آزادی پسند امام


آزادی پسند امام

گزشتہ چند صدیوں کی بنسبت آج حسین ابن علی علیہما السلام کی شخصیت زیادہ معروف و مقبول ہے ۔ آج کے حالات میں جب بھی  کوئی بے غرض مفکر اور دانشور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو واقعہ کربلا پر پہنچ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔ وہ افراد جن کا بظاہر اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ لیکن آزادی ، عدالت ، عزت ، سر بلندی اور دوسرے انسانی اقدار کے قدر داں ہیں وہ سب آزادی ، عدالت ، استقلال ، برائیوں سے مقابلے اور جہالت کے خلاف جنگ میں امام حسین علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے ہیں ۔ ( ۲ )

 مقصد قیام ؟

امام حسین ( ع ) سے کہا جاتا تھا  پورا مکہ اور مدینہ آپ کا احترام کرتا ہے ۔ اور یمن میں آپ کے اتنے چاہنے والے ہیں ۔ کہیں بھی  چلے جائیے تا کہ نہ آپ کو یزید سے کوئی مطلب ہو اور نہ یزید کو آپ سے کوئی سروکار ۔
اتنے شیعہ ، اتنے چاہنے والے ، اتنے پیرو کار آرام سے زندگی بسر کیجئے ، خدا کی عبادت کیجئے اور اس کے دین کی تبلیغ کیجئے آخر یہ قیام کس لئے ؟ آپ کا کیا مقصد ہے ؟

 کیا آپ کا مقصد حکومت تھا  ؟

بعض لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد یہ تھا  کہ یزید جیسے فاسق و فاجر انسان کو حکومت سے بر طرف کر کے خود حکومت کریں ۔ ہم نہیں کہتےکہ یہ بات بالکل غلط ہے البتہ آدھی صحیح ہے ۔  ان افراد کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے سوچا قیام کرتے ہیں اگر کامیاب ہوگئے تو حکومت اپنےہاتھ میں لے لیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے تو واپس آجائیں گے ۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔
جی ہاں ! جو حکومت کی غرض سے قیام کرتا ہے وہ وہیں تک آگے بڑھتا  ہے جہاں تک ممکن ہو لیکن جہاں اس نے دیکھا  کہ اب آگے بڑھنا  نا ممکن ہے تو پلٹ آتا ہے ۔ اگر کسی کا مقصد حکومت قائم کرنا ہے تو اسے وہیں تک جانا چاہتے جہاں جانے کا امکان ہے لیکن جہاں سے آگے بڑھنا  ممکن نہ ہو عقلمندی یہی ہے کہ پلٹ آئے ۔
جو شخص یہ کہتا ہے امام حکومت علوی کے قیام کے لئے اٹھے  تھے  اور اس کی مراد یہ ہو جو ہم نے بیان کیا تو اس کا نظریہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام سے کہیں بھی  یہ بات سمجھ  میں نہیں آتی ۔

 تو پھر  کیا قیام کا مقصد شہادت تھا  ؟

بعض لوگ کہتے ہیں یہ حکومت و کومت سب بیکار کی باتیں ہیں امام حسین علیہ السلام جانتے تھے  کہ وہ حکومت کا قیام عمل میں نہیں لا سکتے وہ تو اس لئے آئے تھے  تا کہ خدا کی راہ میں قربانی دیں اور شہید ہوجائیں ۔
ایک مدت تک لوگ اسی نطریہ کے قائل تھے  ۔ بعض لوگ شاعرانہ تعبیروں کے ساتھ  اسے بیان کرتے بلکہ بعض بزرگ علما بھی  اس کے قائل ہوگئے تھے  ۔ وہ سب کہتے ہیں کہ امام عالی مقام نے دیکھا  کہ اب زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں لہٰذا شہادت کے ذریعہ ہی کچھ  کیا جائے ۔
اسلام اس کی بھی  اجازت نہیں دیتا اس لئے اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو اور قتل کر دیئے جاؤ ۔ شریعت اور دین نے جس شہادت کی بات کی ہے اس شہادت کا مطلب یہ ہے انسان ایک عظیم مقصد کی خاطر قیام کرے اور اس راہ میں اپنی جان بھی  دیدے ۔ یہ ہے وہ شہادت جسے اسلامی اور دینی شہادت کہا جا سکتا ہے شہادت یہ نہیں ہے میں دوڑ کر میدان میں جاؤں تاکہ شہید کر دیا جاؤں یا شاعرانہ تعبیر میں کہا جائے کہ میرا خون ظلم و ستم کے ایوان ہلا دے اور اسے منہ کی کہانے پڑے ۔ امام حسین علیہ السلام کے عظیم قیام کا مقصد یہ بھی  نہیں تھا  جو کہا جاتا ہے ۔

