ نہيں تھا۔ اِن حالات ميں حسين ابن علي کیلئے جو ايسے امام و رہبر تھے کہ جنہيں مسند رسول ۰پر بيٹھنا چاہيے تھا، ايسے حالات پيش آئے اور اُنہوں نے قيام کيا۔
جب يزيد برسر اقتدار آيا تو اُس کا لوگوں سے نہ کوئي رابطہ تھا اور نہ وہ علم و پرہيز گاري اور پاکدامني اور تقويٰ کي الف ب سے واقف تھا؛راہ خدا ميں جہادکرنے کااُس کانہ کوئي سابقہ تھا اور نہ ہي وہ معنويت و روحانيت پر يقين و اعتقاد رکھتا تھا؛ نيزنہ اُس کا کردار ايک مومن کے کردارکي مانند تھا اور نہ اُس کي گفتارايک حکيم و دانا کي گفتار تھي اور سنتِ رسول ۰ سے اُس کا دور دور کاکو ئي واسطہ نہيں تھا۔ اِن حالات ميں حسين ابن علي کیلئے جو ايسے امام و رہبر تھے کہ جنہيں مسند رسول ۰پر بيٹھنا چاہيے تھا، ايسے حالات پيش آئے اور اُنہوں نے قيام کيا۔
قيام امام حسين کا اصل ہدف
اگر اِس واقعہ کا ظاہري تجزيہ و تحليل کيا جائے تو بظاہر يہ قيام، ظلم کي بنيادوں پر قائم يزيد کي با طل حکومت کے خلاف تھا ليکن حقيقت ميں يہ قيام ؛اسلامي اقدار کے اِحيائ ، معرفت و ايمان کو جلادينے اور عزت کے حصول کيلئے تھا اور اِس کا مقصد يہ تھا کہ امت کوذلت و پستي ، رسوائي اور جہالت سے نجات دي جائے۔
لہٰذا يہي وجہ ہے کہ جب سيد الشہدا مدينہ تشريف لے جارہے تھے تو اپنے بھائي محمد ابن حنفيہ کے نام يہ تحرير لکھي، ’’اِنِّي لَمْ اَخرُج اَشِرًا وَ لاَ بَطِرَاً وَلاَ مُفسِدًا وَلَا ظَالِمًا اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي‘‘ ؛’’ميں غرورو تکبر ،فخر ومباہات اور ظلم و فساد کيلئے قيام نہيں کررہا ہوں،ميں ديکھ رہا ہوں کہ امت محمدي ۰کي حالت تبديل ہوگئي ہے اور لوگ غلط سمت اور انحطاط کي طرف حرکت کررہے ہيں اور اُس جانب قدم بڑھارہے ہيں کہ جو اسلام اور پيغمبر اکرم ۰ کي بتائي ہوئي سمت کے خلاف ہے اور ميں نے اِسي انحراف اور خرابي سے مقابلے کيلئے قيام کيا ہے‘‘۔
لہٰذا يہي وجہ ہے کہ جب سيد الشہدا مدينہ تشريف لے جارہے تھے تو اپنے بھائي محمد ابن حنفيہ کے نام يہ تحرير لکھي، ’’اِنِّي لَمْ اَخرُج اَشِرًا وَ لاَ بَطِرَاً وَلاَ مُفسِدًا وَلَا ظَالِمًا اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي‘‘ ؛’’ميں غرورو تکبر ،فخر ومباہات اور ظلم و فساد کيلئے قيام نہيں کررہا ہوں،ميں ديکھ رہا ہوں کہ امت محمدي ۰کي حالت تبديل ہوگئي ہے اور لوگ غلط سمت اور انحطاط کي طرف حرکت کررہے ہيں اور اُس جانب قدم بڑھارہے ہيں کہ جو اسلام اور پيغمبر اکرم ۰ کي بتائي ہوئي سمت کے خلاف ہے اور ميں نے اِسي انحراف اور خرابي سے مقابلے کيلئے قيام کيا ہے‘‘۔
سيد الشہدا کے مبارزے کي دو صورتيں
امام حسين کے قيام ومبارزے کي دوصورتيں ہيں اور دونوں کا اپنا اپنا الگ نتيجہ ہے اور دونوں اچھے نتائج ہيں؛ ايک نتيجہ يہ تھا کہ امام حسين يزيدي حکومت پر غالب و کامياب ہوجاتے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں سے زمام اقتدار چھين کر امت کي صحيح سمت ميں راہنمائي فرماتے،اگر ايسا ہوجاتا تو تاريخ کي شکل ہي بدل جاتي۔ دوسري صورت يہ تھي کہ اگر کسي بھي وجہ اور دليل سے يہ سياسي اور فوجي نوعيت کي کاميابي آپ کيلئے ممکن نہيں ہوتي تو اُس وقت امام حسين اپني زبان کے بجائے اپنے خون، مظلوميت اور اُس زبان کے ذريعہ کہ جسے تاريخ ہميشہ ہميشہ کيلئے ياد رکھتي، اپني باتيں ايک رواںاور شفاف پاني کي مانند تاريخ کے دھارے ميں شامل کرديتے اور آپ نے يہي کام انجام ديا۔
البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زباني وعدے کرتے اور اپنے ايمان کي مضبوطي کا دم بھرتے تھے اگر ايسا نہ کرتے تو پہلي صورت وجود ميں آتي اور امام حسين اُسي زمانے ميں دنيا و آخرت کي اصلاح فرماديتے ليکن اِن افراد نے کو تاہي کي! اِس کوتاہي کے نتيجے ميں وہ پہلي صورت سامنے نہيں آسکي اور نوبت دوسري صورت تک جا پہنچي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جسے کوئي بھي قدرت امام حسين سے نہيں چھين سکتي اور وہ ميدانِ شہادت ميں جانے کي قدرت اورراہِ دين ميں اپني اور اپنے عزيز و اقارب کي جان قربان کرنا ہے۔ يہ وہ ايثار و فداکاري ہے کہ جو اتني عظيم ہے کہ اِس کے مقابلے ميں دشمن کتني ہي ظاہري عظمت کا مالک کيوں نہ ہو، وہ حقير ہے اور اُس کي ظاہري عظمت ختم ہوجاتي ہے اور يہ وہ خورشيد ہے کہ جو روز بروز دنيائے اسلام پر نور افشاني کررہا ہے۔
آج امام حسين گذشتہ پانچ يا دس صديوں سے زيادہ دنيا ميں پہچانے جاتے ہيں۔ آج حالات يہ ہيں کہ دنيا کے مفکرين، روشن فکر شخصيات اور بے غرض افراد جب تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں اور واقعہ کربلا کو ديکھتے ہيں تو اپنے دل ميں خضوع کا احساس کرتے ہيں۔ وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ليکن آزادي، عدالت، عزت، سربلندي اور اعليٰ انساني اقدار جيسے بلند پايہ مفاہيم کو سمجھتے ہيں اور اِس زاويے سے کربلا کو ديکھتے ہيں تو آزادي و آزادي خواہي، عدل و انصاف کے قيام، برائيوں ، جہالت اور انساني پستي سے مقابلہ کرنے ميںسيد الشہدا اُن کے امام و رہبر ہيں۔
البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زباني وعدے کرتے اور اپنے ايمان کي مضبوطي کا دم بھرتے تھے اگر ايسا نہ کرتے تو پہلي صورت وجود ميں آتي اور امام حسين اُسي زمانے ميں دنيا و آخرت کي اصلاح فرماديتے ليکن اِن افراد نے کو تاہي کي! اِس کوتاہي کے نتيجے ميں وہ پہلي صورت سامنے نہيں آسکي اور نوبت دوسري صورت تک جا پہنچي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جسے کوئي بھي قدرت امام حسين سے نہيں چھين سکتي اور وہ ميدانِ شہادت ميں جانے کي قدرت اورراہِ دين ميں اپني اور اپنے عزيز و اقارب کي جان قربان کرنا ہے۔ يہ وہ ايثار و فداکاري ہے کہ جو اتني عظيم ہے کہ اِس کے مقابلے ميں دشمن کتني ہي ظاہري عظمت کا مالک کيوں نہ ہو، وہ حقير ہے اور اُس کي ظاہري عظمت ختم ہوجاتي ہے اور يہ وہ خورشيد ہے کہ جو روز بروز دنيائے اسلام پر نور افشاني کررہا ہے۔
آج امام حسين گذشتہ پانچ يا دس صديوں سے زيادہ دنيا ميں پہچانے جاتے ہيں۔ آج حالات يہ ہيں کہ دنيا کے مفکرين، روشن فکر شخصيات اور بے غرض افراد جب تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں اور واقعہ کربلا کو ديکھتے ہيں تو اپنے دل ميں خضوع کا احساس کرتے ہيں۔ وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ليکن آزادي، عدالت، عزت، سربلندي اور اعليٰ انساني اقدار جيسے بلند پايہ مفاہيم کو سمجھتے ہيں اور اِس زاويے سے کربلا کو ديکھتے ہيں تو آزادي و آزادي خواہي، عدل و انصاف کے قيام، برائيوں ، جہالت اور انساني پستي سے مقابلہ کرنے ميںسيد الشہدا اُن کے امام و رہبر ہيں۔
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
آج انسان نے دنيا ميں جہاںکہيں بھي چوٹ کھائي ہے خواہ وہ سياسي لحاظ سے ہو يا فوجي و اقتصادي لحاظ سے، اگر آپ اُس کي جڑوں تک پہنچيں تو آپ کو يا جہالت نظر آئے گي يا پستي ۔يعني اِس انساني معاشرے کے افراد يا آگاہ وواقف نہيںہيں اوراُنہيں جس چيز کي لازمي معرفت رکھني چاہيے وہ لازمي معرفت و شناخت نہيں رکھتے ہيں يا يہ کہ معرفت کے حامل ہيں ليکن اُس کي اہميت اور قدر وقيمت کے قائل نہيں ہيں،انہوں نے اُسے کوڑيوں کے دام بيچ ديا ہے اور اُس کے بجائے ذلت وپستي کو خريد ليا ہے!