 ایک واجب کو انجام دینا

لہٰذا نہ کلی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے امام عالی مقام نے حکومت کے لئے قیام کیا اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے ان کے قیام کا مقصد شہادت تھا  ۔
میری نظر میں جو لوگ " حکومت " یا " شہادت " کے قائل ہیں انہوں نے ہدف اور نتیجہ کو ملا دیا ہے ۔ امام کے قیام کا مقصد یہ نہیں تھا ،امام کے قیام کا مقصد کچھ  اور تھا  البتہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انہیں ایک ایسا راستہ طے کرنا تھا  جس کا نتیجہ دو ہی چیزیں تھی ں حکومت یا شہادت امام حسین علیہ السلام ان دونوں چیزوں کے لئے آمادہ تھے  ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات کو بھی  فراہم کر لیا تھا  اور شہادت کی آمادگی بھی  کر چکے تھے  ۔ اب جو بھی ہاتھ آتا وہی صحیح تھا  ، اس میں کوئی عیب نہیں تھا  لیکن ان میں سے کوئی بھی  مقصد نہیں تھا  بلکہ نتیجہ تھا  ۔ ہدف کچھ اورہوتا ہے ۔
اگر امام حسین علیہ السلام کے صحیح ہدف کو بیان کرنا ہے تو اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ امام عالی مقام کے قیام کا ہدف ایک ایسے واجب کی انجام وہی تھا  جو امام حسین علیہ السلام سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا تھا  یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے بھی  ۔ ( ۳ )

 اسلام کا ایک رکن

اسلام کے عملی احکام کا صرف ایک حکم جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تھا ۔ اور یہ اسلامی نظام کے ارکان کا ایک اہم رکن ہے ۔ اور وہ حکم اور رکن یہ تھا  کہ جب بھی  یہ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کی گاڑی پٹری سے نیچے آجائے اور اس کانظام بالکل الٹ جائے تو اس وقت امت مسلمہ کی ذمہ داری کیا ہے ؟ اگر بانی اسلام تمام اسلامی احکام و قوانین بیان کرتے لیکن صرف یہ ایک حکم بیان نہ کرتے تو ان کا کام ناقص رہ جاتا لیکن انہوں  نے یہ بھی  بیان کر دیا تھا۔وہ مسلمانوں سےکہہ کر گئے تھے  اگر کسی وقت بھی  اسلامی معاشرہ اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائے اور صاحبان قدرت و ثروت ، مسلم نما منافقین یا کوئی بھی  اسلامی سماج کا رخ بدلنا چاہے تو اس کے مقابلے میں امت مسلمہ کو کیا کرنا ہوگا ؟ پیغمبر اکرم ( ص ) یہ کہہ کر گئے تھے  لیکن خود عمل نہیں کر سکے کیونکہ پیغمبر اکرم ( ص ) جب تک با حیات تھے  تب تک امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے میں ایسا کوئی انحراف پیدا نہیں ہوا تھا  ۔ اسلام کا یہ رکن پیغمبر اکرم ( ص ) نے اس لئے بیان کیا تھا  کیونکہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کے زمانے میں ایسا ہونا عین ممکن تھا  چاہے وہ کسی بھی  جانشین کے زمانے میں ہوتا ۔ جس امام کے زمانے میں بھی  یہ صورتحال پیدا ہوتی اسے وہی کرنا ہوتا جو پیغمبر نے بتایا تھا  ۔ اگر امیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تو وہ ویسا ہی کرتے جیسا پیغمبر ( ص ) نے بتایا تھا  یا اگر امام علی نقی علیہ السلام یا امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تب بھی  ان کی یہی ذمہ داری تھی  ۔ اب چونکہ یہ صورتحال امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش آئی لہٰذا ان کی ذمہ داری تھی  کہ وہ اس پر عمل کرتے ۔ تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی سماج کو دوبارہ اسی حالت پر لے آتے جہاں پر وہ پہلے تھا  ۔ یہ امام عالی مقام کی ذمہ داری تھی  اور واقعہ عاشورا کی واقعیت اور حقیقت یہی ہے ( ۴ )

 ہمارےانقلاب کی گاڑی

امام حسین علیہ السلام نے  ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : " ایہا الناس " اے لوگو ! یعنی اے وہ لوگو ! جو میرے ساتھ  ارو میری تحریک حقیقت اور مقصد کوسمجھنا چاہتے ہو، اور اے وہ لوگو ! جو آج دشمن بن کر ہمارے سامنےکھڑے ہو اور اے غیر جانبدارغافلو! جن تک میرے حسین کے قیام کی خبر پہنچے گی لیکن تمہیں معلوم نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قیام کیا ۔ اور اے وہ لوگو ! جو اسلام کے احکام اور خدا کی شریعت کو جاننا چاہتے ہو ہماری تحریک سے بے خبر ہو ۔
تم سب جان لو ! " ایھا الناس ان رسول اللہ قال من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللھ ناکثاً لعھد اللہ یعمل فی عباد اللھ بالجوروالعدوان فلم یغیرعلیھ بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ " یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کے کلمات ہیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں ، یہ وہی حکم ہے جو پیغمبر نے دیا ہے اور میں اس حکم پر عمل کر رہا ہوں اور وہ حکم یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی بھی  یہ دیکھ  کہ معاشرے کی باگ ڈور کی ایسے شخص کے ہاتھوں  میں ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے ۔ اس کے دل میں لوگوں کی نسبت بغض و عداوت اور کینہ ہے ۔ اسے لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں اور لوگوں سے بالکل محبت نہیں کرتا ۔ اسے اس سے سروکار نہیں ہے معاشرے کی مصلحت کیا ہے بلکہ اسے اس سے مطلب ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اس کا فائدہ کس چیز میں ہے ۔ جو بھی  ایسے شخص کو بر سر حکومت دیکھے  اور اس کے خلاف قیام نہ کرے بلکہ بت بنا دیکھتا رہے تو خدا کو حق ہے کہ قیامت کے دن اسے بھی  وہی سزا دے جو اس ظالم کی ہوگی ۔ یہی وہ انجن تھا  جس نے ہمارے انقلاب کی گاڑی کو آگے بڑھایا ۔ ( ۵ )

 سب سے بڑا ہنر

امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں اور پیرو کاروں میں بہت سے امام حسین (ع) اور ان کی تحریک کو سمجھ  چکے تھے  ( اس لئے امام کے نقش قدم پر چل پڑے ) اور بعض نہیں سمجھ  پائے تھے  ( اس لئے وہ قافلۂ حسینی سے پیچھے  رہ گئے ) ۔
دشمن تو خیر دشمن تھے  ۔ دشمن ایسے تھے  جیسے ایک گہرا سمندر ہو اور اس کی خطرناک  اور سرکش موجیں ۔ دوستوں میں بعض دانا تھے  جو امام کی معرفت حاصل کر چکے تھے  اسی لئے ان حساس لمحوں میں حسین ابن علی کو تنہا نہیں چھوڑ ا اور بعض امام کے پاس ہوتے ہوئے انہیں نہ سمجھ  پائے اور غلطی کر بیٹھے  ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر کو اسلام اور خاندان پیغمبر سے محبت نہیں تھی  ؟ یہ سب تو پیغمبر اکرم ( ص ) کے دامان محبت میں پروان چڑہے تھے  لیکن یہاں غلطی کر بیٹھے  ۔ نہیں جانتے تھے  کہ وہ سر زمین جس کا دفاع واجب ہے کہاں ہے اور وہ چیز جس کے لئے فدا کاری کرنی چاہئے کون سی ہے ؟ مدینہ ہی میں رہے تا کہ چار مسئلے بیان کر سکیں لیکن اسلام مجسم ، قرآن ناطق ، فاطمہ کے لخت جگر حسین کو تنہا چھوڑ  دیا ۔
بعض لوگ کربلا تک آئے ، جنگ کی، امام کا دفاع بھی  کیا لیکن آخری لمحوں میں امام کی خدمت میں آکر کہنے لگے : مولا ہم سے جہاں تک ہو سکتا ہے آپ کا دفاع کیا اب اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم خدا حافظی کریں ( اور اپنے گھروں کو جائیں ) امام نے بھی  اجازت دے دی اور کہا بسم اللہ آپ لوگ جا سکتے ہیں ۔ بہت سے افراد تھے  جو اس وقت خاموش رہے اور بیٹھے  رہے جب اسلام کےلئے سب سے بنیادی اور ضروری دفاع کا وقت تھا  ۔
آج بھی  جو لوگ اسلام کا دم بہرتے ہیں ، اسلام کی باتیں کرتے ہیں اور اسلام کے دعویدار ہیں ، ان میں سے بہت سے نہیں جانتے کہ اسلام کہاں ہے اور کہاں اسلام کا دفاع کرنا چاہئے ۔ سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ انسان صحیح وقت اور جگہ کو پہچانے۔ حبیب ابن مظاہر جیسے افراد نے اچھی  طرح پہچان لیا تھا  ( اس لئے آخری دم تک امام کا ساتھ  نہیں چھوڑ ا ) جناب زینب نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی  لے کر آگئیں ۔ جب کہ ان کے شوہر عبد اللہ ابن جعفر مکہ یا مدینہ میں بیٹھے  رہے اور کربلا نہیں آئے ۔ جناب زینب یہ کہہ سکتی تھیں کہ میں اپنے بھائی  کے ساتھ  جا رہی ہوں بچوں کو باپ کے پاس چھوڑ  کے جاتی ہوں لیکن وہ بچوں کو بھی  لے کر آئیں اور ان کے دونوں بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بصیرت رکھتے  ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا کرنا ہے۔ ( ۶ )