حضرت امام سجاد اور حضرت امير المومنين سے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا کہ ’’لَيسَ لِاَنفُسِکُم ثَمَن? اِلَّا الجَنَّۃَ فَلَا تَبِيعُوھَا بِغَيرِھَا‘‘؛’’تمہاري جانوں کي جنت کے علاوہ کوئي اور قيمت نہيں ہے لہٰذا اپني جانوں کو جنت کے علاوہ کسي اور چيز کے عوض نہ بيچو‘‘۔ يعني اے انسان! اگر يہ طے ہو کہ تمہاري ہستي و ذات اور تشخص و وجود کو فروخت کيا جائے تو اِن کي صرف ايک ہي قيمت ہے اور وہ ہے خدا کي جنت، اگر تم نے اپنے نفس کو جنت سے کم کسي اور چيز کے عوض بيچا تو جان لو کہ تم کو اِس معاملے ميں غبن ہوا ہے! اگر پوري دنيا کوبھي اِس شرط کے ساتھ تمہيںديں کہ ذلت وپستي کو قبول کر لو توبھي يہ سودا جائز نہيں ہے۔
وہ تمام افراد جو دنيا کے گوشے کناروں ميں زر وزمين اور صاحبانِ ظلم و ستم کے ظلم کے سامنے تسليم ہوگئے ہيں اوراُنہوں نے اِس ذلت و پستي کو قبول کر ليا ہے، خواہ عالم ہوں يا سياست دان، سياسي کارکن ہوں يا اجتماعي امور سے وابستہ افراد يا روشن فکر اشخاص، تو يہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اُنہوں نے اپني قدر وقيمت کو نہيں پہچانا اور خود کو کوڑيوں کے دام فروخت کرديا ہے ؛ہاں سچ تو يہي ہے کہ دنيا کے بہت سے سياستدانوں نے خود کو بيچ ڈالا ہے۔ عزت صرف يہ نہيں ہے کہ انسان صرف سلطنت کیلئے بادشاہت يا رياست کي کرسي پر بيٹھے؛ کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ ايک انسان تخت حکومت پر بيٹھ کر ہزاروں افرادسے غروروتکبر سے پيش آتا ہے اوراُن پر ظلم کرتاہے ليکن اُسي حالت ميں ايک بڑي طاقت اور سياسي مرکز کا اسير و ذليل بھي ہوتا ہے اور خود اُس کي نفساني خواہشات اُسے اپنا قيدي بنائے ہوئے ہوتي ہيں! آج کي دنيا کے سياسي اسير و قيدي کسي نہ کسي بڑي طاقت و قدرت اور دنيا کے بڑے سياسي مراکز کے اسير و قيدي ہيں!
حضرت امام سجاد اور حضرت امير المومنين سے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا کہ ’’لَيسَ لِاَنفُسِکُم ثَمَن? اِلَّا الجَنَّۃَ فَلَا تَبِيعُوھَا بِغَيرِھَا‘‘؛’’تمہاري جانوں کي جنت کے علاوہ کوئي اور قيمت نہيں ہے لہٰذا اپني جانوں کو جنت کے علاوہ کسي اور چيز کے عوض نہ بيچو‘‘۔ يعني اے انسان! اگر يہ طے ہو کہ تمہاري ہستي و ذات اور تشخص و وجود کو فروخت کيا جائے تو اِن کي صرف ايک ہي قيمت ہے اور وہ ہے خدا کي جنت، اگر تم نے اپنے نفس کو جنت سے کم کسي اور چيز کے عوض بيچا تو جان لو کہ تم کو اِس معاملے ميں غبن ہوا ہے! اگر پوري دنيا کوبھي اِس شرط کے ساتھ تمہيںديں کہ ذلت وپستي کو قبول کر لو توبھي يہ سودا جائز نہيں ہے۔
وہ تمام افراد جو دنيا کے گوشے کناروں ميں زر وزمين اور صاحبانِ ظلم و ستم کے ظلم کے سامنے تسليم ہوگئے ہيں اوراُنہوں نے اِس ذلت و پستي کو قبول کر ليا ہے، خواہ عالم ہوں يا سياست دان، سياسي کارکن ہوں يا اجتماعي امور سے وابستہ افراد يا روشن فکر اشخاص، تو يہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اُنہوں نے اپني قدر وقيمت کو نہيں پہچانا اور خود کو کوڑيوں کے دام فروخت کرديا ہے ؛ہاں سچ تو يہي ہے کہ دنيا کے بہت سے سياستدانوں نے خود کو بيچ ڈالا ہے۔ عزت صرف يہ نہيں ہے کہ انسان صرف سلطنت کیلئے بادشاہت يا رياست کي کرسي پر بيٹھے؛ کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ ايک انسان تخت حکومت پر بيٹھ کر ہزاروں افرادسے غروروتکبر سے پيش آتا ہے اوراُن پر ظلم کرتاہے ليکن اُسي حالت ميں ايک بڑي طاقت اور سياسي مرکز کا اسير و ذليل بھي ہوتا ہے اور خود اُس کي نفساني خواہشات اُسے اپنا قيدي بنائے ہوئے ہوتي ہيں! آج کي دنيا کے سياسي اسير و قيدي کسي نہ کسي بڑي طاقت و قدرت اور دنيا کے بڑے سياسي مراکز کے اسير و قيدي ہيں!
اسلامي انقلاب سے قبل ايران کي ذلت و پستي!
اگر آپ آج ہمارے اِس عظيم ملک پر نگاہ ڈاليں تو آپ مشاہدہ کريں گے کہ اِس ملک کے نوجوانوں کے چہرے اپنے ملک کے استقلال و خودمختاري اور عزت کے احساس سے شادمان ہيں۔ کوئي بھي اِ س بات کا دعويٰ نہيں کرسکتا ہے کہ اِس ملک کا سياسي نظام، دنيا کي کسي ايک سياسي قدرت کا ايک چھوٹا سا حکم بھي قبول کرتا ہے! پوري دنيا اِس بات کو اچھي طرح قبول کرتي ہے کہ اِس عظيم اوربا عزت ملک ميں اسلامي انقلاب سے قبل ايسي حکومت برسراقتدار تھي کہ جس کے افراد فرعونيت اور تکبر کے مرض ميں مبتلا تھے، اُنہوں نے اپنے ليے ايک اعليٰ قسم کے جاہ وجلال اور رعب و دبدبے کي دنيا بنائي ہوئي تھي اور لوگ اُن کي تعظيم کرتے ہوئے اُن کے سامنے جھکتے تھے ليکن يہي افراد دوسروں کے اسير و اُن کے سامنے ذليل و پست تھے!اِسي تہران ميں جب بھي امريکي سفير چاہتا تو وقت ليے بغير شاہ سے ملاقات کرتا، ہربات کو اُ س پر تھونپتا اور اُس سے اپني بات کي تکميل چاہتا اور اگر وہ انجام نہ ديتا تو اُسے ہٹا ديتا (ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ شاہ ايران ميں اتني جرآت ہي نہيں تھي کہ وہ امريکي حکومت يا امريکي سفير کے مرضي کے خلاف کوئي چھوٹا سا عمل انجام دے!) اِن افراد کا ظاہر بہت جاہ و جلال والا تھا ليکن صرف عوام اور کمزور افراد کے سامنے۔ امام حسين اِسي پستي و ذلت کو انسانوں سے دور کرنا چاہتے تھے۔
اخلاق پيغمبر ۰
اخلاق پيغمبر ۰
پيغمبر اکرم ۰ کي حالت يہ تھي کہ ’’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ يَاکُلُ آَکلَ العَبدِ وَ يَجلِسُ جُلُوسَ العَبدِ‘‘ ،’’ وہ غلام و عبد کي مانند غذا تناول فرماتے اور بندوں کے مثل بيٹھتے تھے ‘‘۔ خود پيغمبر اکرم ۰ کے بہت سے عزيز و اقارب امير ترين افراد تھے ليکن لوگوں سے آپ ۰کي رفتار و عمل بہت ہي متواضعانہ تھا، اُن کا احترام فر ماتے اور کبھي فخر و مباہات سے پيش نہيں آتے تھے ليکن آپ ۰ کي ايک نگاہ و اشارے سے اُس زمانے کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے بدنوں ميں کپکپي طاري ہوجاتي تھي؛يہ ہے حقيقي عزت!
امامت و سلطنت کا بنيادي فرق
امامت يعني وہ نظام کہ جو خدا کي عطا کي ہوئي عزت کو لوگوں کيلئے لے کر آتا ہے، لوگوں کو علم و معرفت عطا کرتا ہے، اُن کے درميان پيا ر محبت کو رائج کرتا ہے اور دشمنوں کے مقابلے ميں اسلام اور مسلمانوں کي عظمت و بزرگي کي حفاظت جيسا عظيم فريضہ اُس کے فرائض ميں شامل ہے ليکن بادشاہت اور ظالم حکومتيں بالکل اِس کے برعکس عمل کرتي ہيں۔
آج دنيا کے بہت سے ممالک ميں بادشاہي نظام رائج نہيں ہے ليکن وہ لو گ درحقيقت بادشاہ ہي ہيںاور مطلق العنانيت اُن کے ملک پر حاکم ہے۔اِن کا نام سلطان ،بادشاہ سلامت،جاں پناہ ،ظلِّ الٰہي اور ظلِّ سبحاني نہيں ہے اور ظاہري جمہوريت بھي اُن کے ملک ميں موجود ہے ليکن اُن کے دماغ ميں وہي قديم سلطنت و بادشاہت اور اُس کي فر عونيت کا قوي ہيکل دِيو سوارہے يعني لوگوں سے ظالمانہ اور متکبرانہ رويہ رکھنا اور اپنے سے بالاتر طاقتوں کے سامنے ذلت ورسوائي سے جھکنا! نوبت تو يہاں تک آپہنچي ہے کہ ايک بہت ہي بڑے اور طاقتور ملک (امريکا) کے اعلي سياسي عہديدار اپنے اپنے مقام و منصب کے لحاظ سے صہيونيوں، بين الاقوامي مافيا، بين الاقوامي خفيہ نيٹ ورک اور بڑي بڑي کمپنيوں کے مالکان کے ہاتھوں اسير و غلام ہيں! يہ لوگ مجبور ہيں کہ اُن کي خواہشات کے مطابق باتيں کريں اور اپنا موقف اختيار کريں تاکہ وہ کہيں اِن سے ناراض نہ ہو جائيں، اِسے کہتے ہيں سلطنت و با دشاہت! جب کسي بھي کام کے ايک پہلو ميں بھي ذلت و رُسورائي موجود ہوگي تو وہ ذلت و رُسوائي اُس کے بدن اور ڈھانچے ميں بھي سرائيت کرجائے گي اور امام حسين نے عالم اسلام ميں پنپنے والي اِسي ذلت و رُسوائي کے خلاف قيام کيا۔
آج دنيا کے بہت سے ممالک ميں بادشاہي نظام رائج نہيں ہے ليکن وہ لو گ درحقيقت بادشاہ ہي ہيںاور مطلق العنانيت اُن کے ملک پر حاکم ہے۔اِن کا نام سلطان ،بادشاہ سلامت،جاں پناہ ،ظلِّ الٰہي اور ظلِّ سبحاني نہيں ہے اور ظاہري جمہوريت بھي اُن کے ملک ميں موجود ہے ليکن اُن کے دماغ ميں وہي قديم سلطنت و بادشاہت اور اُس کي فر عونيت کا قوي ہيکل دِيو سوارہے يعني لوگوں سے ظالمانہ اور متکبرانہ رويہ رکھنا اور اپنے سے بالاتر طاقتوں کے سامنے ذلت ورسوائي سے جھکنا! نوبت تو يہاں تک آپہنچي ہے کہ ايک بہت ہي بڑے اور طاقتور ملک (امريکا) کے اعلي سياسي عہديدار اپنے اپنے مقام و منصب کے لحاظ سے صہيونيوں، بين الاقوامي مافيا، بين الاقوامي خفيہ نيٹ ورک اور بڑي بڑي کمپنيوں کے مالکان کے ہاتھوں اسير و غلام ہيں! يہ لوگ مجبور ہيں کہ اُن کي خواہشات کے مطابق باتيں کريں اور اپنا موقف اختيار کريں تاکہ وہ کہيں اِن سے ناراض نہ ہو جائيں، اِسے کہتے ہيں سلطنت و با دشاہت! جب کسي بھي کام کے ايک پہلو ميں بھي ذلت و رُسورائي موجود ہوگي تو وہ ذلت و رُسوائي اُس کے بدن اور ڈھانچے ميں بھي سرائيت کرجائے گي اور امام حسين نے عالم اسلام ميں پنپنے والي اِسي ذلت و رُسوائي کے خلاف قيام کيا۔
بندگي خداکے ساتھ ساتھ عزت و سرفرازي
امام حسين کے رفتار و عمل ميں ابتدائ ہي سے يعني مدينہ سے آپ کي حرکت سے شہادت تک معنويت، عزت وسربلندي اور اُس کے ساتھ ساتھ خداوند عالم کے سامنے عبوديت و بندگي اور تسليم محض کوواضح طور پر محسوس کيا جاسکتا ہے جبکہ واقعہ کربلا اورامام ٴکي پوري زندگي ميں يہي بات قابل مشاہدہ ہے۔
جس دن آپ کي خدمت ميںہزاروں خطوط لائے گئے کہ ہم آپ کے شيعہ اور چاہنے والے ہيں اور کوفہ و عراق ميں آپ کي آمد کا انتظار کررہے ہيں تو آپٴ کسي بھي قسم کے غرور و تکبر ميں مبتلا نہيں ہوئے۔ ايک مقام پر آپ ٴنے تقرير کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’خُطَّ المَوْتِ عَلٰے وُلدِآدَمَ مَحَطَّ القَلَادَۃِ عَلٰے جِيدِ الفَتَاۃِ‘‘ (1) ِ ’’موت فرزند آدم کيلئے اِس طرح لکھ دي گئي ہے جس طرح ايک گلوبند ايک جوان لڑکي گلے پر نشان چھوڑ جاتا ہے‘‘۔ سيد الشہدا نے يہاں موت کا ذکر کيا ہے ، يہ نہيں کہا کہ ايسا کريں ويسا کريں گے ياامام حسين نے
يہاںدشمنوں کو خوف و ہراس ميں مبتلا کيا ہو اور دوستوں اور چاہنے والوں کو سبز باغ دکھائے ہوں کہ ميں تم کو شہر کوفہ کے منصب ابھي سے تقسيم کيے ديتا ہوں؛ايسا ہر گز نہيں ہے! بلکہ سيد الشہدا يہاں ايک سچے اور خالص مسلمان کي حيثيت سے معرفت، عبوديت و بندگي اور تواضع کي بنيا دوں پر قائم اپني تحريک کا اعلان فرمارہے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ سب لوگ نے اپني نگاہيںاِسي عظيم شخصيت کي طرف اٹھائي ہوئي ہيں اوراُس سے اظہار عقيدت و مودّت کرتے ہيں۔ جس دن کربلا ميں تيس ہزار پست و ذليل افراد کے ہاتھوں سو سے بھي کم افراد کا محاصرہ کيا گيا اورلوگ آپ ٴ اور آپٴ کے اہل بيت و اصحاب کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے اور اہل حرم اور خواتين کو قيدي بنانے کيلئے پر تولنے لگے تو اُس خدائي انسان، خداکے سچے بندے اور اسلام کے سچے عاشق ميں خوف اضطراب کا دور دور تک کو ئي نام و نشان نہيں تھا۔
وہ راوي کہ جس نے روز عاشورا کے واقعات کو نقل کيا ہے اورجو کتابوں کے ذريعہ سينہ بہ سينہ منتقل ہوتے رہے ہيں، کہتا ہے کہ ’’فَوَاللّٰہِ ما رَاَيتُ مَکثُورًا‘‘؛’’قسم خدا کي کہ روز عاشورا کے مصائب ، سختيوں اور ظلم و ستم کے باوجود ميں نے اُنہيں تھوڑا سا بھي ٹوٹا ہوا نہيں پايا‘‘۔ ’’مَکثُورا ‘‘يعني جس پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑيں، جس کا بچہ مرجائے،جس کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا جائے،جس کے مال و دولت کو لوٹ ليا جائے اور مصيبتوں اور سختيوں کے طو فان کي اُٹتھي ہوئي مو جيںجسے چاروں طرف سے گھير ليں۔ راوي کہتا ہے کہ ميں نے چاروں طرف سے بلاوں ميں گھرے ہوئے حسين ابن علي کي طرح کسي کو بھي مضبوط چٹان کي مانند نہيں ديکھا، ’’اربط جاشا‘‘۔ مختلف جنگوں ، بڑے بڑے محاذ جنگ اور اجتماعي اور سياسي ميدانوں ميں ہم کو مختلف قسم کے افراد نظر آتے ہيں کہ جو غم و اندوہ کے دريا ميں غرق ہوتے ہيں۔ راوي کہتا ہے کہ اُس مصيبت اور کڑے وقت حسين ابن علي کي مانندميں نے کسي کو نہيں ديکھا جو شاداب چہرے، مصمم ارادوں کا مالک، عزم آ ہني رکھنے والا اور خداوند عالم کي ذات پر کامل توکل کرنے والا ہو! يہ ہے خداوند عالم کي عطا کي ہوئي عزت! يہ ہيں وہ انمٹ نقوش ہيںجو واقعہ کربلا نے تاريخ پر چھوڑے ہيں۔ انسان کو ايسي حکومت و معاشرے کے حصول کيلئے جدوجہد کرنا چاہيے يعني ايسا معاشرہ کہ جس ميں جہالت وپستي، انسانوں کي غلامي اور طبقاتي نظام اور نسل و نژاد کے زخم و نا سُور موجودنہ ہوں۔سب کو ايسے معاشرے کے حصول کيلئے مل کر اجتماعي جدوجہد کرني چاہيے تاکہ وہ وجود ميں آئے اور آئے گا اور يہ کام ممکن ہے۔
جس دن آپ کي خدمت ميںہزاروں خطوط لائے گئے کہ ہم آپ کے شيعہ اور چاہنے والے ہيں اور کوفہ و عراق ميں آپ کي آمد کا انتظار کررہے ہيں تو آپٴ کسي بھي قسم کے غرور و تکبر ميں مبتلا نہيں ہوئے۔ ايک مقام پر آپ ٴنے تقرير کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’خُطَّ المَوْتِ عَلٰے وُلدِآدَمَ مَحَطَّ القَلَادَۃِ عَلٰے جِيدِ الفَتَاۃِ‘‘ (1) ِ ’’موت فرزند آدم کيلئے اِس طرح لکھ دي گئي ہے جس طرح ايک گلوبند ايک جوان لڑکي گلے پر نشان چھوڑ جاتا ہے‘‘۔ سيد الشہدا نے يہاں موت کا ذکر کيا ہے ، يہ نہيں کہا کہ ايسا کريں ويسا کريں گے ياامام حسين نے
يہاںدشمنوں کو خوف و ہراس ميں مبتلا کيا ہو اور دوستوں اور چاہنے والوں کو سبز باغ دکھائے ہوں کہ ميں تم کو شہر کوفہ کے منصب ابھي سے تقسيم کيے ديتا ہوں؛ايسا ہر گز نہيں ہے! بلکہ سيد الشہدا يہاں ايک سچے اور خالص مسلمان کي حيثيت سے معرفت، عبوديت و بندگي اور تواضع کي بنيا دوں پر قائم اپني تحريک کا اعلان فرمارہے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ سب لوگ نے اپني نگاہيںاِسي عظيم شخصيت کي طرف اٹھائي ہوئي ہيں اوراُس سے اظہار عقيدت و مودّت کرتے ہيں۔ جس دن کربلا ميں تيس ہزار پست و ذليل افراد کے ہاتھوں سو سے بھي کم افراد کا محاصرہ کيا گيا اورلوگ آپ ٴ اور آپٴ کے اہل بيت و اصحاب کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے اور اہل حرم اور خواتين کو قيدي بنانے کيلئے پر تولنے لگے تو اُس خدائي انسان، خداکے سچے بندے اور اسلام کے سچے عاشق ميں خوف اضطراب کا دور دور تک کو ئي نام و نشان نہيں تھا۔
وہ راوي کہ جس نے روز عاشورا کے واقعات کو نقل کيا ہے اورجو کتابوں کے ذريعہ سينہ بہ سينہ منتقل ہوتے رہے ہيں، کہتا ہے کہ ’’فَوَاللّٰہِ ما رَاَيتُ مَکثُورًا‘‘؛’’قسم خدا کي کہ روز عاشورا کے مصائب ، سختيوں اور ظلم و ستم کے باوجود ميں نے اُنہيں تھوڑا سا بھي ٹوٹا ہوا نہيں پايا‘‘۔ ’’مَکثُورا ‘‘يعني جس پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑيں، جس کا بچہ مرجائے،جس کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا جائے،جس کے مال و دولت کو لوٹ ليا جائے اور مصيبتوں اور سختيوں کے طو فان کي اُٹتھي ہوئي مو جيںجسے چاروں طرف سے گھير ليں۔ راوي کہتا ہے کہ ميں نے چاروں طرف سے بلاوں ميں گھرے ہوئے حسين ابن علي کي طرح کسي کو بھي مضبوط چٹان کي مانند نہيں ديکھا، ’’اربط جاشا‘‘۔ مختلف جنگوں ، بڑے بڑے محاذ جنگ اور اجتماعي اور سياسي ميدانوں ميں ہم کو مختلف قسم کے افراد نظر آتے ہيں کہ جو غم و اندوہ کے دريا ميں غرق ہوتے ہيں۔ راوي کہتا ہے کہ اُس مصيبت اور کڑے وقت حسين ابن علي کي مانندميں نے کسي کو نہيں ديکھا جو شاداب چہرے، مصمم ارادوں کا مالک، عزم آ ہني رکھنے والا اور خداوند عالم کي ذات پر کامل توکل کرنے والا ہو! يہ ہے خداوند عالم کي عطا کي ہوئي عزت! يہ ہيں وہ انمٹ نقوش ہيںجو واقعہ کربلا نے تاريخ پر چھوڑے ہيں۔ انسان کو ايسي حکومت و معاشرے کے حصول کيلئے جدوجہد کرنا چاہيے يعني ايسا معاشرہ کہ جس ميں جہالت وپستي، انسانوں کي غلامي اور طبقاتي نظام اور نسل و نژاد کے زخم و نا سُور موجودنہ ہوں۔سب کو ايسے معاشرے کے حصول کيلئے مل کر اجتماعي جدوجہد کرني چاہيے تاکہ وہ وجود ميں آئے اور آئے گا اور يہ کام ممکن ہے۔
اسلامي انقلاب کا آئيڈيل کربلا ہے
ايک وہ زمانہ تھا کہ جب دنيا ميں رائج مادي مکا تب وسياست سے انسانيت مايوس ہو چکي تھي ليکن ہمارے اسلامي انقلاب اور نظام اسلامي نے يہ ثابت کرديا کہ جہالت و پستي ،طبقاتي نظام ،انسانوں کي انسانوں کیلئے غلامي اورنسل ونژاد سے پاک معاشرے کا قيام ممکن ہے۔صحيح ہے کہ ہمارا اسلامي نظام ابھي کامل نہيں ہوا ہے ليکن اُس نے اپنے ہدف کے حصول کي راہ سے بڑي بڑي رکاوٹوں کو دور کرديا ہے؛ طاغوتي حکومت، آمرانہ نظام حکومت، وہ حکومتيں جو اپني عوام پر شيروں کي طرح مسلط تھيں ليکن بڑي طاقتوں کے سامنے بھيگي بلي بني ہوئي تھيں، (پہلوي خاندان کے)ايسے افرادکي حکومت جو اپني عوام سے فرعونيت و تکبر سے پيش آتي تھي ليکن غيروں اور بيگانوں کے سامنے اُس کا سر تسليم خم تھا، يہ ہيں ايک قوم کي راہ کے موانع اور وہ بھي ايسي حکومت کہ دنيا کي تمام بڑي طاقتيں جس کي حمايت و طرفداري کرتي تھيں۔ ايراني قوم نے يہ ثابت کر دکھايا کہ يہ کام عملي اور ممکن ہے اور اِس رکاوٹ کو ہٹا کر اِس راستے پر حرکت کي جاسکتي ہے۔
خداوند عالم کے لطف و کرم سے اِس نظام کو کامياب بنا نے کي راہ ميں بہت زيادہ کوششيں کي گئي ہيں ليکن ميرے بھائيوں اور بہنو! ہم ابھي آدھے راستے ميں کھڑے ہيں؛ اگر ہم سيد الشہدا کے پيغام کو زندہ رکھيں، اگر امام حسين کے نام کا احترام کريں، اگرہم تحريک کربلا کو انساني تاريخ کا بہت بڑا واقعہ جانتے ہيں اور اُس کي عظمت و احترام کے قائل ہيں تو يہ اِس ليے ہے کہ اِس واقعہ کا تذکرہ اور اُسے زندہ رکھنا ہماري مددکرے گاکہ ہم آگے کي جانب قدم بڑھائيں اور اور امام حسين کے بتائے ہوئے راستے کو اپنا سر مشق زندگي قرار ديں۔ امام حسين کے نام گرامي کو خداوند عالم نے عظمت بخشي ہے اور تاريخ ميں واقعہ کربلا کو تا ابد زندہ رکھا ہے۔ يہ جو ہم کہتے ہيں کہ اِس واقعہ کو زندہ رکھيں اور اِس کي عظمت کو بيان کريںتواِس کا معني يہ نہيں ہے کہ ہم اِس کام کو انجام دے رہے ہيں، نہيں! يہ واقعہ اِس سے زيادہ با عظمت ہے کہ دنيا کے مختلف واقعات اُسے کم رنگ بنائيں يا اُسے ختم کرديں۔ (2)
خداوند عالم کے لطف و کرم سے اِس نظام کو کامياب بنا نے کي راہ ميں بہت زيادہ کوششيں کي گئي ہيں ليکن ميرے بھائيوں اور بہنو! ہم ابھي آدھے راستے ميں کھڑے ہيں؛ اگر ہم سيد الشہدا کے پيغام کو زندہ رکھيں، اگر امام حسين کے نام کا احترام کريں، اگرہم تحريک کربلا کو انساني تاريخ کا بہت بڑا واقعہ جانتے ہيں اور اُس کي عظمت و احترام کے قائل ہيں تو يہ اِس ليے ہے کہ اِس واقعہ کا تذکرہ اور اُسے زندہ رکھنا ہماري مددکرے گاکہ ہم آگے کي جانب قدم بڑھائيں اور اور امام حسين کے بتائے ہوئے راستے کو اپنا سر مشق زندگي قرار ديں۔ امام حسين کے نام گرامي کو خداوند عالم نے عظمت بخشي ہے اور تاريخ ميں واقعہ کربلا کو تا ابد زندہ رکھا ہے۔ يہ جو ہم کہتے ہيں کہ اِس واقعہ کو زندہ رکھيں اور اِس کي عظمت کو بيان کريںتواِس کا معني يہ نہيں ہے کہ ہم اِس کام کو انجام دے رہے ہيں، نہيں! يہ واقعہ اِس سے زيادہ با عظمت ہے کہ دنيا کے مختلف واقعات اُسے کم رنگ بنائيں يا اُسے ختم کرديں۔ (2)
کربلا ہے اِک آفتاب اور اُس کي تنويريں بہت! محرم سے متعلق دو قسم کي باتيں کي جاسکتي ہيں جن ميںسے ايک خود واقعہ کربلا سے متعلق ہے۔ اگرچہ کہ ہمارے بزرگ علما نے فلسفہ قيام امام حسين کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اور بہت ہي قيمتي مطا لب اِس ضمن ميں موجود ہيں ليکن اِس درخشاں حقيقت کي عظمتيں بيان کرنے کيلئے ايک طويل عمر بھي نا کا في ہے۔ ہم واقعہ کربلااور قيام امام حسين کے متعلق جتنا بھي غوروفکر کريں، متوجہ ہوں گے کہ يہ واقعہ مختلف جہات سے جذابيت، فکري وسعت کا حامل اور بيان کيے جانے کے قابل ہے۔ ہم جتني بھي فکر کريں گے تو ممکن ہے کہ اِس واقعہ کے نئے پہلووں، زاويوں اورحقائق کو ہمارے سامنے آئيں۔ يہ وہ چيز ہے کہ جو پورے سال بيان کي جاتي ہے ليکن ماہ محرم کي اپني ايک الگ خاص بات ہے اور ايام محرم ميں اِسے زيادہ بيان کيا جانا چاہيے اور کيا جاتا ہے اور ان شائ اللہ بيان کيا جاتا رہے گا۔
مکتب تشيع کا ايک وجہ امتياز، کربلا
واقعہ کربلا کا ايک پہلو جو ماہ محرم کي مناسبت سے قابل بحث ہے اور اِس بارے ميں بہت کم گفتگو کي جاتي ہے، وہ امام حسين کي عزاداري اور واقعہ کربلا کو زندہ رکھنے کي برکتوں سے متعلق ہے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ دوسرے مسلمان مکا تب فکر کي بہ نسبت شيعہ مکتبہ فکرکا ايک امتياز اُس کا واقعہ کربلا سے متصل ہونا ہے۔ جس زمانے سے حضرت امام حسين کے مصائب کا تذکرہ شروع ہوا تواُسي وقت سے اہل بيت کے محبوں اور چاہنے والوں کے اذہان ميں فيض و برکت اور معنويت کے چشمے جاري ہوئے اور آج تک جاري ہيں اور يونہي جاري رہيں گے۔
زندگي ميں پيار و محبت اور مہرباني کا کردار
واقعہ کربلا کا تذکرہ کرنا صرف ايک تاريخي واقعہ کو دہرانا نہيں ہے بلکہ يہ ايک ايسا واقعہ ہے کہ جو بے شمار ابعادوجہات کا حامل ہے۔ پس اِس واقعہ کا تذکرہ درحقيقت ايسا مقولہ ہے جو بہت سي برکتوں کا باعث ہوسکتا ہے لہٰذا آپ ديکھتے ہيں کہ آئمہ طاہرين کے زمانے ميں امام حسين پر گريہ کرنا اور دوسروں کو رُلانا ايک خاص اہميت و مقام کا حامل تھا۔ مبادا کوئي يہ خيال کرے کہ عقل و منطق اور استدلال کي روشني ميں گريہ کرنا اور اِس قسم کي دوسري بحثيں سب قديمي اور پراني ہيں! نہيں، يہ غلط خيال ہے ۔ ہمدردي کے احساسات کي اہميت اپني جگہ اور منطق و استدلال کي افاديت اپني جگہ اورانساني شخصيت کي تعمير اور ايک اسلامي معاشرے کے قيام ميں دونوںخاص کردارکے حامل ہیں۔ بہت سے ايسے مسائل ہيں کہ جنہيں پيار ومحبت اور ميٹھي زبان سے ہي حل کيا جاسکتا ہے اور عقل ومنطق اور استدلال اِن احساسات کي جگہ نہيں لے سکتے۔
اگر آپ انبيا کي تحريکوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ جب انبيا مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر اُن کے گرد جمع ہونے والے افراد استدلال و برہان کي وجہ سے اُن کے پاس نہيں آتے تھے۔ آپ پيغمبر اکرم ۰ کو سيرت کے ملاحظہ کيجئے تو آپ کو کہيں نظر نہيں آئے گا کہ آنحضرت۰ نے قابليت و استعداد رکھنے والے کفار کو اپنے سامنے بٹھا کر دليل و برہان سے بات کي ہو کہ يہ خدا کے وجود کي دليل ہے يا اِس دليل کي روشني ميں خدا، واحد ہے يا اِس عقلي دليل کي بنياد پر تم جن بتوں کي پرستش کرتے ہو وہ باطل ہے !دليل و برہان کو وہاں استعمال کيا جاتا ہے کہ جب کوئي تحريک زور پکڑ جاتي ہے جبکہ پہلے مرحلے پر تحريک، ہمدردي کے جذبات و احساسات اور پيار و محبت کي زبان کے ہمراہ ہوتي ہے۔ پہلے مرحلے پر اُن کے سوئے ہوئے ضميروں کو بيدار کرنے کيلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اِن بتوں کو ديکھو کہ يہ کتنے ناتوان اور عاجز ہيں‘‘۔ پيغمبر اکرم ۰ اپني دعوت کے پہلے مرحلے پر فرماتے ہيں کہ ’’ديکھو! خداوند متعال، واحد ہے‘‘،’’ قُولُوا لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ تُفلِحُوا‘‘؛ ’’کہوکہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اللہ کے اور فلاح پاجاو‘‘۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ‘‘ کہنا کس دليل کي بنا پر’’ تُفلِحُوا‘‘ (نجات پانے)کا باعث بنتا ہے ؟ حضرت ختمي مرتبت ۰نے يہاں اِس بات کوکيلئے کون سي عقلي اور فلسفي دليل پيش کي؟ البتہ ہر احساس ميں کہ جو سچا اور صادق ہو، ايک فلسفي دليل پوشيدہ ہوتي ہے۔
ہم يہاں اِس پر بحث کررہے ہيں کہ جب کوئي نبي اپني دعوت کا اعلان کرتا ہے تووہ خدا کي طرف عقلي اور فلسفي دليل وبرہان سے لوگوں کو دعوت نہيں ديتا بلکہ احساسات اور پيار و محبت کي زبان استعمال کرتا ہے البتہ يہ بات ضرور ہے کہ يہ سچے احساسات، غلط اور بے منطق نہيں ہوتے اور اِن ميں استدلال و برہان پوشيدہ ہوتے ہیں۔ نبي پہلے مرحلے پر معاشرے ميں موجودلوگوں پر ظلم و ستم ، طبقاتي نظام اور لوگوں پر جنّ وبشر اور شياطينِ اِنس کے خودساختہ خداوں ’’اَندَادُ اللّٰہ‘‘ کے دباو کواپنا ہدف بناتا ہے ؛يہ ہے احساسات اور مہرباني کي زبان۔ ليکن جب کوئي تحريک اپني راہ پر چل پڑتي ہے تو اُس کے بعد منطقي استدلال و برہان کي نوبت آتي ہے ، يعني وہ افراد جو عقل و خِرد اور فکري پيشرفت کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ ترين دليل و برہان تک پہنچ جا تے ہيں ليکن بعض افراد ابتدائي مراحل ميں ہي پھنسے رہ جاتے ہيں۔
ليکن يہ بھي نہيں معلوم کہ جو دليل و برہان کے اعليٰ درجات کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ معنوي درجات بھي رکھتے ہيں يا نہيں؟ نہيں! کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ چھوٹي اور ابتدائي سطح کے استدلال رکھنے والے افراد ميں مہرباني اور ہمدردي کے احساسات زيادہ ہوتے ہيں، عالم غيب سے اُن کا رابطہ زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور رسول اکرم ۰ سے اُن کي محبت کا دريا زيادہ موجيں مارتا ہے اور يہي لوگ ہيں جو عالي و بلند درجات تک پہنچتے ہيں۔
اگر آپ انبيا کي تحريکوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ جب انبيا مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر اُن کے گرد جمع ہونے والے افراد استدلال و برہان کي وجہ سے اُن کے پاس نہيں آتے تھے۔ آپ پيغمبر اکرم ۰ کو سيرت کے ملاحظہ کيجئے تو آپ کو کہيں نظر نہيں آئے گا کہ آنحضرت۰ نے قابليت و استعداد رکھنے والے کفار کو اپنے سامنے بٹھا کر دليل و برہان سے بات کي ہو کہ يہ خدا کے وجود کي دليل ہے يا اِس دليل کي روشني ميں خدا، واحد ہے يا اِس عقلي دليل کي بنياد پر تم جن بتوں کي پرستش کرتے ہو وہ باطل ہے !دليل و برہان کو وہاں استعمال کيا جاتا ہے کہ جب کوئي تحريک زور پکڑ جاتي ہے جبکہ پہلے مرحلے پر تحريک، ہمدردي کے جذبات و احساسات اور پيار و محبت کي زبان کے ہمراہ ہوتي ہے۔ پہلے مرحلے پر اُن کے سوئے ہوئے ضميروں کو بيدار کرنے کيلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اِن بتوں کو ديکھو کہ يہ کتنے ناتوان اور عاجز ہيں‘‘۔ پيغمبر اکرم ۰ اپني دعوت کے پہلے مرحلے پر فرماتے ہيں کہ ’’ديکھو! خداوند متعال، واحد ہے‘‘،’’ قُولُوا لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ تُفلِحُوا‘‘؛ ’’کہوکہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اللہ کے اور فلاح پاجاو‘‘۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ‘‘ کہنا کس دليل کي بنا پر’’ تُفلِحُوا‘‘ (نجات پانے)کا باعث بنتا ہے ؟ حضرت ختمي مرتبت ۰نے يہاں اِس بات کوکيلئے کون سي عقلي اور فلسفي دليل پيش کي؟ البتہ ہر احساس ميں کہ جو سچا اور صادق ہو، ايک فلسفي دليل پوشيدہ ہوتي ہے۔
ہم يہاں اِس پر بحث کررہے ہيں کہ جب کوئي نبي اپني دعوت کا اعلان کرتا ہے تووہ خدا کي طرف عقلي اور فلسفي دليل وبرہان سے لوگوں کو دعوت نہيں ديتا بلکہ احساسات اور پيار و محبت کي زبان استعمال کرتا ہے البتہ يہ بات ضرور ہے کہ يہ سچے احساسات، غلط اور بے منطق نہيں ہوتے اور اِن ميں استدلال و برہان پوشيدہ ہوتے ہیں۔ نبي پہلے مرحلے پر معاشرے ميں موجودلوگوں پر ظلم و ستم ، طبقاتي نظام اور لوگوں پر جنّ وبشر اور شياطينِ اِنس کے خودساختہ خداوں ’’اَندَادُ اللّٰہ‘‘ کے دباو کواپنا ہدف بناتا ہے ؛يہ ہے احساسات اور مہرباني کي زبان۔ ليکن جب کوئي تحريک اپني راہ پر چل پڑتي ہے تو اُس کے بعد منطقي استدلال و برہان کي نوبت آتي ہے ، يعني وہ افراد جو عقل و خِرد اور فکري پيشرفت کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ ترين دليل و برہان تک پہنچ جا تے ہيں ليکن بعض افراد ابتدائي مراحل ميں ہي پھنسے رہ جاتے ہيں۔
ليکن يہ بھي نہيں معلوم کہ جو دليل و برہان کے اعليٰ درجات کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ معنوي درجات بھي رکھتے ہيں يا نہيں؟ نہيں! کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ چھوٹي اور ابتدائي سطح کے استدلال رکھنے والے افراد ميں مہرباني اور ہمدردي کے احساسات زيادہ ہوتے ہيں، عالم غيب سے اُن کا رابطہ زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور رسول اکرم ۰ سے اُن کي محبت کا دريا زيادہ موجيں مارتا ہے اور يہي لوگ ہيں جو عالي و بلند درجات تک پہنچتے ہيں۔
اعلي ہدف!
روحانيت اور معنويت کي دنيا ميں محبت اور مہرباني کا اپنا ايک خاص اور الگ مقام ہے؛ نہ مہرباني، دليل و برہان کي جگہ لے سکتي ہے اور نہ ہي دليل و برہان، مہرباني ،احساسات کي جگہ پُر کرسکتے ہیں۔ واقعہ کربلا اپني ذات اور حقيقت ميںسچے قسم کے مہرباني اور محبت کے جذبات و احساسات لئے ہوا ہے۔ايک ايسے اعليٰ صفت اورپاک و پاکيزہ نوراني انسان کي ملکوتي شخصيت ميں نقص و عيب اور دھوکہ و فريب کا دور دور تک کوئي شائبہ نہيں ہے جو ايک عظيم ہدف کيلئے کہ جس کے بارے ميں تمام مُنصِفين عالم متفق القول ہيں کہ اُس کا قيام معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کيلئے تھا ، ايک عجيب و غريب تحريک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اَيُّہَا النَّاسُ! اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّي اللّٰہُ عَلَيہِ وآلِہِ وَسَلَّم قَالَ مَن رَآَيٰ سُلطَانًا جَائرًا۔۔۔‘‘۔ يہاں امام حسين ظلم و ستم سے مقابلے کو اپني تحريک کا فلسفہ قرار دے کر اُس کا اعلان فرمارہے ہيں کہ ’’يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالجَورِ والطُّغيَانِ وَبالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘؛يعني’’ جو بندگانِ خدا پر ظلم و جوراورگناہ و معصيت سے حکومت کر رہا ہے‘‘۔ يہاں بات مقدس ترين اہداف کي ہے کہ جسے تمام مُنصِفِين عالم قبول کرتے ہيں؛ايسا انسان اپنے ايسے بلند اور مقدس ہدف کي راہ ميں جنگ اورمبارزے کي سختيوں اور مصائب کو تحمل کرتا ہے۔
غريبانہ جنگ!
سب سے دشوار ترين جنگ، غريبانہ جنگ ہے۔ اپنے دوستوں کي داد و تحسين ، نعروں، جوش و خروش اور ولولے کو بڑھانے کے احساسات کے ساتھ ميدان جنگ ميں موت کے منہ ميں جانا چنداں مشکل نہيں ہے۔صدر اسلام کي کسي جنگ ميں جب حق و باطل کے لشکر مقابلے کيلئے صف آرا ہوئے تو محاذ جنگ ميں سرفہرست رہنے والي شخصيات ميں پيغمبر اکرم ۰ اور امير المومنين پيش پيش تھے، پيغمبر اکرم ۰ نے اپنے سپاہيوں سے پوچھا کہ’’کون ہے جو ميدان جنگ ميں جائے تاکہ دشمن کے فلاں معروف جنگجو کو قتل کرسکے‘‘؟ سپاہ اسلام ميں سے ايک نوجوان نے حامي بھري اور سامنے آگيا؛ حضرت ختمي مرتبت ۰ نے اُس کے سر پر ہاتھ پھيرا اور آگے تک اُس کے ساتھ گئے، مسلمانوں نے بھي اُس کيلئے دعا کي اور وہ يوں ميدانِ جنگ ميں قدم رکھتا ہے، جہاد کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے؛يہ ايک قسم کا جہاد کرنا اور قتل ہونا ہے۔ ايک اور قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب انسان ميدان نبرد ميں قدم رکھتا ہے تو معاشرے کي اکثريت يا اُس کي منکر و مخالف ہے يااُس کي شخصيت اور مقام و منزلت سے غافل؛يا اُس سے کنارہ کشي اختيار کيے ہوئے ہے يا اُس سے مقابلے کيلئے نيزوں کو ہوا ميں لہرا رہي ہے اور تلواروںکو باہر نکالے ہوئے ہے اور وہ افراد جو اپنے قلب سے اُس کو داد و تحسين دينے والے ہيں وہ تعداد ميں بھي کم ہيں اوروہ بھي اُس کو زباني داددينے کي جرآت نہيں رکھتے۔
تحريک کربلا ميں ’’عبد اللہ ابن عباس ‘‘ اور ’’عبد اللہ ابن جعفر‘‘ جيسے افراد بھي جو خاندان بني ہاشم سے تعلق کھتے ہيں اور اِسي شجرہ طيبہ سے متصل ہيں، جرآت نہيں کرتے کہ مکہ يا مدينہ ميں کھڑے ہوکر فرياد بلند کريں اور امام حسين کيلئے اور اُن کي حمايت ميں نعرے لگائيں؛يہ ہے غريبانہ جنگ اور مبارزہ!اوريہ ايسي سخت ترين جنگ ہے کہ جہاں تمام افراد اِس لڑنے والے انسان سے روگرداں اور اُس کے دشمن ہوں۔ امام حسين کي جنگ ميں اُن کے بعض دوستوں نے بھي اُن سے منہ موڑ ليا تھا جيسا کہ اُن ميں سے ايک سے جب سيد الشہدا نے کہا کہ ’’آو ميري مدد کرو‘‘ تو اُس نے مدد کرنے کے بجائے حضرت کیلئے اپنا گھوڑا بھيج ديا اور کہا کہ ’’ميرے گھوڑے سے استفادہ کيجئے‘‘۔
اِس سے بھي بڑھ کر غربت و تنہائي اور کيا ہو گي اور اِس غريبانہ جنگ سے بھي بڑھ کر اور کون سي جنگ ہے؟! اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس غربت و تنہائي کي جنگ ميں اُس کے عزيز ترين افراد کو اُس کي آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرديا جاتا ہے، اُس کے بھتيجے، بيٹے، بھانجے، بھائي، چچا زاد بھائي ، بہترين اصحاب اور گل ہائے بني ہاشم اُس کے سامنے ايڑياں رگڑ رگڑ کر جان دے ديتے ہيں ! حتيٰ اُس کے شير خوار شش ماہہ بچے کو بھي موت کے گھاٹ اتار ديا جاتا ہے!
اِن تمام مصائب اور جان فرسا سختيوں کے علاہ وہ جانتا ہے کہ جيسے ہي اُس کي روح اُس کے جسم سے جدا ہوگي اُس کے اہل و عيال، بے پناہ و بے دفاع ہوجائيں گے اور دشمن کے حملوں کا نشانہ بنيں گے۔ وہ اِس بات سے بھي آگاہ ہے کہ سپاہِ يزيد کے بھوکے بھيڑيے اُس کي چھوٹي اور نوجوان بچيوں پر حملہ آور ہوں گے، اُن کے ننھے ننھے دلوں کو خوف سے دہلا ئيں گے اور اُن کي بے حرمتي کريں گے۔ وہ اِس بات کا بھي علم رکھتا ہے کہ يہ بے غيرت لوگ دنيائے اسلام کي مشہور شخصيات سے تعلق رکھنے والي امير المومنين کي عظيم دختر حضرت زينب کبريٰ ٭ کي بے حرمتي اور اُن سے جسارت کريں گے؛ وہ اِن تمام حالات سے آگاہ و باخبر تھا۔
اِن مشکلات اور سختيوں کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل و عيال کي تشنگي کا بھي اضافہ کيجئے؛ شير خوار بچہ تشنہ، چھوٹے بچے اور بچياں پياس سے جاں بہ لب اور نڈھال، بوڑھے اور ضعيف العمر افراد تشنگي سے بے حال؛ کيا آپ تصور کرسکتے ہيں کہ يہ جنگ کتني سخت ہے؟ اتناپاک و پاکيزہ، نوراني اور عظيم المرتبت انسان کہ آسمان سے ملائکہ جس کي زيارت کيلئے ايک دوسرے پر سبقت ليتے ہيں تاکہ اُس سے متبرّک ہوں، ايسا انسان کہ انبيائ اور اوليائ جس کے بلند و بالا مقام پر رشک کرتے ہيں، ايسي سخت ترين جنگ اور شديد ترين مصائب اور طاقت فرسا سختيوں کے ساتھ شہيد ہوجاتا ہے! ايسے شخص کي شہامت بہت ہي عجيب و غريب ہے، ايسا کون سا انسان ہے کہ جو اِس دلخراش واقعہ کو سن کر متآثر نہ ہواوروہ کون انسان ہے کہ جس کے سينے ميںدل دھڑکتا ہو اوروہ اِس واقعہ کو سمجھے ، پہچانے اور اُس کا عاشق نہ بنے؟!
يہ وہ چشمہ ہے جو روزِعاشوراُس وقت جاري ہوا کہ جب حضرت زينب ٭’’تلّہ زينبيہ‘‘پر تشريف لے گئيں اور پيغمبر ۰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’يَا رَسُولَ اللّٰہِ ! صَلّيٰ عَلَيکَ مَلَائِکۃُ السَّمَآئِ ، ھَذاحُسَين مُرَمَّل? بِالدِّمَآئِ ، مُقَطَّعُ الاَعضَآئِ ، مَسلُوبَ العَمَّامَۃِ والرِّدَآئِ‘‘؛ ’’ اے نانا رسول اللہ ۰! آسمان کے ملائکہ آپ پر درودو سلام بھيجيں،يہ آپ کا حسين ہے، اپنے ہي خون ميںغلطاں، جس کا جسم پائمال ہے اور جس کے عمامے اورعبا کو لوٹ ليا گيا ہے‘‘۔ حضرت زينب ٭ نے يہاں امام حسين کے مصائب پڑھنے شروع کيے اور با آواز بلند اُس واقعہ کو بيان کرنا شروع کيا کہ جسے يہ لوگ چھپانا چاہتے تھے۔ سيد الشہدا کي عظيم المرتبت خواہر نے کربلاوکوفہ اور شام و مدينہ ميں با آواز بلند واقعہ عاشورا کو بيان کيا، يہ چشمہ اُس وقت اُبلا اور آج تک جاري و ساري ہے!
تحريک کربلا ميں ’’عبد اللہ ابن عباس ‘‘ اور ’’عبد اللہ ابن جعفر‘‘ جيسے افراد بھي جو خاندان بني ہاشم سے تعلق کھتے ہيں اور اِسي شجرہ طيبہ سے متصل ہيں، جرآت نہيں کرتے کہ مکہ يا مدينہ ميں کھڑے ہوکر فرياد بلند کريں اور امام حسين کيلئے اور اُن کي حمايت ميں نعرے لگائيں؛يہ ہے غريبانہ جنگ اور مبارزہ!اوريہ ايسي سخت ترين جنگ ہے کہ جہاں تمام افراد اِس لڑنے والے انسان سے روگرداں اور اُس کے دشمن ہوں۔ امام حسين کي جنگ ميں اُن کے بعض دوستوں نے بھي اُن سے منہ موڑ ليا تھا جيسا کہ اُن ميں سے ايک سے جب سيد الشہدا نے کہا کہ ’’آو ميري مدد کرو‘‘ تو اُس نے مدد کرنے کے بجائے حضرت کیلئے اپنا گھوڑا بھيج ديا اور کہا کہ ’’ميرے گھوڑے سے استفادہ کيجئے‘‘۔
اِس سے بھي بڑھ کر غربت و تنہائي اور کيا ہو گي اور اِس غريبانہ جنگ سے بھي بڑھ کر اور کون سي جنگ ہے؟! اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس غربت و تنہائي کي جنگ ميں اُس کے عزيز ترين افراد کو اُس کي آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرديا جاتا ہے، اُس کے بھتيجے، بيٹے، بھانجے، بھائي، چچا زاد بھائي ، بہترين اصحاب اور گل ہائے بني ہاشم اُس کے سامنے ايڑياں رگڑ رگڑ کر جان دے ديتے ہيں ! حتيٰ اُس کے شير خوار شش ماہہ بچے کو بھي موت کے گھاٹ اتار ديا جاتا ہے!
اِن تمام مصائب اور جان فرسا سختيوں کے علاہ وہ جانتا ہے کہ جيسے ہي اُس کي روح اُس کے جسم سے جدا ہوگي اُس کے اہل و عيال، بے پناہ و بے دفاع ہوجائيں گے اور دشمن کے حملوں کا نشانہ بنيں گے۔ وہ اِس بات سے بھي آگاہ ہے کہ سپاہِ يزيد کے بھوکے بھيڑيے اُس کي چھوٹي اور نوجوان بچيوں پر حملہ آور ہوں گے، اُن کے ننھے ننھے دلوں کو خوف سے دہلا ئيں گے اور اُن کي بے حرمتي کريں گے۔ وہ اِس بات کا بھي علم رکھتا ہے کہ يہ بے غيرت لوگ دنيائے اسلام کي مشہور شخصيات سے تعلق رکھنے والي امير المومنين کي عظيم دختر حضرت زينب کبريٰ ٭ کي بے حرمتي اور اُن سے جسارت کريں گے؛ وہ اِن تمام حالات سے آگاہ و باخبر تھا۔
اِن مشکلات اور سختيوں کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل و عيال کي تشنگي کا بھي اضافہ کيجئے؛ شير خوار بچہ تشنہ، چھوٹے بچے اور بچياں پياس سے جاں بہ لب اور نڈھال، بوڑھے اور ضعيف العمر افراد تشنگي سے بے حال؛ کيا آپ تصور کرسکتے ہيں کہ يہ جنگ کتني سخت ہے؟ اتناپاک و پاکيزہ، نوراني اور عظيم المرتبت انسان کہ آسمان سے ملائکہ جس کي زيارت کيلئے ايک دوسرے پر سبقت ليتے ہيں تاکہ اُس سے متبرّک ہوں، ايسا انسان کہ انبيائ اور اوليائ جس کے بلند و بالا مقام پر رشک کرتے ہيں، ايسي سخت ترين جنگ اور شديد ترين مصائب اور طاقت فرسا سختيوں کے ساتھ شہيد ہوجاتا ہے! ايسے شخص کي شہامت بہت ہي عجيب و غريب ہے، ايسا کون سا انسان ہے کہ جو اِس دلخراش واقعہ کو سن کر متآثر نہ ہواوروہ کون انسان ہے کہ جس کے سينے ميںدل دھڑکتا ہو اوروہ اِس واقعہ کو سمجھے ، پہچانے اور اُس کا عاشق نہ بنے؟!
يہ وہ چشمہ ہے جو روزِعاشوراُس وقت جاري ہوا کہ جب حضرت زينب ٭’’تلّہ زينبيہ‘‘پر تشريف لے گئيں اور پيغمبر ۰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’يَا رَسُولَ اللّٰہِ ! صَلّيٰ عَلَيکَ مَلَائِکۃُ السَّمَآئِ ، ھَذاحُسَين مُرَمَّل? بِالدِّمَآئِ ، مُقَطَّعُ الاَعضَآئِ ، مَسلُوبَ العَمَّامَۃِ والرِّدَآئِ‘‘؛ ’’ اے نانا رسول اللہ ۰! آسمان کے ملائکہ آپ پر درودو سلام بھيجيں،يہ آپ کا حسين ہے، اپنے ہي خون ميںغلطاں، جس کا جسم پائمال ہے اور جس کے عمامے اورعبا کو لوٹ ليا گيا ہے‘‘۔ حضرت زينب ٭ نے يہاں امام حسين کے مصائب پڑھنے شروع کيے اور با آواز بلند اُس واقعہ کو بيان کرنا شروع کيا کہ جسے يہ لوگ چھپانا چاہتے تھے۔ سيد الشہدا کي عظيم المرتبت خواہر نے کربلاوکوفہ اور شام و مدينہ ميں با آواز بلند واقعہ عاشورا کو بيان کيا، يہ چشمہ اُس وقت اُبلا اور آج تک جاري و ساري ہے!
مجالس اور کربلا کي عظيم نعمت
جب ايک انسان کا دامن ايک نعمت سے خالي ہوتا ہے تو اُس سے اُس نعمت کاسوال بھي نہيں کيا جاتا ليکن جب انسان ايک نعمت سے بہرہ مند ہو تا ہے تو اُس سے اُس نعمت کے متعلق ضروربا ز پُرس کي جائے گي۔ ہمارے پاس بزرگترين نعمتوں ميں سے ايک نعمت،مجالس عزا ، محرم اور کربلا کي نعمت ہے؛افسوس يہ ہے کہ ہمارے غير شيعہ مسلمان بھائيوں نے اپنے آپ کو اِس نعمت عظميٰ سے محروم کيا ہوا ہے، وہ اِس نعمت سے بہرہ مند ہوسکتے ہيں اور اِس کے امکانات بھي موجود ہيں۔ البتہ بعض غير شيعہ مسلمان بھي دنيا کے گوشہ و کنار ميں محرم کے ذکر اورواقعہ کربلا سے بہرہ منداور مستفيد ہوتے ہيں۔آج جبکہ ہمارے درميان محرم اور واقعہ کربلا کا تذکرہ اور امام حسين کي بے مثال قرباني کا ذکر موجود ہے تو اِيسے وقت ميںاِن مجالس اور تذکرے سے کيا فائدہ اٹھايا جاسکتا ہے اور اِس نعمت کا شکرانہ کيا ہے؟
ظالم طاقتوںکاکربلاسے خوف ميں مبتلا ہونا
يہ عظيم نعمت ،ہمارے قلوب کو ايمان و اسلام کے منبع سے متصل کرتي ہے اور ايسا کام انجام ديتي ہے کہ جو اُس نے تاريخ ميں انجام ديا کہ جس کي وجہ سے ظالم و جابر اور ستمگر حکمران واقعہ کربلا سے خوف ميں مبتلا ہوگئے حتيٰ کہ امام حسين کي قبر مبارک سے بھي خوف کھانے لگے۔ واقعہ کربلا اور شہدائے کربلا سے خوف و ہراس بني اميہ کے زمانے سے شروع ہوا اور آج تک يہ سلسلہ جاري ہے۔ آپ نے اِس کا ايک نمونہ خود ہمارے انقلاب ميں اپني آنکھوں سے ديکھا ہے، جب بھي محرم کا چاند طلوع ہوتا تھا تو کافر و فاسق پہلوي حکومت اپنے ہاتھوں کو بندھاہوامحسوس کرتي اور ہماري کربلائي عوام کے مقابلے کيلئے خود کو عاجز پاتي تھي اور پہلوي حکومت کے اعليٰ حکام محرم کے سامنے عاجز و درماندہ ہوجاتے تھے! اُس حکومت کي رپورٹوں ميں اشاروں اور صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محرم کي آمد سے بالکل چکرا جاتے تھے۔ حضرت امام خميني۲ ، اُس دين شناس، دنيا شناس اور انسان شناس حکيم و دانا نے سمجھ ليا تھا کہ امام حسين کے اہداف تک رسائي کيلئے اِس واقعہ سے کس طرح استفادہ کيا جاسکتا ہے اور اُنہوں نے اِس سے اچھي طرح استفادہ کيا بھي۔ (3)
١ بحار الانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٦٦
2 خطبہ نماز جمعہ 15/6/2000
Post a Comment