 سچائی کا خاتمہ ہو جاتا

امام عالی مقام جانتے تھے  کہ اگر انہوں نے یہ قیام نہ کیا تو ان کا یہ سکوت اور خاموشی رضامندی کی علامت بن جائے گی اور پھر  اسلام پر کیا مصیبت آن پڑے گی ۔ جب ایک طاقت معاشروں یا کسی ایک معاشرے کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے اور طغیان و بربریت کا راستہ پر گامزن ہو جائے، ایسے موقع پر حق و حقیقت کے علمبردار اگر خاموش بیٹھے  رہیں اور ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں تو گویا وہ بھی  اس طاقت کے عمل سے راضی ہیں چاہتے در حقیقت وہ راضی ہوں یا نہ ہوں ۔ یہی وہ گناہ  تھا جو اس وقت بنی ہاشم کے بہت سے بزرگوں اور صدر اسلام کی اہم شخصیات کی اولاد نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی  اس لئے آپ نے قیام کیا ۔
واقعہ کربلا کے بعد جب قافلۂ حسینی واپس مدینہ میں آیا ۔ ( یعنی مدینہ مدینے سے نکلنے کے دس ، گیارہ مہینے بعد ) ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہنے لگے : دیکھا  کیا ہوا ؟ کیا ملا وہاں جاکر ؟ امام نے اس کے جواب میں فرمایا: سوچو اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ؟!
جی ہاں ! اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ! جسم تو زندہ ہوتے لیکن سچائی دم توڑ چکی ہوتی ، روح فرسودہ ہوجاتی ، ضمیر مردہ ہوجاتے عقل و خرد کا جنازہ نکل جاتا اور اسلام کا نام و نشان باقی نہ رہتا ۔ ( ۷ )

علما سے خطاب

اس وقت کے علما کا ایک گروہ تشکیل ہوا جنہوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا  تھا  ، جو ان کے صحابی تھے  ، جنہوں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یا ان افراد سے حدیثیں تھیں جو پیغمبر سے حدیثیں نقل کرتے تھے  ۔ وہ افراد جو لوگوں کی نگاہوں میں قابل احترام تھے  اور دانشوران قوم کہے جاتے تھے  ۔ انہیں افراد میں سے کچھ  کو حسین ابن علی نے منی کے میدان میں اکٹھا  کیا اور ان سے ایک مفصل گفتگو کی ۔ گفتگو کے آخر میں امام عالی مقام آسمان کی طرف رخ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ( اللھم انک تعلم انھ لم یکن ما کان منا مناسفۃ فی سلطان ) ۔
خدایا تو بہتر جانتا ہے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے ، جو قدم ہم نے اٹھ ایا ہے ، جو باتیں ہم کہتے ہیں یہ ان اہداف و مقاصد کے لئے نہیں ہیں جو عام طور سے دنیا طلب ، جنگجو اور لشکر کشی کرنے والے افراد کے ہوا کرتے تھے  یا ہوا کرتے ہیں ( و لکن لنری المعالم من دینک ) ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ پرچم اسلام کو پہچانیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دین کی ان پوشیدہ علامتوں قرآن و اسلام کی فراموش شدہ اقدار ، اہداف اور اصولوں کو دوبارہ زندہ کریں جن پر بہت زیادہ گرد و غبار پڑ گیا ہے ( و نظھر الاصلاح فی بلادک ) اور ہمارا ارادہ ہے کہ تیری سر زمین اور تیرے شہر میں اصلاح کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں کو آباد کریں ، اس ظلم ، اس طبقاتی اختلاف غرباکا شدید فقر اور افراد کی حد سے زیادہ دولت نہ رہے ۔ انسان ظلم کا شکار نہ ہو ، نا انصافی اور روا داری نہ رہے اور سب کچھ  ٹھیک  ہوجائے ۔ (ویامن المظلومون من عبادک) اور ہماری تحریک کا مقصد یہ ہے کہ تیسرے ستمدیدہ اور مظلوم بندوں کو امن و امان اور سکون دلائیں ۔
وہ ایسا زمانہ تھا  کہ جو بھی  حکام وقت کی عیش و نوش اور ہوسرانیوں کے خلاف آواز بلند کرتا تھا  اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی  ( ۸ )

Post a Comment

[blogger]

MKRdezign

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget